نومبر 2019 میں ووہان انسٹیوٹ آف وائرلوجی کے متعدد محققین بیمار ہوکر ہسپتال میں داخل ہوئے اور ان میں بیماری کی علامات کووڈ 19 جیسی تھیں۔

یہ دعویٰ ایک امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں کیا گیا ہے جس سے کورونا وائرس کی وبا کے ماخذ کے حوالے سے بحث مزید بڑھنے کا امکان ہے۔

سی این این کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے جنوری میں ایک فیکٹ شیٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ووہان انسٹیٹوٹ کے محققین 2019 کے موسم خزاں میں بیمار ہوئے، مگر اس وقت ہسپتال میں داخلے کا ذکر نہیں کیا گیا۔

چین کی جانب سے عالمی ادارہ صحت کو بتایا گیا تھا کہ کووڈ جیسی علامات والا پہلا مریض ووہان میں 8 دسمبر 2019 کو سامنے آیا تھا۔

وال اسٹریٹ جرنل نے سب سے پہلے ان محققین کے ہسپتال میں داخلے کو رپورٹ کیا تھا۔

مگر امریکی انٹیلی جنس کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ابھی یہ علم نہیں کہ ان سائنسدانوں کو کیا بیماری تھی اور کووڈ کے ماخذ کے حوالے سے تجزیے پر اس سے زیادہ اعتماد نہیں کہ وہ چین میں سامنے آیا۔

دوسری جانب ووہان انسٹیٹوٹ آف وائرلوجی سے منسلک ووہان نیشنل بائیوسیفٹی لیب کے ڈائریکٹر نے 24 مئی کو اس رپورٹ کی سخت الفاظ میں تردید کی۔

یوان زیمنگ نے کہا 'میں نے اسے پڑھا ہے اور یہ مکمل جھوٹ ہے، یہ دعوے بے بنیاد ہیں، لیب کو ایسی کسی صورتحال کا علم نہیں اور میں بھی نہیں جانتا یہ معلومات کہاں سے سامنے آئی'۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی جانب سے لیب سے وائرس لیک ہونے کے خیال کو تقویت دی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین میں ہرجگہ جاکر معائنہ کرنے کے بعد ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ لیب سے وائرس نکلنے کے الزامات میں حقیقت نہیں۔

امریکی انٹیلی جنس کی بریفننگ سے آگاہ 2 افراد کے مطابق نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر ایورل ہینز نے گزشتہ ماہ ایک سماعت کے دوران ایوان نمائندگان کے اراکین کو بتایا کہ انٹیلی جنس کمیونٹی کو علم نہیں کب، کہاں اور کیسے کورونا وائرس سب سے پہلے پھیلا اور اس حوالے سے انٹیلی جنس تجزیے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

اس وقت انٹیلی جنس کا ماننا ہے کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر قدرتی ہے جو کسی جانور سے انسان میں منتقل ہوا، مگر اس امکان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ حادثاتی طور پر ووہان انسٹیٹوٹ سے لیک ہوا ہو۔

فروری میں کورونا وائرس کے ماخذ کی تحقیقات کرنے والی عالمی ادارہ صحت کی ٹیم نے کہا تھا کہ کسی حادثے کے امکان نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ دسمبر 2019 سے قبل کووڈ جیسی نظام تنفس کی بیماری رپورٹ نہیں ہوئی اور نہ ایسے کوئی شواہد ملے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او ٹیم کے عہدیدار پیٹر بین ایماریک نے ووہان میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی لیبارٹری سے لیک ہوکر وائرس کے پھیلنے کا خیال درست نہیں۔

انہوں نے کہا کہ لیبارٹری سے وائرس پھیلنے کے خیال پر مزید تحقیق کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ درست نہیں۔

مگر عالمی ادارے کی اس تحقیقات کو امریکا، برطانیہ اور چند دیگر ممالک کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

ذرائع کے مطابق کورونا وبا کے آغاز کی تحقیقات کرنے والی امریکا کی ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کو حال ہی میں ایک خفیہ بریفننگ دی گئئی تھی، تاہم ذرائع نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ محققین کے ہسپتال میں داخلے کی رپورٹ اس اجلاس میں زیربحث آئی یا نہیں۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد صدارت کے آخری ایام میں سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وائرس ووہان انسٹیٹوٹ سے لیک ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے پاس شواہد ہیں کہ اس انسٹیٹوٹ کے محققین 2019 کی آخری سہ ماہی میں کووڈ جیسی علامات سے بیمار ہوئے تھے اور اس لیبارٹری میں چمگادڑوں میں موجود کورونا وائرس پر تحقیق ہوتی ہے اور اس کی فوجی تحقیق کی تاریخ بھی ہے۔

اس کے مقابلے میں بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے کورونا کے ماخذ کے حوالے سے کسی انٹیلی جنس رپورٹ کو عام نہیں کیا گیا اور ایسا کوئی عندیہ دیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال سی این این نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی حکومت اور خفیہ ایجنسیاں اس بات کی تحقیقات کر رہی ہیں کہ کیا واقعی کورونا وائرس ووہان کی لیبارٹری میں تیار ہوا؟۔

سی این این نے رپورٹ میں امریکی خفیہ اداروں کے اہلکاروں اور نیشنل سیکیورٹی کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکی حکومت اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ کیا واقعی کورونا وائرس ووہان کی گوشت مارکیٹ سے نہیں پھیلا بلکہ اسے ممکنہ طور پر کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا؟۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اگرچہ امریکی حکومت کے زیادہ تر عہدیداروں کو یقین ہے کہ کورونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا تاہم پھر بھی اب حکومت اور خفیہ ادارے مل کر اس بات کی کھوج لگائیں گے کہ کیا واقعی کورونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت اور خفیہ اداروں کی جانب سے کورونا کی ممکنہ طور پر لیبارٹری میں تیاری کی تحقیقات کے معاملے نے اس وقت تقویت پکڑی جب امریکی صدر کے انتہائی قریبی اور ان کی پارٹی کے کچھ ارکان کانگریس نے ڈونلڈ ٹرمپ پر کورونا وائرس کے حوالے سے ہونے والی تنقید پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس حوالے سے امریکی صدر پر تنقید بے جا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی حکومت سے منسلک خفیہ ادارے کے عہدیدار نے بتایا کہ خفیہ ادارے کے ماہرین اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا واقعی کورونا وائرس ووہان کی لیبارٹری میں تیار ہوا اور اسے اتفاقی طور پر انسانوں میں منتقل ہونے کے لیے چھوڑا گیا۔

رپورٹ کے مطابق خفیہ ایجنسی کے ایک اور ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ خفیہ اداروں کے ماہرین اس تھیوری پر یقین نہیں رکھتے کہ کورونا کو لیبارٹری میں ہی تیار کیا گیا، تاہم خفیہ ایجنسی کے ماہرین یہ بات جاننے کی کوشش کریں گے کہ کہیں لیبارٹری میں کام کرنے والے کسی شخص سے تو کوئی متاثر نہیں ہوا اور وہیں سے اس وبا کی شروعات ہوئی ہو۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں