اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


ویسے تو ہم نے چین میں بہت عیدیں گزاری ہیں لیکن منائی صرف ایک ہے۔ اس بلاگ میں اسی کا حال لکھ رہے ہیں۔

ہم 2015ء میں ایم فل کرنے چین آئے تھے۔ ہمارے والدین کے لیے ہمیں ملک سے باہر بھیجنا ایک مشکل فیصلہ تھا جو انہوں نے ہماری خوشی کی خاطر لیا ورنہ ہم اس وقت نہ ہی پی ایچ ڈی کر رہے ہوتے اور نہ ہی چین نامہ لکھ رہے ہوتے بلکہ عین ممکن ہے کسی کے گھر برتن مانجھ رہے ہوتے اور شام میں 'آخر تم پورا دن کرتی ہی کیا ہو' سُن رہے ہوتے۔

خیر، ہم نے اپنا ایم فل کا مقالہ جمع کروانے کے بعد گھر فون کیا اور اپنے والدین کو گریجویشن کی تقریب میں آنے کی دعوت دے دی جو انہوں نے بخوشی قبول کرلی۔ ہماری گریجویشن رمضان کے آخری عشرے میں تھی۔ یوں ہمیں چین میں ایک عید اپنے والدین کے ساتھ منانے کا موقع ملا۔ وہ عید بلاشبہ ہماری زندگی کی یادگار عیدوں میں سے ایک عید ہے۔

گریجویشن کی تقریب رمضان کے آخری عشرے میں تھی سو والدین کے ساتھ چین میں عید منانے کا موقع مل گیا
گریجویشن کی تقریب رمضان کے آخری عشرے میں تھی سو والدین کے ساتھ چین میں عید منانے کا موقع مل گیا

ہمارے والدین پاکستان سے سحری کرکے جہاز میں بیٹھے اور ساڑھے 5 گھنٹوں میں بیجنگ پہنچ گئے۔ ہم انہیں اپنے ساتھ یونیورسٹی لائے۔ ہم نے یونیورسٹی کے قریب ہی ایک ہوٹل میں ان کا کمرا بُک کروایا ہوا تھا۔ شام کو گریجویشن کی تقریب تھی اور اسی کے دوران روزہ افطار ہونا تھا۔ ہم نے ان کے لیے یونیورسٹی کی مارکیٹ سے فروٹ چاٹ خرید لی۔ اس فروٹ چاٹ کے لیے پلاسٹک کے بڑے سے گلاس میں تھوڑا سا میٹھا دہی ڈالا جاتا ہے، پھر گلاس کو مختلف اقسام کے پھلوں سے بھرا جاتا ہے اور ان کے اوپر پھر سے دہی ڈال دیا جاتا ہے۔ دہی کا ذائقہ اتنا منفرد سا ہوتا ہے کہ یہ سادی سی چاٹ کھانے میں بہت اچھی لگتی ہے۔

ہم نے پاکستان میں ایک مشہور کمپنی کی دہی سے ایسی ہی چاٹ بنانے کی کوشش کی پر وہ ذائقہ نہیں آیا۔ اب واپس آئیں گے تو کم از کم اس دہی کو بنانے کا طریقہ سیکھ کر آئیں گے۔ گریجویش کی تقریب کے بعد ہم کھانا کھانے ایک قریبی حلال ریسٹورینٹ گئے۔ ہمارے والدین پہلی بار چینی کھانا کھا رہے تھے اس لیے ڈرے ہوئے تھے۔ ہم نے انہیں حلال کا نشان دکھایا اور کہا بے فکر ہو کر کھائیں۔ چوہے، بلی یہاں نہیں ملتے۔

والدین پہلی بار چینی کھانا کھا رہے تھے
والدین پہلی بار چینی کھانا کھا رہے تھے

عید کا اعلان ہوا تو ہم نے اپنے والد سے پوچھا کہ وہ عید کی نماز کہاں ادا کرنا چاہیں گے۔ بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے کے اندر ایک مسجد موجود ہے۔ عید پر وہاں باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے۔ اگرچہ سفارت خانے والے پوری کوشش کرتے ہیں کہ سفارت خانے میں موجود کسی سہولت سے ان کے علاوہ کوئی اور فائدہ نہ اٹھا سکے، پھر بھی ہم نے سب سے پہلے انہیں وہیں کا آپشن دیا۔

دوسرے نمبر پر جنوبی سوڈان کا سفارت خانہ تھا۔ ان کے دل ہمارے سفارت خانے والوں سے بڑے ہیں۔ وہ سوڈانیوں کے علاوہ دیگر ممالک کے مسلمانوں کو بھی عید پر اپنی مسجد میں نماز پڑھنے دیتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر چینی مساجد تھیں۔ بابا نے کہا وہ عید کی نماز چینی مسجد میں ادا کریں گے۔ چین میں عید منا رہے ہیں تو مقامی افراد کے ساتھ ہی منانی چاہیے۔ ہم نے ان کی بات سے اتفاق کیا اور انٹرنیٹ پر بیجنگ میں موجود مساجد دیکھنے لگے۔

ہمیں پتا لگا کہ بیجنگ کے جنوب مغربی حصے میں 'نیوجی' کے نام سے ایک علاقہ ہے جو مسلمانوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں بیجنگ کی قدیم ترین مسجد موجود ہے جسے علاقے کی مناسبت سے نیوجی مسجد کہا جاتا ہے یا شاید علاقے کو اس کی مناسبت سے نیوجی کہا جاتا ہے۔ ہم نے عید پر اپنے والدین کو وہیں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے 4 دوستوں (تنزانیہ سے قاسم، جنوبی سوڈان سے متوکل، مالی سے ابو اور کینیا سے خدیجہ) نے بھی ہمارے ساتھ چلنے کا پروگرام بنا لیا۔

والد محترم مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے ہمراہ
والد محترم مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے ہمراہ

عید والے دن ہم سب صبح سویرے سب وے کے ذریعے مسجد کے لیے نکل پڑے۔ ہم سب نے اپنے اپنے ملکوں کے روایتی لباس پہنے ہوئے تھے۔ مسجد کے قریب سب وے میں چینی مسلمان بھی نظر آنا شروع ہوگئے۔ سب وے سے باہر نکلے تو ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ ایک تو علاقہ مسلمانوں کا تھا، اوپر سے عید بھی تھی، تو پورے شہر سے لوگ وہیں آ رہے تھے۔

نیوجی مسجد قریباً ایک ہزار سال پرانی ہے۔ اس کا کُل رقبہ 6 ہزار مربع میٹر ہے اور اس میں ایک وقت میں ایک ہزار مسلمان نماز ادا کرسکتے ہیں۔ ویسے تو مسجد تمام سیاحوں کے لیے کھلی رہتی ہے لیکن غیر مسلموں کو مسجد کے اندرونی حصے میں جہاں نماز ادا کی جاتی ہے، وہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

مسجد کا بیرونی حصہ چینی طرز کا بنا ہوا ہے لیکن اندرونی حصے میں اسلامی ثقافت اور فنِ تعمیر کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ چینی حکومت مسلمان ممالک سے آنے والے وفود کو چین میں اسلامی ثقافت کا تجربہ کروانے کے لیے نیوجی مسجد ضرور لاتی ہے۔ اس سے اس مسجد کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

نیوجی مسجد قریباً ایک ہزار سال پرانی ہے
نیوجی مسجد قریباً ایک ہزار سال پرانی ہے

نیوجی مسجد سب وے اسٹیشن سے تھوڑی دُور ہے۔ ہمیں مسجد تک پہنچنے کے لیے 10 سے 15 منٹ پیدل چلنا پڑا۔

رش بہت تھا لیکن لوگ ایک قطار میں اندر داخل ہو رہے تھے۔ چینی باشندوں کی یہ عادت بہت اچھی ہے۔ جہاں 4 لوگ جمع ہوتے ہیں خودبخود قطار بنالیتے ہیں۔ ہم بھی قطار میں شامل ہوگئے۔ سب نے روزمرہ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، وہی پینٹ، وہی شلوار۔ مردوں کے سروں پر ٹوپیاں تھیں اور عورتوں کے سر پر اسکارف۔ چین میں اسکارف چھوٹے سے کپڑے کو کہا جاتا ہے جو صرف سر کے گرد بندھا ہوتا ہے۔

مسجد کے صحن میں صفیں بچھی ہوئی تھیں۔ بہت سے چینی اور غیر ملکی ان پر بیٹھے ذکر و اذکار کر رہے تھے۔ ہم ابھی تک قطار میں لگے ہوئے تھے۔ اتنے میں اسپیکر سے امام صاحب کی آواز بلند ہوئی اور جماعت کھڑی ہوگئی۔ ہم گھبرا گئے۔ ہمیں دیر ہوچکی تھی۔ ہمیں گھر سے اور جلدی نکلنا چاہیے تھا۔ ہم خود کو کوس ہی رہے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں قاسم نے بابا کا ہاتھ پکڑا اور ایک صف میں گھس گیا۔ اردگرد موجود لوگوں نے خود ہی اِدھر اُدھر کھسک کر ان کے لیے جگہ بنادی۔ ہم نے شکر کا سانس لیا۔ رش اب بھی بہت تھا اور خواتین کا ہال اندر کہیں موجود تھا۔ ہم نے سوچ بچار کیا تو اندازہ ہوا کہ جتنی دیر میں ہم اپنی امّی کے ساتھ وہاں پہنچتے تب تک نماز ویسے بھی ختم ہوجانی ہے، اس لیے ہم نے امّی کا ہاتھ پکڑا اور ایک کونے میں جاکر بیٹھ گئے۔

نماز شروع ہوچکی تھی۔ لوگ ابھی بھی مسجد میں داخل ہو رہے تھے۔ پہلے شور تھا، مگر اب صرف امام صاحب کی آواز گونج رہی تھی۔ چینی ایک قطار میں اندر داخل ہو رہے تھے۔ بہت سوں کے ہاتھوں میں موبائل فون اور کیمرے تھے۔ وہ ویڈیو بناتے ہوئے قطار میں آگے چلتے جا رہے تھے۔ ہم نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ ابھی کوئی آئے گا اور انہیں مسجد کا احترام نہ کرنے پر لیکچر دے گا لیکن وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔

نماز ہوچکی تو ہمارے والد اردگرد نمازیوں سے گلے ملنے لگے۔ پھر ہماری طرف آگئے۔ ہم سے عید ملے۔ ہم نے انہیں بٹھایا اور بیگ سے جوس نکال کردیا۔ ہم نے سوچا وہ کچھ دیر سستا لیں تو مسجد کا ایک چکر لگائیں گے، دو چار تصاویر کھنچوائیں گے اور پھر کوئی اچھا سا ریسٹورینٹ ڈھونڈ کر وہاں کھانا کھائیں گے۔

ہم اپنے خیالوں سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ 8 سے 10 چینی کیمرے پکڑے ہمارے والدین کے سامنے کھڑے ہیں اور کھٹا کھٹ ان کی تصاویر بنا رہے ہیں۔ بیجنگ میں ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ چین کے بڑے شہروں میں لوگ غیر ملکیوں کے عادی ہوچکے ہیں البتہ چھوٹے شہروں میں ایسا نہیں ہے۔ شاید بابا کی سفید شلوار قمیض اور سفید داڑھی انہیں کافی منفرد لگ رہی تھی، تب ہی وہ ایسا ردِعمل دکھا رہے تھے۔

کچھ لمحوں بعد ایک چینی ان کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا۔ بیٹھنے سے پہلے اس نے چینی زبان میں ان سے تصویر کھینچنے کی اجازت بھی لی۔ اس کے بعد تو جیسے ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک اٹھتا تو دوسرا بیٹھ جاتا۔ 15 منٹ تک یہی ہوتا رہا۔ پھر ہم وہاں سے اُٹھ ہی گئے۔ اس کے باوجود مسجد سے باہر نکلنے تک کوئی نہ کوئی بابا کو روک کر ان کے ساتھ تصویر کھنچواتا رہا۔ بابا بھی تحمل کے ساتھ ان کی خواہش پوری کرتے رہے۔

مقامیوں  نے میرے والد کے ساتھ خوب تصویریں کھنچوائیں
مقامیوں نے میرے والد کے ساتھ خوب تصویریں کھنچوائیں

مسجد کے باہر نکلے تو وہاں اتوار بازار سا لگا ہوا تھا۔ چینی دکاندار زمین پر اپنی اپنی دکان سجائے بیٹھے تھے۔ کوئی کھلونے بیچ رہا تھا تو کوئی موزے تو کوئی ہاتھ میں پہننے والے بریسلیٹ۔ دھوپ بہت تیز ہوچکی تھی۔ بھوک بھی لگ رہی تھی تو ہم جلدی سے بازار سے گزرتے ہوئے اردگرد کھانے کی جگہ ڈھونڈنے لگے۔ وہ چونکہ علاقہ ہی مسلمانوں کا تھا تو وہاں بہت سے حلال ریسٹورینٹ بھی موجود تھے۔

ہم ایک میں گھس گئے۔ ہمارے والدین کو چین آئے ایک ہفتہ ہوچکا تھا۔ وہ بہت سے کھانوں سے واقف ہوچکے تھے اور دو چار ڈشز تو پسند بھی کرنے لگے تھے۔ ہم نے ان کے لیے مٹن بار بی کیو، نان کے علاوہ 3 پکوان اور منگوائیں۔ کھانے کے دوران بابا نے اپنی جیب سے 500 یوان نکالے اور ہماری طرف بڑھا دیے۔ یہ ہماری عیدی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد ہم نے گرد و نواح کا ایک اور چکر لگایا پھر واپس یونیورسٹی لوٹ آئے۔

ہم 2 سال پہلے پی ایچ ڈی کرنے چین واپس آئے تو ارادہ یہی تھا کہ جلد ہی گھر والوں کو دوبارہ بلائیں گے، مگر کورونا نے ہمارے ارادوں پر ایسا پانی پھیرا کہ نہ وہ یہاں آسکے اور نہ ہی ہم وہاں جاسکے۔ اب ایک اور عید آچکی جو ہمیں مجبوراً گھر والوں سے دور گزارنی پڑ رہی ہے۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ سب کو ان کے پیاروں کے ساتھ رکھے۔ اس کی رحمتیں بے شمار ہیں لیکن اس سے بڑی شاید ہی کوئی اور رحمت ہو۔ ہماری طرف سے عید کی مبارک باد قبول فرمائیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

انجنیئر حا مد شفیق May 24, 2021 05:17pm
ویسے آپ جس ملک میں رہ رھی ہیں وہاں سبہی لوگ اپنے برتن خود دھوتے ہیں ویسے ہماری والدہ بھی برتن دھوتی تھی انکو کوئ شرمندگی نہی ہوتی تھی