صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

جس ہائبرڈ نظام کے تجربے کا آغاز 2018ء میں ہوا تھا، اب ہم اس کی آخری حدوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس کا سبب جاننے کے لیے آپ کو زیادہ دُور جانے کی بھی ضرورت نہیں۔ انتخابی نتائج سے شروع کیجیے اور یہ اندازہ لگا لیجے کہ ووٹر کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں۔

2019ء کے بعد سے ملک میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) صرف 4 نشستوں پر کامیاب ہوسکی ہے اور ان میں سے بھی ایک نشست ان کی اپنی نہیں بلکہ ان کے اتحادی کی تھی۔ (جی ڈی اے نے اکتوبر 2019ء میں لاڑکانہ کی ایک نشست جیتی تھی)۔

حالیہ انتخابی نتائج سے واضح ہے کہ پی ٹی آئی ان علاقوں میں بھی ہار رہی ہے جہاں 2018ء میں اس نے بڑے آرام سے کامیابی حاصل کی تھی، حالانکہ اسے اسٹیبشلمنٹ کی پشت پناہی اور حکمراں جماعت ہونے کا فائدہ بھی حاصل ہے۔ (برسرِ اقتدار ہونے کے قوی فوائد حاصل ہوتے ہیں، بالخصوص پنجاب میں اس کا فائدہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ ووٹرز روایتی طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ حکمراں جماعت انہیں ان کے مطلوبہ فوائد دلوانے میں زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہے)۔

چند انتخابی حلقوں میں تو پی ٹی آئی دوسرے نمبر پر بھی نہ آسکی، جیسا کہ کراچی کی نشستوں اور بلوچستان کی ایک نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں دیکھا گیا۔

مزید پڑھیے: وزیرِ خزانہ کے عہدے پر رسہ کشی کا ماجرہ کیا ہے؟

اگر موجودہ رجحانات اسی طرح جاری رہے تو ان میں سے ہر ایک انتخابی ہار کو اگلے عام انتخابات کی کہانی کا ٹریلر تصور کیا جائے، اور یہ اعلیٰ سطح پر پائی جانے والی بے چینی کے سب سے بڑے محرکات میں سے ایک ہے۔ وہ کون سی تبدیلیاں ہیں جن کی اس وقت ضرورت ہے؟

اسٹیٹ بینک نے مارچ میں پیش کی گئی اپنی مانیٹری پالیسی اسٹیٹمنٹ میں ایک جگہ پر جو بات کہی اس کا بغور جائزہ لیجیے۔ اسٹیٹ بینک بھی ڈیلفیک اوریکل یا قدیم یونانی کاہنوں و نجومیوں کی مانند کلام کرتا ہے کہ جب بات سیاست سے جڑے معاملات کی آئے تو ان کے الفاظ کی ضابطہ کشائی اہم ہوجاتی ہے۔ مثلاً، مارچ کی اسٹیٹمنٹ میں ایک پہیلی جیسی یہ عبارت شامل تھی کہ 'مہنگائی کی توقعات یا ملکی معیشت میں اجرتی دباؤ کا رجحان بدلنے کی زیادہ کوششیں نظر نہیں آ رہی ہیں’۔

اسی دن مالیاتی شعبے سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگاروں کو دی گئی بریفننگ میں اسٹیٹ بینک نے اس عبارت کو تھوڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ اسٹیٹ بینک نے تجزیہ نگاروں کو اس سمت کے بارے میں بتایا کہ جہاں وہ مستقبل قریب میں مہنگائی کو جاتا دیکھ رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق 'اس وقت طلب کا دباؤ دیکھنے میں نہیں آ رہا جبکہ دوسرے مرحلے کے اثرات محدود اور حقیقی آمدن کی نمو صفر کے آس پاس ہونے کا اندیشہ ہے'، یہ بات عارف حبیب سیکیورٹیز کے جاری کردہ ایک نوٹ میں پڑھنے کو ملی۔

ان الفاظ سے آخر کیا مراد ہے؟ حقیقی آمدن (Real Wage) سے یہ تخمینہ لگایا جاسکتا ہے کہ آمدن میں (مزدور طبقات کے لیے) مہنگائی کی نسبت کس قدر اضافہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ اب جب حقیقی آمدن کی نمو 'صفر کے آس پاس' بتائی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی اور آمدن میں یکساں رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اور یوں مزدور کی آمدن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

عالمی مالیاتی ادارہ ایک ماہ بعد اپریل کے اوائل میں جاری کردہ اپنے اسٹاف پیپر میں تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہتا ہے کہ 'لیبر مارکیٹ میں اضافی صلاحیت کے ساتھ ساتھ آمدن میں مسلسل گراوٹ کا رجحان پایا گیا ہے'۔

مزید پڑھیے: کیا 'پاک کوائن' کی مائننگ کا وقت آچکا ہے؟

اس انتہائی تکنیکی زبان میں ایک بہت ہی گہری بات بتائی جا رہی ہے۔ 'لیبر مارکیٹ میں اضافی صلاحیت' دراصل 'بے روزگاری' کہنے کا بڑا ہی عمدہ طریقہ ہے، جبکہ حقیقی آمدن پر فرق نہ پڑنا یا آمدن میں گراوٹ کے رجحان کا مطلب ہے عوام بڑے پیمانے پر غربت کا شکار ہو رہے ہیں، بھلے ہی حکومت اپنی اقتصادی بحالی پر خوب اترائے اور جانے پہچانے اعداد و شمار پیش کرکے ملک کو بہتری کی جانب گامزن بتائے۔

ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق کورونا وائرس سے قبل 'معاشی طور پر فعال' (یعنی برسرِ روزگار) لوگوں کی تعداد 5 کروڑ 50 لاکھ تھی جو عالمی وبا کی پھوٹ کے بعد 3 کروڑ 50 لاکھ رہ گئی ہے۔ یہی وہ 'اضافی صلاحیت' جس کے بارے میں عالمی مالیاتی ادارہ بات کر رہا تھا۔

اب غور کرنے والی بات یہ ہے کہ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بڑی بڑی کارپوریشنز اپنے منافعوں میں ریکارڈ اضافے بتا رہی ہیں۔ سال 2020ء کی آخری چوتھائی کہ جب ملک عالمی وبا کے خطرات سے آزاد نہیں تھا تب بھی فہرست شدہ کمپنیوں نے آمدن میں 36 فیصد کا اضافہ بتایا۔ صرف ایک سال میں سیمنٹ، کھاد، توانائی کی پیداوار اور آٹو موبائل کے شعبوں کے منافعوں میں بالترتیب 550 فیصد، 100 فیصد، 56 فیصد اور 190 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔

ان نتائج کو پیش کرنے والے ایک بروکریج ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق، 'کورونا وائرس کے باوجود (2020ء میں) اب تک کے سب سے بڑے 672 ارب روپے تک منافعے ریکارڈ کیے گئے۔ ان دنوں گڑبڑ کہاں ہے، اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے۔

ایک طرف اسپورٹ گاڑیوں کی فروخت میں تیزی اور لگژری گاڑی کے برانڈز کی مارکیٹ میں آمد آمد ہے وہیں دوسری طرف مزدور طبقات اپنے اہلِ خانہ کا بمشکل پیٹ بھرنے اور خود کو خط غربت سے اوپر رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب آپ کی حقیقی آمدن میں کوئی فرق نہ (یا گراوٹ) آئے اور ریکارڈ کارپوریٹ منافعوں کے ساتھ ساتھ بے روزگاری عروج پر ہو تو پھر دیگر اشاریے چاہے جو بھی ظاہر کریں لیکن اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ کی معیشت میں خرابیاں ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستانی برآمدات کے لیے مشکل وقت

حکومت اپنے اقتصادی ٹریک ریکارڈ کو بڑے فخر کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کہتی ہے کہ معیشت کے پہیوں نے موڑ لینا شروع کردیا ہے مگر لاکھوں لوگ ان معاشی حالات میں خود کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ایک کے بعد ایک ضمنی الیکشن میں حکمراں جماعت کو زبردست شکست سے دوچار کر رہے ہیں۔ ووٹر اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ حکومتی بیانات کو خاموشی سے ہضم کرلیں گے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق چند روز قبل انسانی حقوق کی کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ 'کورونا وائرس نے ملک میں موجود عدم مساوات میں اضافہ کیا ہے جس کے باعث لاکھوں غیر محفوظ افراد پر روزگار سے محرومی کا خطرہ منڈلا رہا ہے‘۔

جو لوگ مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ میرے تمام مضامین اس قدر منفی کیوں ہوتے ہیں، ان سے میں صرف ایک سوال کرنا چاہوں گا۔ آپ مجھ سے کیا کروانا چاہتے ہیں؟ کیا اس حقیقت پر پردہ پوشی کروں یا سب ٹھیک ہے کا ورد؟ یا پھر اسے موجودہ صورتحال کے ایک ناگزیر نتیجے کے طور پر پیش کروں جو حکومت کے قابو سے باہر ہے؟

چند ہفتے قبل ہی وزیرِاعظم کے مشیر برائے توانائی تابش گوہر بتا رہے تھے کہ گردشی قرضے پر قابو پانے کے لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ تاہم کل ہم سب نے شوکت ترین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ نہیں چاہتے اور یہ کہ وہ گردشی قرضے پر قابو پانے کے لیے 'کوئی دوسرا راستہ' نکال لیں گے۔

جب حکومت خود اب تک یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ کیا ناگزیر ہے اور کیا نہیں تو پھر مجھ سے ایسا کرنے کی توقع کیسے وابستہ کی جاسکتی ہے؟


یہ مضمون 6 مئی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Qazi Wasif May 11, 2021 10:57am
زمینی حقائق صرف کراچی میں بنیادی حقوق سے محرومی اور حکومت کی ہٹ دھرمی ایک سنکل ٹینکر کی قیمت 2500 روپے 1000 پینے کے صاف پانی کی قیمت کل 3000 روپے کراچی کی آبادی اندازا 2 کروڑ فرض کیا 1 کروڑ گھر ہیں کراچی میں جن میں سے 50 لاکھ گھروں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے پچاس لاکھ ضرب 3500 روپے اب اندازہ کرلیجئے کراچی میں کیا ہو رہا ہے ؟
گلزار احمد خان May 11, 2021 05:49pm
بہت خوب