ملازمت کے طویل اوقات ہر سال لاکھوں افراد کی اموات کا باعث بن جاتے ہیں۔

یہ بات عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے زیرتحت ہونے والی اپنی طرز کی پہلی عالمی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ کام کے طویل دورانیے کے نتیجے میں 2016 میں فالج اور امراض قلب کے نتیجے میں 7 لاکھ 45 ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔

تحقیق کے مطابق جنوب مشرقی ایشیا اور ویسٹرن پیسیفک کے خطے اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او نے یہ بھی بتایا کہ یہ مسئلہ کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں مزید بدتر ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ ہر ہفتے 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت تک کام کرنے والے افراد میں فالج کا خطرہ 35 فیصد زیادہ ہوتا ہے جبکہ امراض قلب سے موت کا امکان 17 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

یہ تحقیق عالمی ادارہ محنت کی جانب سے کی گئی تھی جس میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ لگ بھگ تین تہائی ہلاکتیں درمیانی عمر کے افراد کی ہوئیں۔

اس تحقیق میں کورونا وائرس کی وبا کے وقت کو شامل نہیں کیا گیا تھا مگر ڈبلیو ایچ او حکام کا کہنا تھا کہ گھروں میں کام کرنے کے رجحان میں اضافے اور اقتصادی سست روی کے نتیجے میں زیادہ وقت تک کام کرنے سے جڑے خطرات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

حکام نے بتایا کہ کچھ شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ جب مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوا تو ورکنگ دورانیہ 10 فیصد تک بڑھ گیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ زیادہ وقت تک کام کرنے سے تناؤ بڑھتا ہے جبکہ ایسے افراد میں مضر صحت عادات جیسے تمباکو نوشی، کم نیند، ورزش سے دوری اور صحت کے لیے نقصان دہ غذاؤں کا استعمال وغیرہ پیدا ہوجاتی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کی وبا سے قبل دنیا بھر میں 9 فیصد آبادی ہر ہفتے 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت کام کررہی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں