اقوام متحدہ کا اسرائیل پر فلسطینیوں کی جبری بےدخلی روکنے پر زور

اپ ڈیٹ 08 مئ 2021
روپرٹ کولولے نے کہا کہ ہم ایک بار پھر زور دینا چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم، مقبوضہ فلسطینی وادی کا حصہ رہے گا — فوٹو: اے ایف پی
روپرٹ کولولے نے کہا کہ ہم ایک بار پھر زور دینا چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم، مقبوضہ فلسطینی وادی کا حصہ رہے گا — فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ نے اسرائیل پرزور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ مشرقی یروشلم میں جبری بےدخلی کا سلسلہ بند کردے، ساتھ ہی خبردار کیا کہ اس کے اقدامار 'جنگی جرائم' کے مترادف ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر کے ترجمان روپَرٹ کولوِلے نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ 'ہم اسرائیل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر جبری بےدخلی کا سلسلہ بند کرے'۔

ان کا یہ بیان مشرقی یروشلم میں چار فلسطینی خاندانوں کی بےدخلی کے خطرے کے باعث پولیس سے جھڑپوں کے بعد 15 فلسطینیوں کی گرفتاری کے بعد سامنے آیا۔

یروشلم کے پرانے شہر کے قریب شیخ جراح میں فلسطینی مہاجرین اور یہودی آباد کاروں کے درمیان زمین کی ملکیت کے تنازع پر مسلسل دوسری رات کشیدگی رہی۔

4 فلسطینی خاندانوں کے گھروں کی زمین پر یہودیوں کے ملکیت کے دعوے کا قانونی کیس طویل عرصے سے چل رہا ہے اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

روپرٹ کولولے نے کہا کہ 'ہم ایک بار پھر زور دینا چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم، مقبوضہ فلسطینی وادی کا حصہ رہے گا جہاں بین الاقوامی انسانی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: یروشلم: زمین کی ملکیت کے تنازع پر جھڑپوں میں 22 فلسطینی زخمی

انہوں نے کہا کہ 'قابض طاقت مقبوضہ وادی میں نجی جائیداد پر قبضہ نہیں کر سکتی، شہری آبادی کو مقبوضہ وادی میں منتقل کرنا بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی اور جنگی جرائم کے مترادف ہے'۔

انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ حالات کو مزید کشیدہ بنانے والے یا جبری منتقلی باعث بننے والے اقدامات کو فوری روکے۔

روپرٹ کولولے نے کہا کہ 'ہم اسرائیل سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اس جبری بےدخلی خلاف احتجاج کرنے والوں سمیت اسمبلی میں آزادی اظہار کا احترام کرے اور طاقت کے استعمال میں زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرے'۔

ہلال احمر کے مطابق شیخ جراح میں بدھ کو کشیدگی کے بعد جھڑپوں میں 22 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے، جبکہ پولیس نے 11 افراد کو گرفتار کرنے کی تصدیق کی تھی۔

رواں سال کے اوائل میں یروشلم کی ضلعی عدالت نے دہائیوں قبل خریداری کا حوالہ دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ یہ گھر قانونی طور پر یہودی خاندانوں کی ملکیت ہیں۔

یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے خاندانوں نے اس جنگ میں اس زمین کی ملکیت کھو دی تھی جس کے نتیجے میں 1948 میں اسرائیل وجود میں آیا تھا۔

کیس میں فریق فلسطینی خاندانوں نے یہ گھر اردنی انتظامیہ سے حاصل کرنے کے ثبوت پیش کیے، جو 1948 سے 1967 تک مشرقی یروشلم کو کنٹرول کرتی تھی۔

عَمان نے بھی فلسطینیوں کے دعوؤں کے حق میں دستاویزات پیش کی تھیں۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں سے بھی فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ

اسرائیل کا قانون یہودیوں کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ ثبوت پیش کرنے کے بعد 1948 سے قبل ان کی ملکیتی جائیدادیں واپس لے سکتے ہیں، لیکن فلسطینیوں کو یہ حق نہیں دیا جاتا۔

روپرٹ کولولے نے مزید کہا کہ 'اسرائیل، مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ وادی میں اپنے قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتا'۔

اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر 1967 میں قبضہ اور بعد میں الحاق کر لیا تھا جس کو عالمی برادری کے بڑے حصے کی جانب سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔

زمین کے حوالے سے عدالتی حکم کے بعد شیخ جراح میں فلسطینی طیش میں آگئے اور ان کا کہنا تھا کہ یہ عربوں کو مشرقی یروشلم سے بے دخل کرنے اور یہودیوں کی آباد کاری کی جانب ایک اور قدم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں