جاپان میں 10 سال پہلے سونامی سے متاثرہ فوکوشیما ایٹمی پاور پلانٹ آج ایک بار پھر آبی ماحول اور بحری حیات کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ فوکوشیما ایٹمی پاور پلانٹ کے متاثرہ ری ایکٹرز کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے استعمال ہونے والے تابکاری مواد ملے پانی کو جمع کرنے کی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے۔ جس کے بعد جاپان نے یہ فیصلہ کیا کہ اس پانی کو وہ بحر اوقیانوس میں سمندر برد کرے گا، لیکن اس فیصلے کے بعد ایشیائی ممالک چین، جنوبی کوریا، ماہی گیروں اور ماحولیات کے تحفظ پر کام کرنے والی تنظیموں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

11 مارچ 2011ء کو جاپان کے شمال مشرقی علاقے میں شدید زلزلہ آیا تھا اور اس کے نتیجے میں سونامی نے جنم لیا جسے گریٹ سیندائی ارتھ کوئیک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ریکٹر اسکیل پر اس زلزلے کی شدت 9.0 ریکارڈ کی گئی جبکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سونامی لہریں 33 فٹ تک ریکارڈ کی گئی تھیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 18 ہزار 500 افراد یا تو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے یا پھر اس حادثے کے نتیجے میں ان افراد کو گمشدہ قرار دے دیا گیا۔

11 مارچ 2011ء کو جاپان کے شمال مشرقی علاقے میں شدید زلزلہ آیا تھا اور اس کے نتیجے میں سونامی نے جنم لیا

حادثے کا ہولناک پہلو

اس حادثے کا سب سے ہولناک پہلو یہ تھا فوکوشیما ایٹمی پاور پلانٹ کے 3 ری ایکٹرز کا کولنگ سسٹم بند ہونے سے پگھلاؤ کا عمل شروع ہوگیا۔ پگھلنے والے مواد نے ری ایکٹر ایک اور 2 کے ٹینکس کو متاثر کیا۔ ہائی پریشر ہائیڈروجن کی وجہ سے دھماکے ہوئے جس سے ری ایکٹر ایک، 2 اور 3 میں آگ لگ گئی۔

اس تباہی کے نتیجے میں تابکاری مواد کا اخراج شروع ہوگیا۔ اس پلانٹ کو چلانے والی ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کی جانب سے سمندری پانی اور بورک ایسڈ کی مدد سے متاثرہ ری ایکٹرز کو ٹھنڈا رکھنے کا انتظام کیا گیا۔

ماہرین کے مطابق فوکوشیما ایٹمی پاور پلانٹ کا حادثہ اپریل 1984ء میں چرنوبیل کے ایٹمی پاور پلانٹ کو پیش آنے والے حادثے کے بعد دوسرا بڑا حادثہ تھا۔ ممکنہ تابکاری اثرات کے پیشِ نظر جاپان کی انتظامیہ نے 30 کلومیٹر کے اطراف کے علاقے کو نو فلائی زون قرار دے دیا جبکہ متاثرہ فوکوشیما ایٹمی پلانٹ کے اطراف کے 20 کلومیٹر تک پھیلے علاقے کو خالی کروا لیا گیا جس کا دائرہ کار بعدازاں 30 کلومیٹر تک بڑھا دیا گیا۔

اردگرد کے ان علاقوں میں رہائش پذیر افراد کو یا تو گھروں میں محدود ہوجانے یا پھر نقل مکانی کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود اس بات کا انکشاف ہوا کہ فوکوشیما کے قرب و جوار کے سمندری پانی میں بھاری مقدار میں آئیوڈین -131 نامی تابکاری مواد موجود ہے۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ ایٹمی ری ایکٹرز کی کولنگ کے لیے جس سمندری پانی کا استعمال کیا گیا وہ رساؤ کے ذریعے دوبارہ سمندر میں چلا گیا۔

تابکاری والا زہریلا پانی ٹھکانے کیسے لگایا گیا؟

فوکوشیما ایٹمی پاور پلانٹ کو چلانے والی ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی نے ری ایکٹرز کی کولنگ میں استعمال ہونے والے پانی کو پلانٹ کے اطراف میں قائم 500 اولمپک سوئمنگ پول سائز کے ٹینکوں میں جمع کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ زہریلا پانی براہِ راست بحر اوقیانوس میں سمندر برد ہونے سے بچایا جاسکے۔

ایک اندازے کے مطابق ان ٹینکوں میں 1.3 ملین ٹن پانی جمع ہوچکا ہے۔ ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کا کہنا ہے اب اس کے پاس تابکاری مواد ملے زہریلے پانی کو جمع کرنے کی صلاحیت تقریباً ختم ہوچکی ہے۔

فوکوشیما ایٹمی پاور پلانٹ

کیا جاپان کا فیصلہ سمندر اور بحری حیات کے لیے 'آرمیگیڈن' ثابت ہوگا؟

ایک دہائی کے بعد جاپان تابکاری مواد ملے زہریلے پانی کو 2022ء سے بحر اوقیانوس میں چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ گوکہ امریکا نے جاپان کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے مطابق بھی زہریلے پانی کو بحر اوقیانوس میں چھوڑنے سے آبی ماحول اور بحری حیات کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا لیکن چین، جنوبی کوریا سمیت ماحولیات، سمندر اور بحری حیات کے تحفظ پر کام کرنے والی تنظیموں نے جاپان کے اس فیصلے کی شدید الفاط میں مذمت کی ہے۔

ماہرین کے مطابق جاپان کا یہ اقدام سمندر اور بحری حیات کے لیے 'آرمیگیڈن' ثابت ہوگا۔ ماہرین کے ان تحفظات کے برخلاف جاپان کا یہ مؤقف ہے کہ ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی (ایڈوانسڈ لکویڈ پروسیسنگ سسٹم) کی مدد سے زہریلے پانی کو فلٹریشن سے گزار کر ٹینکوں میں محفوظ کرتی رہی ہے۔ اس عمل سے پانی میں تابکاری مواد نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ انسانوں اور بحری حیات پر اس کے مضر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

کیا جاپان تابکاری والے زہریلے پانی کو بحر اوقیانوس میں چھوڑ سکتا ہے؟

ماہرین نے جاپان کے اس دعوے کو رد کیا ہے کہ ایٹمی ری ایکٹرز کی کولنگ میں استعمال ہونے والا پانی فلٹریشن سے گزرنے کے بعد تابکاری مواد سے پاک ہوچکا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر جاپان ایسا کوئی قدم اٹھاتا ہے تو وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرے گا۔ اس کی وجہ کچھ اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ جاپان نے لندن کنونشن 1972ء اور ترمیمی پروٹوکول 2006ء پر دستخط کیے ہیں۔ اس کنونشن کے مطابق کوئی بھی ایسا عمل جو آبی ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنے اس کی روک تھام کو ممکن بنایا جائے۔

اس کنونشن کے مطابق کسی بھی قسم کے تابکاری مواد کو سمندر میں چھوڑنے کی ممانعت ہے۔ ماحولیاتی تحفظ پر کام کرنے والی تنظیم گرین پیس کے مطابق تابکاری مواد ملے اس پانی میں سب سے زیادہ خطرناک مواد، اسٹروٹئیم اور کاربن 14 ہے اور ان کی ہاف لائف بالترتیب 30 اور 5 ہزار 730 سال ہے۔ اس تنظیم کے مطابق ایک اور تابکاری مواد ٹریٹئیم بھی اس پانی میں شامل ہے اور اس مواد کو بھی فلٹریشن کے باوجود نکالا نہیں جاسکا۔

ماہرین کے مطابق تابکاری مواد ملے پانی کی ٹریٹمنٹ کے بعد اسے سمندر برد کرنے کے بجائے کسی دوسرے مناسب طریقہ کار پر بھی غور کیا جاسکتا تھا لیکن جاپان نے ایسا نہیں کیا۔

ماہی گیر پریشان کیوں ہیں؟

جاپان کا زہریلا پانی بحر اوقیانوس میں چھوڑنے کا فیصلہ اور ماحولیاتی تحفظ پر کام کرنے والی تنظیموں کے تحفظات اپنی جگہ لیکن ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ افراد میں اس فیصلے کو لے کر شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

جنوبی کوریا سے لے کر گوادر تک ماہی گیر سراپا احتجاج ہیں۔ جاپان کی اس یقین دہانی کے باوجود کہ بحر اقیانوس میں زہریلے پانی کو چھوڑنے سے پہلے اس میں تابکاری مواد نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا اور اس سے انسان اور آبی حیات کی زندگیوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا، ماہی گیر یہ دلیل ماننے کو تیار نہیں۔

ڈاکٹر امداد اللہ سالار اسلام آباد میں نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے فشریز ڈیولپمنٹ بورڈ میں بحیثیت ڈائریکٹر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے تابکاری مواد بحری حیات کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ یہ سمندر میں موجود مچھلیوں کی افزائش نسل اور ان کی صحت کو متاثر کرسکتی ہے۔ تابکاری مواد مچھلیوں اور دیگر آبی حیات میں جمع ہوجانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو بعدازاں خوراک کا حصہ بن کر انسانی صحت کو متاثر کرسکتا ہے۔

ڈاکٹر امداد اللہ سالار کہتے ہیں کہ 2011ء میں سونامی کی وجہ سے فوکوشیما ایٹمی پاور پلانٹ کا حادثہ پیش آیا تو بحری حیات تابکاری مواد سے متاثر ہوئی تھی اور اب اگر جاپان نے ایسا قدم اٹھایا تو بحری حیات کو ایک بار پھر شدید خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

پاکستانی ماہرِ طبعیات ڈاکٹر اے ایچ نئیر کے مطابق یہ تابکاری بحری حیات سے انسانوں میں منتقل ہوسکتی ہے۔ بحر اوقیانوس سے پکڑی جانے والی مچھلیوں میں تابکاری اثرات ہوئے تو وہ کھانے کے قابل نہیں ہوں گی۔ ایک پلوٹونیم کا ایٹم سانس کے ذریعے پھیپھڑے میں بیٹھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگرچہ فوری طور پر یہ نقصان دہ نہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں سے نکلنے والی شعاع کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔

ماحولیات اور بحری حیات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جاپان کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے تابکاری مواد ملے زہریلے پانی کو ٹھکانے لگانے کا متبادل طریقہ کار سوچنا ہوگا تاکہ بحری حیات اور انسانی جانوں کو تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Masood Ahmed May 10, 2021 01:18pm
اس پورے مضمون میں بحر اوقیانوس لکھا ہے جبکہ یہ بحر اوقیانوس نہیں بحرالکاہل ہے۔ بحر اوقیانوس تو جاپان سے بہت دور ہے جبکہ بحر الکاہل جاپان کامشرقی ساحل بحر الکاہل کے ساتھ ہی واقع ہے ۔