لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

غزہ کے شہری پہلی مرتبہ اسرائیلی بربریت کا شکار نہیں ہو رہے ہیں اور نہ ہی پہلی مرتبہ جانی و مالی نقصان کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن صیہونی حکومت کی جانب سے جس قسم کی شدید اور مسلسل بمباری اس بار کی گئی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اسرائیل کا حالیہ فوجی ایکشن اب دوسرے ہفتے میں داخل ہوگیا ہے اور بچے اور خواتین ہی اس کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔

چھوٹے بچوں کی لاشوں کو ملبے سے نکالنے کے مناظر اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران اسرائیلی فضائی حملوں میں 200 سے زائد افراد کی جانیں جاچکی ہیں۔ اسرائیلی طیاروں نے گھروں، پناہ گزینوں کے کیپموں، طبّی مراکز اور اسکولوں تک پر حملے کیے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے اپنی بربریت کو چھپانے کی کوشش میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کو بھی تباہ کردیا گیا جس میں بین الاقوامی میڈیا کے دفاتر موجود تھے۔

کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ 2014ء میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ہونے والے حملے میں بھی اس قدر تباہی نہیں ہوئی تھی۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری میں زیادہ تر نہتے شہریوں کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے جوکہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔

ہزاروں فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں۔ کئی شہریوں کا تعلق تو ان خاندانوں سے ہے جنہیں 1948ء میں اسرائیلی فوج نے زبردستی فلسطینی دیہاتوں سے بے دخل کردیا تھا۔ حالیہ کشیدگی بھی نکبہ کے دنوں میں ہی شروع ہوئی ہے۔ نکبہ 7 دہائیوں قبل فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: 'صحافیوں کو نشانہ بنانا جنگی جرم ہے'، غزہ میں میڈیا دفاتر کی تباہی پر ردعمل

غزہ حالیہ اسرائیلی جارحیت کے سبب سب سے زیادہ شکار ہوا ہے لیکن یہ کشیدگی اب اسرائیل کے زیرِ قبضہ دیگر علاقوں تک بھی پھیل گئی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے حماس کی جانب سے چلائے جانے والے راکٹوں کو اپنے فضائی حملوں کے جواز کے طور پر پیش کیا ہے لیکن یہ جھوٹ ہے۔ حالیہ کشیدگی اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم میں مقیم فلسطینی خاندانوں کو ان کے گھروں سے زبردستی بے دخل کرنے کی وجہ سے شروع ہوئی۔

فلسطینی خاندان کئی سالوں سے بے دخلی کے خوف میں رہ رہے تھے لیکن گزشتہ کچھ ہفتوں سے جنونی یہودیوں نے ان پر حملوں میں اضافہ کردیا تھا اور فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے لیے اشتعال انگیز سرگرمیاں بھی شروع کردی تھیں۔ یہ سب اسرائیلی حکومت کی منظوری سے ہورہا تھا۔ ان کی جانب سے فلسطینیوں کی املاک پر قبضے کے لیے ایک متنازعہ قانون کا سہارا لیا جارہا ہے۔ یہ جبری بے دخلی دراصل اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو غصب کرنے کے منصوبے کا چھوٹا سا حصہ ہے۔

گزشتہ کئی سالوں سے مقبوضہ علاقوں میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں موجود اسرائیلی بستیوں میں تیزی سے توسیع کی جارہی ہے۔ اس دوران غزہ کے مستقل محاصرے کی وجہ سے وہاں موجود 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی زندگیاں ناقابلِ برداشت حد تک مشکل ہوگئی ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز کی وجہ سے بھی ایک لاوا پک رہا تھا جو اب پھٹ پڑا ہے۔ شاید یہ ایک نئی انتفاضہ کی شروعات ہو۔ اسرائیل نے عرب آبادی کو بھگانے کے لیے نسل کشی کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔

مزید پڑھیے: ممنوعہ سرزمین: ایک پاکستانی کا سفرِ اسرائیل

اسرائیل کی حالیہ کارروائی کو ایک علیحدہ قدم کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ بلکہ یہ اس جنگ کا تسلسل ہے جسے ایک فلسطینی اسکالر اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر راشد خالدی نے فلسطین پر 100 سالہ جنگ کا نام دیا ہے۔ سانحہ فلسطین کی جڑوں کا سراغ لگاتے ہوئے راشد خالدی نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ اس جنگ میں نوآبادیاتی مہم سے متعلق مخصوص نکات موجود ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ’ایک صدی سے زیادہ عرصے تک فلسطینیوں کو ان کے نوآبادکاروں نے بالکل اسی انداز میں دکھایا ہے جیسے کہ دیگر مقامی آبادیوں کو دکھایا جاتا رہا ہے‘۔

اسرائیل کا بنیادی مقصد پوری فلسطینی آبادی کو ان کے آبائی علاقے سے بے دخل کردینا ہے۔ یہاں ایک اور نکبہ جاری ہے جو شاید گزشتہ نکبہ سے زیادہ بے رحم ہو۔ اپنے مغربی اتحادیوں خاص طور پر امریکا کی جانب سے غیر مشروط حمایت نے اسرائیل کو پورے مقبوضہ علاقے کو اپنی نوآبادی بنانے کے لیے تحرک عطا کیا ہوا۔

ایک کے بعد ایک آنے والی امریکی حکومتوں نے بھی اسرائیل کے جنگی عزائم میں کھل کر اس کا ساتھ دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے تو اسرائیل کو اس کے توسیع پسندانہ عزائم میں کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کا حکم دیا اور مقبوضہ علاقوں میں نئی بستیوں کی تعمیر کی منظوری دی۔ ٹرمپ نے یہودی ریاست کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے دو ریاستی منصوبے کو بھی دفنا دیا اور یوں اسرائیل کے جنگی عزائم میں مزید اضافہ ہوا۔

ٹرمپ نے کچھ مسلم ممالک کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے راغب کیا جس سے اسرائیل کو اپنے نوآبادیاتی قبضے کو مضبوط کرنے کا حوصلہ ملا۔ گزشتہ کچھ سالوں سے ہمیں فلسطینی آبادی کے سیاسی اور معاشی استحصال میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ فلسطینی آبادی کی نسل کشی اور غزہ کی تباہی کے حالیہ واقعات گزشتہ سال کچھ خلیجی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے بعد رونما ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیے: اسرائیل سے تعلقات، بحرین کے بعد کون؟ نشانہ ایران یا کوئی اور؟

جیسا کہ متوقع تھا کہ نئی امریکی حکومت کے آنے سے بھی اسرائیل کے لیے امریکا کی غیر مشروط حمایت میں فرق نہیں آیا۔ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کا نقطہ نظر کئی حوالوں سے ٹرمپ انتظامیہ سے بہتر ہے لیکن پھر بھی یہ اسرائیل کی تازہ جارحیت اور غزہ میں معصوم بچوں اور عورتوں کے قتل پر شرمندہ دکھائی نہیں دیتی۔

جب اسرائیلی طیارے غزہ کی شہری آبادی پر بمباری کر رہے تھے اس دوران امریکا نے جنگ بندی کروانے کی کوشش تو دُور اس جارحیت کی مذمت تک نہیں کی (بعد میں صدر بائیڈن نے ’جنگ بندی کی حمایت‘ کا بیان جاری کیا)۔ امریکا اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانے میں بھی رخنہ انداز ہوا جس سے اسرائیل کو اپنی جارحیت جاری رکھنے کے لیے مزید وقت مل گیا۔ بائیڈن انتظامیہ نے جنگ بندی سے متعلق سیکیورٹی کونسل کے بیانات کو بھی روک دیا۔

امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ فریقین کو کرنا ہے کہ وہ جنگ بندی چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس بیان کا یہ مطلب ہے کہ فوجی کارروائیوں کو روک کر اس بحران کا حل تلاش کرنے میں اسرائیل کے لیے کوئی فائدہ موجود نہیں ہے۔

امید کی کرن یہ ہے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں فلسطینیوں کی عوامی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے۔ PalestinianLivesMatter# ایک مقبول نعرہ بن چکا ہے۔ لیکن کیا اس سے اسرائیل کے جارحانہ عزائم اور فلسطینی علاقوں پر قبضے کو روکا جاسکتا ہے؟

فلسطینی عوام اسرائیلی جارحیت کے خلاف کھڑے ہیں لیکن انہیں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے عالمی برادری کی حمایت درکار ہے۔ اگر اسرائیلی جارحیت نہیں رکتی اور فلسطینیوں کے لیے آزاد ریاست کے حق کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو پھر خطے میں امن برقرار رہنا مشکل ہوجائے گا۔


یہ مضمون 19 مئی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں