ٹرین کی کھڑکی بند ہے لیکن بارش کی بوندیں لگاتار اس پر دستک دے رہی ہیں، تیز برستی بارش میں میدانوں میں کھڑے درخت بھی دھندلے دکھائی دے رہے ہیں۔

کھچا کھچ مسافروں سے بھرے اس ڈبے میں موجود لوگ ایک دوسرے کی کہانیوں سے یکسر نابلد ہیں۔ سیٹ نمبر 15 پر بیٹھا 65، 70 برس کا بوڑھا آدمی جس کے سر کا بیشتر حصہ بالوں سے آزاد ہوچکا ہے، ہر تھوڑی دیر بعد کھڑکی کے شیشے پر جمی دھند کو ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور پریشانی کے عالم میں دونوں ہاتھ کھڑکی پر ٹکا کر باہر جھانکنے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ سیٹ پر اس کا بیٹا بیٹھا ہے جو فون پر اپنی بیوی سے وعدہ کرچکا ہے کہ وہ ضرور اپنے باپ کو پاگل خانے داخل کروا کر لوٹے گا۔ پھر وہ اپنے بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی بسر کریں گے۔

کچھ ماہ سے باپ کو لے کر ان کے آپس میں جھگڑے بھی تو بہت ہونے لگے تھے۔ اس کا باپ بھی کچھ عجیب ہوگیا تھا۔ کبھی کبھار اسے نامعلوم چیزیں دکھائی دینے لگتیں تو کبھی وہ آدھی رات کو رونے لگ جاتا، اور پھر جب سے یہ وبا آئی تو اس کی بیوی مزید ڈرنے لگی کہ سسر تو لاک ڈاؤن میں بھی سارا دن گلیوں میں پھرتا رہتا ہے، یہ ضرور گھر میں وائرس لائے گا۔

پڑھیے: چار مختصر کہانیاں

وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو دادا کے پاس نہیں جانے دیتی تھی، بوڑھا سارا دن گلی میں دوسروں کے بچوں کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا، مگر گھر میں اس کے پوتا پوتی اسے دیکھتے ہی کمروں میں چھپ جاتے اور پھر جب پچھلے ماہ اس کا سسر بیمار ہوا تو کھانسی کی پہلی آواز سنتے ہی وہ بچوں کو لے کر میکے چلی گئی اور اب تک نہیں لوٹی۔ اس کی شرط ہے کہ سسر صاحب کو کہیں اور بھیجا جائے۔ اب بیٹا باپ کو کہیں اور داخل کرانے لے کر جارہا ہے۔

بوڑھے کے پاس ایک سفری بیگ ہے جس کے ساتھ وہ ٹیک لگاکر بیٹھا ہے۔ ہر تھوڑی دیر بعد وہ اسے کھول کر چیزوں کو اِدھر اُدھر کرنے لگتا ہے۔ سامان میں ایک پرانی تصویروں کا البم بھی ہے، جسے وہ کئی بار نکال کر دیکھ چکا ہے۔ ایک تصویر جس میں وہ اور اس کی بیوی، بیٹے کی پہلی سالگرہ منا رہے ہیں، دیکھ کر رونے لگ جاتا ہے۔ پھر بہت احتیاط کے ساتھ البم بیگ میں رکھ کر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگتا ہے۔

ایک مسافر کی نظر سیٹ پر موجود بیگ پر پڑی تو اس نے بوڑھے کے بیٹے سے کہا کہ ‘بزرگ سے بیگ لے کر اوپر برتھ پر کیوں نہیں رکھ دیتے؟‘

‘ جی مجھے یہ بیگ نہیں دیتے’، بیٹے نے جواب دیا۔

‘کیوں نہیں دیتے؟’

‘پتا نہیں۔’

‘بزرگو! بیگ دیجیے، اوپر رکھ دیتا ہوں’، مسافر نے کہا۔

‘بوڑھے نے اس آدمی کو کوئی جواب نہ دیا، مگر اس کی کھوئی کھوئی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا کہ مسافر پریشان ہوکر ساتھ بیٹھے اس کے بیٹے سے کہنے لگا ‘بارش بہت تیز ہے۔ مون سون کی بارشیں بہت تیز برستی ہیں۔’

پڑھیے: افسانہ : دُور سے آئے ہوئے لوگ

بوڑھے نے ہاتھ سے شیشہ صاف کیا اور ماتھا شیشے سے ٹکا کر باہر دیکھنے لگا۔

‘آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘، اسی مسافر نے بوڑھے کے بیٹے سے پوچھا۔

‘میں لاہور جا رہا ہوں، یہ میرے والد ہیں۔ کچھ بیمار ہیں، کوئی ذہنی مسئلہ ہے۔’

ذہنی مسئلے پر بوڑھے نے کھڑکی سے نظر ہٹاکر اپنے بیٹے کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا مگر بیٹا اب اس مسافر کی جانب متوجہ تھا۔

‘آج کل ذہنی مسائل بہت ہوگئے ہیں’، اس آدمی نے کہا۔

‘ہاں بہت زیادہ، آپ کہاں جا رہے ہیں؟’، بیٹے نے پوچھا۔

‘میں بھی لاہور جا رہا ہوں، عدالت میں ایک کیس چل رہا ہے، اُسی کی پیشی ہے’، آدمی نے جواب دیا۔

‘کیس؟ خیریت کیا ہوا؟’، بوڑھے کے بیٹے نے پوچھا۔

‘بیوی خلع چاہتی ہے۔ کہتی ہے میں مارتا بہت ہوں۔ آج کل عورتیں بہت آزاد ہوگئی ہیں، آزادی چاہتی ہیں۔’

‘ویسے معذرت چاہتا ہوں، کیا آپ واقعی مارتے تھے؟’

‘ہاں بس کبھی کبھار۔ اصل میں شراب کی بڑی بُری عادت لگ گئی ہے، جس دن بہت چڑھ جائے، ہاتھ اٹھ جاتا ہے۔’

‘اُڑ جا، اُڑ جا کبوتر۔ اُڑ جا’، بوڑھا چلّایا۔

‘بیٹھ جائیے ابّا جان’، بیٹے نے کہا۔

‘بلی کبوتر کھا جائے گی۔’

‘گاڑی میں کہاں سے بلی اور کبوتر آگئے؟’

پڑھیے: افسانہ: ولی پور کا ملنگ

‘تمہیں کبوتر نظر نہیں آرہا۔ یہ سامنے سفید رنگ کا۔ چونچ دیکھو اس کی۔ بیچارے کی آنکھوں میں کتنا خوف ہے۔’

’دُور ہو جا بلی کمبخت۔’

‘اور یہ اتنے سارے بھیڑیے کیوں سیٹوں پر بیٹھے ہیں؟ اوہ ان کی تو زبانیں نیچے فرش تک لٹک رہی ہیں۔ اب انسانوں کی گاڑیوں میں بھیڑیے بھی سفر کریں گے؟’

‘بیٹھ جائیے۔ یہاں کچھ نہیں ہے’، بیٹے نے سختی سے کہا۔

بوڑھا اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا اور ٹانگیں سکیڑ کر اپنا سر گھٹنوں میں دبالیا۔

‘یہ گاڑی نہیں، یہ تو ایک چھوٹا سا جنگل ہے۔ خونخوار درندے سیٹوں پر چڑھے بیٹھے ہیں’، بوڑھا سر گھٹنوں میں دبائے رونے لگا۔

‘آپ کے والد کا ذہنی مسئلہ کافی زیادہ ہے‘، اس شرابی مسافر نے بوڑھے کے بیٹے سے کہا۔

‘ہاں بہت۔ انہیں بہت سی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں۔ اب دیکھیے نا، یہاں کہاں سے بلی، کبوتر اور بھیڑیے آگئے، مگر انہیں نظر آرہے ہیں۔’

بارش تیزی سے برس رہی تھی اور مسافر ایک دوسرے کی کہانیوں سے اتنے ہی لاعلم تھے جتنا کہ یہ بیٹا اپنے باپ سے اور یہ شرابی اپنی بیوی سے نا آشنا تھا۔ لوگ یوں ہی ایک دوسرے کی کہانیوں سے لاعلم رہتے ہوئے عمریں گزار دیتے ہیں۔ بوڑھے نے گھٹنوں سے سر نکالا، شیشہ صاف کیا اور باہر کھیتوں میں موجود ایک گھنے برگد کے درخت کو دیکھنے لگا جس کے نیچے ایک سرخ رنگ کی دھندلی سی چادر دکھائی دے رہی تھی۔

‘معلوم نہیں یہ کون ہے اور اس بارش میں برگد کے نیچے کیوں موجود ہے’، بوڑھے کا جی چاہا کہ گاڑی کی کھڑکی توڑ کر کھیتوں میں موجود اس گھنے درخت کے نیچے جاکر دیکھے کہ کون اس برسات میں درخت کے نیچے پناہ لیے ہوئے ہے۔

مگر گاڑی آگے بڑھ جاتی ہے اور ایک کہانی پیچھے۔

برستی بارش میں برگد تلے ایک بڑھیا بیٹھی ہے۔

پچھلے 3 ماہ سے سارا گاؤں جانتا ہے، بڑھیا کا معمول ہے کہ وہ آندھی ہو یا طوفان روزانہ اس برگد کے پیڑ کے نیچے ضرور آتی ہے جہاں اس کی بیٹی کی لاش دفن ہے جسے اس کے بیٹے نے قتل کردیا تھا اور اب وہ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔

پڑھیے: افسانہ: کنجوس جواری

گاؤں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ شازیہ نے واقعی بہت بڑا جرم کیا تھا، بھائی کی غیرت بھلا کیسے گوارا کرسکتی تھی کہ اس کی بہن پسند کی شادی کرلے۔ مگر بڑھیا جانتی ہے یہ سب جھوٹ ہے لیکن وہ گاؤں کے ایک ایک فرد کو یہ نہیں سمجھا سکتی کہ اس کی بیٹی بالکل بے قصور تھی، اتنی پاک جیسی یہ بارش کی برستی بوندیں۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بڑھیا کتنی عجیب ہے کہ بیٹے کو معاف نہیں کررہی، اگر وہ ایسا کردے تو عمر قید کی سزا معاف بھی ہوسکتی ہے مگر وہ کسی کی کوئی بات نہیں سنتی اور بیٹی کی قبر پر آکر روزانہ روتی رہتی ہے۔

گاؤں کے لوگ بڑھیا اور شازیہ کی کہانی سے یکسر لاعلم ہیں اور صرف وہی سمجھتے ہیں جیسا وہ سمجھنا چاہتے ہیں۔ سچائی سے میلوں دُور بس سانس لیتے اور زندگی گزارتے ہوئے لوگ۔

بڑھیا اور برگد کو گزرے 2 منٹ ہی ہوئے ہیں کہ ریل گاڑی ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر رُک چکی ہے۔ ایک آدمی اپنی چھتری سمیت ٹرین میں سوار ہوتا ہے۔ اس نے گلے میں خواتین کا دوپٹا مفلر کی طرح لپیٹ رکھا ہے۔ باقی مسافروں نے اس کی بھیگی چھتری اور کیچڑ سے لتھڑے جوتے دیکھ کر ناگواری کا اظہار کیا اور سوچا کاش یہ ان سے دُور ہی کہیں بیٹھے، یا ممکن ہو تو ٹرین کی چھت پر سوار ہوجائے تاکہ وہ پانی اور کیچڑ سے بچ سکیں، مگر آدمی لوگوں کے خیالات سے عاری آگے بڑھتا چلا جارہا ہے۔

‘بھائی صاحب آپ کو بُرا نہ لگے تو میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟’، چھتری والے مسافر نے شرابی مسافر سے پوچھا۔

‘مگر میں گیلا ہوجاؤں گا’، یہ کہہ کر اس نے بوڑھے کے بیٹے کی جانب دیکھا۔

‘ہاں سچ کہتے ہو، کیچڑ کی وجہ سے ہمارے کپڑے بھی خراب ہوسکتے ہیں۔ آگے چلے جاؤ تو کوئی خالی سیٹ بھی مل جائے گی’، بوڑھے کے بیٹے نے کہا۔

پڑھیے: افسانہ: طوفان کی دستک

‘اچھا میں یہاں نیچے بیٹھ جاتا ہوں، اب تو زندگی سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں، جہاں جگہ مل جائے پڑے رہتے ہیں’، یہ کہہ کر مسافر نے اپنا بیگ اوپر برتھ پر رکھا اور نیچے ہی بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ گلے میں موجود سرخ پھولوں والے دوپٹے کو غور سے دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں تو اس نے دوپٹا آنکھوں کے آگے رکھ لیا۔

‘بھائی صاحب، یہ دوپٹا تو خواتین کا ہے۔ آپ کوئی مردانہ چادر لے لیتے’، شرابی مسافر نے اس آدمی سے کہا اور طنزیہ انداز میں مسکرایا۔ بوڑھے کے بیٹے نے بھی اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا ‘ہاں ہاں، یہ تو خواتین کا دوپٹا ہے’۔

‘بس جی اب تو یہی نشانیاں رہ گئیں ہیں مجھ ماڑے آدمی کے پاس۔ یہ بارش سے بچنے کے لیے نہیں بس نشانی کے لیے لپیٹ رکھا ہے۔’

‘کس کی نشانی؟’، شرابی مسافر نے پوچھا۔

‘بیوی کی’، آدمی نے جواب دیا۔

‘کہاں ہے تمہاری بیوی؟’، شرابی مسافر نے پوچھا۔

‘فوت ہوگئی جی۔ 3 ماہ ہوئے فوت ہوگئی۔ کینسر ہوگیا تھا جی۔ بڑی تکلیف کاٹی ہے جناب بیچاری نے۔ مولا اس جہاں سوکھی رکھے۔ کینسر بڑی ظالم بیماری ہے جی، بالکل سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھی۔ آہ! بڑا ساتھ دیا تھا اس نے میرا۔ لاہور بڑے ہسپتال میں علاج چل رہا تھا جی۔ کہتی تھی میری وجہ سے تمہاری زندگی بھی عذاب ہوگئی ہے، شادی کے سال بعد ہی کینسر ہوگیا جی۔ ٹھیک بھی ہو رہی تھی کہ پھر ایک روز ہم ادھر گاؤں میں آئے تو اس کے بھائی کو بہت غصہ آگیا۔ ہم نے کیا کرنا تھا زمین کا، بس علاج کے لیے کچھ رقم چاہیے تھی۔ بہنوں کو کون حصہ دیتا ہے جی۔ بس غصہ آگیا تھا۔ غصہ بہت بُری چیز ہے جی۔ کچھ نہیں چھوڑتا۔ یہ اسٹیشن کے پار جو برگد کا پیڑ نہیں ہے، اس کے نیچے قبر ہے میری بیوی کی۔’

یہ کہہ کر وہ آنکھوں پر دوپٹا رکھ کر رونے لگا۔

بوڑھا جو اب کھڑکی کے بجائے اس آدمی کو غور سے دیکھ رہا تھا، اپنی سیٹ سے اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے قریب آکر آلتی پالتی مارکر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے آدمی کے گلے میں موجود دوپٹے کا دوسرا سِرا پکڑا، آنکھوں سے لگایا اور رونے لگا۔ آدمی نے بوڑھے کی گود میں اپنا سر رکھ لیا۔

بارش ابھی بھی برس رہی ہے۔

مسافروں میں صرف یہ دو روتے ہوئے لوگ ہی ایک دوسرے کی کہانی کو مکمل طور پر سمجھ پائے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں