لکھاری نے اپنی ڈاکٹریکٹ کی ڈگری اسکالرشپ کے ذریعے حاصل کی، اور حبیب یونیورسٹی کراچی میں معاشیات اور پبلک پالیسی کے مضمون پڑھا رہے ہیں۔
لکھاری نے اپنی ڈاکٹریکٹ کی ڈگری اسکالرشپ کے ذریعے حاصل کی، اور حبیب یونیورسٹی کراچی میں معاشیات اور پبلک پالیسی کے مضمون پڑھا رہے ہیں۔

چین نے اپنی سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سی) متعارف کروا کر نئی سرد جنگ میں امریکا پر 'ڈیجیٹل رینمنبی (digital renminbi) (چینی) کرنسی' کا بم گرا دیا ہے۔

حالیہ چینی سالِ نو کے جشن کے موقعے پر پیپلز بینک آف چائنہ نے قرعہ اندازی کے ذریعے فی شخص 31 ڈالر کی رقم 2 لاکھ افراد میں تقسیم کی ہے، قرعہ اندازی میں کامیاب ہونے والے لوگ رقم کو سیدھے اپنے اسمارٹ فونز میں ڈاؤن لوڈ کرسکیں گے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے سی این این کو دیے گئے اپنے تازہ انٹرویو میں یہ اشارہ دیا ہے کہ اسٹیٹ بینک پاکستان بھی سی بی ڈی کرنسی متعارف کروانے پر غور کر رہی ہے۔ اگرچہ چین تو سی بی ڈی سی کو پیش کرکے بھاری فائدہ حاصل کرنے کی توقع کرسکتا ہے لیکن جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کرنسی کے فائدے یا نقصان کے بارے میں ابھی کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔

پڑھیے: ’اسٹیٹ بینک کو خودمختار ہونا چاہیے مگر آزاد نہیں‘

چند سال پہلے جب سوئیڈن کے رکس بینک نے ڈیجیٹل کرنسی کی تیاری میں پہل کی تو سی بی ڈی کرنسی کو ایک انوکھا خیال تصور کیا گیا تھا۔ تاہم حالیہ سروے کے مطابق اس وقت 60 فیصد مرکزی بینک سی بی ڈی کرنسیوں کا جائزہ لے رہے ہیں جبکہ 14 فیصد مرکزی بینک سی بی ڈی کرنسیوں کا آزمائشی عمل شروع کرچکے ہیں۔

چین کی سی بی ڈی کرنسیوں میں غیر معمولی ترقی کے دباؤ میں آکر امریکی حکام نے 2021ء کو سی بی ڈی کرنسیوں کے لیے ایک 'اہم سال' قرار دے دیا ہے جبکہ دوسری طرف برطانیہ میں بھی برٹ کوائن یا برٹش سی بی ڈی کرنسی متعارف کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

اگر یہ پوچھا جائے کہ سی بی ڈی کرنسی کیسی ہوتی ہے تو انہیں اکثر بٹ کوائن جیسی کرپٹو کرنسی جیسا ہی بتایا جاتا ہے۔ یہ دونوں کرنسیاں ایک کمپیوٹر کوڈ کے ذریعے تو تیار ہوتی ہیں مگر ان دونوں میں یکسانیت یہیں پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔ کرپٹو کرنسی آزاد یا غیر مرکزی ہوتی ہے اور کوئی ایک مرکزی بینک اسے جاری اور اس کی ضمانت نہیں دیتی ہے۔

کرپٹو کرنسیاں خاص کر قیاس آرائی کے لیے استعمال ہوتی ہیں جس کا اندازہ ان کی قدر میں ہونے والے اتار چڑھاؤ سے لگایا جاسکتا ہے۔ سی بی ڈی کرنسیوں کو کسی ایک مرکزی بینک کی جانب سے جاری اور ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور ان کی سکہ رائج الوقت کی حیثیت کو ریاستی ضمانت حاصل ہوتی ہے۔ دیگر لفظوں میں کہیں تو سی بی ڈی کرنسی کو ڈیجیٹل ریاستی کرنسی سے ملتی جلتی ایک ایسی قسم کہا جاسکتا ہے جو ورچؤل صورت میں اسمارٹ فونز میں موجود ہوتی ہے۔

چین میں پہلے ہی Alipay یا WeChat کے ذریعے ڈیجیٹل طریقے سے ادائیگیاں کی جارہی ہیں۔ چین اپنی ڈیجیٹل کرنسی سے زبردست فائدہ حاصل کرنے کی توقع کرسکتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں اگر چین عالمی معیشت میں اہم کھلاڑی بن جاتا ہے تو بہت سے ممالک تجارت میں ادائیگیوں کے لیے سی بی ڈی کرنسی کو فوقیت دینا چاہیں گے اور یوں امریکی ڈالر کی بالادستی کمزور پڑجائے گی۔ امریکا میں رہنے والے لوگ شاید ڈیجیٹل چینی کرنسی میں ادائیگیاں کرنے سے خود کو باز رکھیں لیکن پاکستان، افریقہ اور لاطینی امریکا میں رہنے والوں نے اس کا جلد استعمال شروع کردیا تو اس کرنسی کی حمایت میں اضافہ ہوگا۔

پڑھیے: چین کے ڈیجیٹل کرنسی پروگرام میں بڑی پیشرفت

چینی سی بی ڈی کرنسی حکومت کو کاغذی کرنسی کے مکمل خاتمے یا خارج کرنے کا موقع بھی فراہم کرسکتی ہے جس کی مدد سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے جڑے خدشات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ چینی مرکزی بینک پہلے ہی کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں کے ہسپتالوں میں جمع ہونے والی کاغذی کرنسی کو ضائع کرنے کا حکم دے چکا ہے۔ چند افراد کا کہنا ہے کہ چونکہ سی بی ڈی کرنسی کے ذریعے ہونے والی تمام ادائیگیوں کی مانیٹرنگ ممکن اور آسان ہے، اس لیے ڈیجیٹل چینی کرنسی حکام کو معاشی ادائیگیوں پر نظر رکھنے میں مدد کرسکتی ہے، چنانچہ یہ کرنسی سماجی ضابطے کے ایک آلے کے طور پر بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔

مگر پاک کوائن یا پاکستانی سی بی ڈی کرنسی کتنی فائدہ مند ہوگی اس حوالے سے ابھی کوئی واضح رائے نہیں دی جاسکتی۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے ذریعے چند فائدے تو ضرور حاصل ہوسکتے ہیں۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے اسٹیٹ بینک بھی ایک موقعے پر کاغذی کرنسی کو خارج کرنے کے عمل کی طرف جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کو یہ صلاح دی جاسکتی ہے کہ فی الحال تو کورونا وائرس سے نبردآزما ہسپتالوں میں جمع ہونے والی نقد رقم کی جگہ روزانہ کی بنیاد پر نئے نوٹوں کا اجرا کیا جائے۔ منی لانڈرنگ اور دہشتگردی میں استعمال ہونے والی رقم کی روک تھام کے لیے بھی پاکستانی سی بی ڈی کرنسی خاصی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

مگر پاک کوائن سے جو شاید اہم ترین فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے وہ اس کا اقتصادی پالیسی کے آلے کے طور پر استعمال ہے کیونکہ اس کے ذریعے معیشت کو باہدف اور محدود وقت کے لیے تحرک دیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر معیشت کساد بازاری کا شکار ہوتی ہے تو حکومت مرکزی بینک کو 3 ماہ کی تاریخِ تنسیخ والے پاک کوائن کی مائننگ کی ہدایت کرسکتی ہے۔ یہ سی بی ڈی کرنسی پھر سیدھا احساس پروگرام کے مستحقین کو بھیج دی جائے گی جو اس کرنسی کا استعمال فوری طور پر شروع کردیں گے اور یوں انتہائی مطلوب معاشی تحرک پیدا ہوجائے گا۔

پڑھیے: اسلامی سرمایہ کاری میں کرپٹو کرنسی کی حیثیت؟

اس سے پہلے کہ پاکستان سمیت دنیا کے اکثریتی ممالک کے لیے سی بی ڈی کرنسی ایک حقیقت کا روپ دھارے، اعداد و شمار، واجبات اور پرائیویسی سے جڑے ایسے بہت سے مسائل ہیں جنہیں حل کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر ممکن ہے کہ مرکزی بینک صارف ڈیٹا محفوظ انداز میں اپنے پاس نہ رکھنا چاہے یا پھر وہ اس صلاحیت سے ہی محروم ہو۔ اگر لوگ اپنی سرمایہ کاری کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں، جو سی بی ڈی کرنسی کے ساتھ ممکن نہیں، تو پھر شاید وہ اس کرنسی میں سرمایہ کاری سے کترائیں گے۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو محدود ڈیجیٹل ادائیگیوں اور اسمارٹ فونز کی کمی کے باعث پاک کوائن کی کامیابی کے امکانات مزید گھٹ جائیں گے۔ پھر جو ایک بڑا مسئلہ آڑے آتا ہے وہ یہ کہ آیا اسٹیٹ بینک سی بی ڈی کرنسی کی تیاری کا اختیار رکھتا بھی ہے یا نہیں؟

ان چیلنجوں کے باوجود یہ بات تو یقینی ہے کہ ڈیجیٹل چینی کرنسی وقت کے ساتھ غیر معمولی حیثیت حاصل کرلے گی۔ پاکستانی پالیسی سازوں کو چینی سی بی ڈی کرنسی کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ ابھی بہت کچھ سیکھنے کو باقی ہے۔ پاک کوائن فی الفور تو حقیقت کا روپ شاید نہ دھار سکے لیکن اگلے 5 برسوں میں شاید یہ ہماری ایک اہم ضرورت ثابت ہو۔

یہ مضمون 29 اپریل 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں