چند ہفتے قبل کارپوریٹ پاکستان گروپ کا وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے ساتھ آن لائن مجلس مذاکرہ سُننے کا موقع ملا جس میں فواد چوہدری نے مختلف موضوعات پر کھل کر گفتگو کی۔ اس مذاکرے میں جب حکومت کی معاشی ٹیم میں مسلسل تبدیلیوں پر سوال کیا گیا تو فواد چوہدری نے نہایت دلچسپ بات کی۔

وہ کہتے ہیں کہ 'پاکستان میں معاشی صورتحال نہایت پیچیدہ ہے اور کوئی بھی وزیرِ خزانہ سوائے اسحٰق ڈار، اپنی مدت پوری نہیں کرسکا ہے۔ میں جب بھی معاشی ماہرین اور اقتصادی مشیران سے ملتا ہوں اور ان کے درمیان اختلافات کو دیکھتا ہوں تو مذہبی اسکالرز کے درمیان ہونے والے اختلافات کو بھول جاتا ہوں۔ ہر ایک کا اپنا فلسفہ ہے اور وہ اسی کو آگے لے کر بڑھنا چاہتا ہے۔ یہاں سوچ کے مختلف دھارے ہیں۔ کسی ایک بھی ماہرِ معیشت کی سوچ دوسرے سے نہیں ملتی ہے۔ بحران جب بھی آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وزیرِ خزانہ کی تھیوری ناکام ہوگئی ہے۔ پھر اس کی جگہ متبادل نظریہ لایا جاتا ہے‘۔

ایک جیسے اعداد و شمار سے یکسر مختلف اور متضاد تجزیہ کرنا بھی ہمارے معاشی ماہرین کا کمال ہے۔ مگر بعض اوقات حکومت بھی اعداد و شمار کو اس طرح پیش کرتی ہے جس سے اختلاف رکھنے والے معاشی ماہرین بھی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔

ایسے ہی اعداد و شمار کا گورکھ دھندا نیشل اکاؤنٹس کمیٹی (این اے سی) نے اپنے اعلامیے میں پیش کیا ہے۔ جس میں معاشی شرح نمو 3.9 فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

حکومت کا یہ دعویٰ سامنے آنا ہی تھا کہ وزرا نے خوشی کے شادیانے بجانے شروع کردیے جبکہ اپوزیشن تنقید کی تلواریں نکال کر میدان میں آگئی اور قائدِ حزبِ اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے معاشی شرح نمو کے اعداد و شمار کو جعلی اور من گھڑت قرار دے دیا۔

پڑھیے: شوکت ترین ملکی معیشت کو کس سمت لے جانے والے ہیں؟

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’مہنگائی 13 فیصد سے زائد ہے جبکہ گزشتہ ہفتے مہنگائی کی شرح 17 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ملک میں 50 لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں جبکہ 2 کروڑ افراد انتہائی غربت میں گزارا کررہے ہیں۔ کامیاب معیشتوں میں افراطِ زر کم اور ملازمتوں کی شرح بلند ہوتی ہے‘۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس دعویٰ پر حکومت کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی میں بہتری بتانا عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ اعداد و شمار میں ہیر پھیر سے حکومت کی انا کو تو تسکین حاصل ہوسکتی ہے مگر عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتا ہے’۔

اپوزیشن کی تنقید پر حکومت کی معاشی ٹیم بھی متحرک ہوگئی۔ وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے سخت پروگرام کے باوجود موجودہ مالی سال کے دوران وی شیپ ترقی کی ہے۔ اسد عمر کے مطابق نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی غیر سیاسی ہوتی ہے اور ہر اعلان حقائق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے جس معاشی شرح نمو کی پیش گوئی کی ہے وہ معیشت کے 6 اور 9 ماہ کے ڈیٹا بیس پر مشتمل ہے۔ کمیٹی نے گزشتہ مالی سال 20ء-2019ء کی معاشی شرح منفی 0.38 فیصد سے کم کرکے منفی 0.47 فیصد کردی ہے۔ اس طرح گزشتہ مالی سال کی معاشی شرح نمو 9 بیسز پوائنٹس مزید منفی کردی ہے۔ اس کم ترین معاشی ترقی کو بنیاد بنایا جائے تو اس کے مقابلے میں مختلف سیکٹرز کی کارکردگی زیادہ بہتری نظر آئے گی۔

نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے مطابق مجوزہ 3.94 فیصد شرح نمو میں زراعت کا حصہ 2.77 فیصد، صنعت کا حصہ 3.57 فیصد اور خدمات کا حصہ 4.43 فیصد رہا ہے۔ اب ان شعبوں پر الگ الگ نظر ڈالتے ہوئے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ معاشی تجزیہ کار اس پر کیا تبصرہ کررہے ہیں۔

زرعی شعبے کی ترقی 2.77 فیصد رہی جبکہ گزشتہ مالی سال یہ ترقی 3.31 فیصد تھی۔ گندم کی فصل میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ گندم کی پیداوار 1.8 فیصد، چاول 13.6 فیصد، گنا 22 اور مکئی کی پیداوار 7.38 فیصد رہی جبکہ کپاس کی پیداوار میں 22.8 فیصد کی کمی رہی۔ سبزیوں پھل اور جانوروں کے چارے میں 1.41 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ لائیو اسٹاک میں 3.1 فیصد اور جنگلات میں ترقی 1.4 فیصد دیکھی گئی ہے۔

پڑھیے: امیر امیر تر اور غریب غریب تر کیوں ہو رہا ہے؟

معاشی تجزیہ کار مزمل اسلم معاشی ترقی کے حوالے سے زرعی شعبے کی کارکردگی کو اچھا قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ’اس بار گندم کی ریکارڈ فصل ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر فصلوں کی پیداوار بھی بہتر رہی ہے، اسی وجہ سے معیشت کے یہ حیران کن اعداد و شمار سامنے آئے ہیں‘۔

مجموعی طور پر صنعتی شعبے میں ترقی 3.57 فیصد دیکھی گئی۔ کان کنی میں 6.5 فیصد کی کمی جبکہ بڑی صنعتوں میں ترقی 9.29 فیصد رہی ہے۔ ٹیکسٹائل کی نمو 5.9 فیصد، مشروبات اور تمباکو کی 11.73 فیصد، پیٹرولیم کی 12.71 فیصد، ادویات سازی کی 12.57 فیصد، کیمکلز کی 11.65 فیصد، معدنیات کی 24.31، آٹو موبائل کی 23.38 فیصد، فرٹیلائزر کی 5.69 فیصد اور تعمیراتی صنعت کی نمو 8.34 فیصد رہی جبکہ توانائی میں گیس اور بجلی کی نمو منفی 22.96 فیصد رہی۔

اگر بڑی صنعتوں کا ذکر کریں جنہیں ایل ایس ایم یعنی لارج اسکیل مینوفیکچرنگ بھی کہا جاتا ہے، اس کی ترقی کو 8.7 فیصد قرار دیا جارہا ہے جبکہ گزشتہ سال صنعتی پیداوار 7.4 فیصد اور مالی سال 19ء-2018ء میں منفی 0.69 فیصد تھی۔ اسی طرح خدمات کے شعبے کی نمو 19ء-2018ء میں کم ہوکر 3.8 فیصد رہ گئی تھی جو 20ء-2019ء میں منفی 0.55 فیصد رہی۔ اس سال خدمات کے شعبے میں 4.43 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

دیگر اداروں کی نمو سے متعلق پیش گوئیاں

پاکستان کے ڈیٹا بیس پر ملکی اور غیر ملکی ادارے بھی معاشی شرح نمو کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال معاشی شرح نمو 2.8 سے 3 فیصد، آئی ایم ایف نے 2 اور عالمی بینک نے 1.5 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا تھا۔

اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال معاشی شرح نمو 2.8 سے 3 فیصد، آئی ایم ایف نے 2 اور عالمی بینک  نے 1.5 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
اسٹیٹ بینک نے رواں مالی سال معاشی شرح نمو 2.8 سے 3 فیصد، آئی ایم ایف نے 2 اور عالمی بینک نے 1.5 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اعلانات اور دعوؤں پر سیاستدان ہی نہیں بلکہ ماہرینِ معیشت بھی تقسیم نظر آتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے گزشتہ ماہ اپریل میں میڈیم ٹرم بجٹ اسٹریٹجی تشکیل دی تھی جو آئی ایم ایف کو بھی ارسال کی گئی۔ اس میں جی ڈی پی 2.9 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی مگر چند ہفتوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ معاشی شرح نمو اچانک 3.94 فیصد تک پہنچ گئی؟

ماہرین معیشت کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ مالی سال کے ایک بڑے عرصے تک صنعتیں بند رہیں مگر اس کے باوجود اس میں بہتری دیکھی جارہی ہے۔ مگر یہ کون سی صنعتیں ہیں جو ایندھن یعنی بجلی اور گیس کا استعمال کیے بغیر اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں، کیونکہ بجلی اور گیس کے شعبے کی نمو تو منفی 22 فیصد رہی ہے۔

سابق وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ’ایک طرف حکومت توانائی کے شعبے یعنی بجلی اور گیس کی کھپت میں 22.996 فیصد گراوٹ دکھا رہی ہے تو دوسری طرف وہ صنعتی شعبے میں ترقی دکھا رہی ہے۔ توانائی کی کھپت کے بغیر صنعتی ترقی کیسے ممکن ہے؟‘

پاشا کا کہنا ہے کہ ’گزشتہ سال زرعی شعبے میں گراوٹ دیکھی گئی تھی، خصوصاً کپاس کی فصل کم ہوئی تھی۔ موجودہ سال زراعت میں بہتری دیکھی جارہی ہے جبکہ مواصلات، ٹرانپسورٹ کا شعبہ بھی تنزلی کا شکار ہے۔ ہول سیل اور ریٹیل کے شعبے میں بھی گراوٹ نظر آ رہی ہے‘۔

ہول سیل اور ریٹیل کا شعبہ گزشتہ سال اور اس سال بھی لاک ڈاؤن کی نذر رہا اور حکومتی اقدامات کی وجہ سے یا تو مارکیٹیں بند رہیں یا پھر کاروباری اوقات کار میں کمی کردی گئی تھی۔ خصوصاً عید کی خریداری میں کمی دیکھی گئی۔ رمضان المبارک میں عید کی خریداری آخری عشرے میں رات کے وقت کی جاتی ہے اور اس دوران مارکیٹوں میں بے پناہ رش دیکھا جاتا ہے جو گزشتہ 2 سال سے کورونا وبا کی وجہ سے مفقود ہے۔

پڑھیے: وزیرِ خزانہ کے عہدے پر رسہ کشی کا ماجرہ کیا ہے؟

اب جبکہ ہم وبا کی تیسری لہر کا سامنا کررہے ہیں اور معیشت بندشوں کا شکار ہے تو پھر کس طرح اتنی بڑی معاشی سرگرمی پیدا ہوسکتی ہے؟

پہلے اس بات کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ کون سا ڈیٹا ایسا سامنے آیا ہے جو اس وقت دستیاب نہیں تھا جب آئی ایم ایف کو بجٹ فریم ورک بھیجا جا رہا تھا۔ اپریل سے مئی کے درمیان کس چیز میں تبدیلی آئی ہے۔ کیا آئی ایم ایف اور نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کو الگ الگ ڈیٹا فراہم کیا گیا ہے؟

ماہرین کا خیال ہے کہ جب حتمی اعداد و شمار کو مرتب کیا جائے گا تو اصل معاشی ترقی 2 سے ڈھائی فیصد رہ جائے گی کیونکہ بعض ڈیٹا کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ جیسا کہ مالی سال 2019ء میں معاشی شرح نمو کو 3.3 فیصد سے کم کرکے 1.9 فیصد کردیا گیا تھا۔

روپے کی قدر میں اضافے اور جی ڈی پی بہتر ہونے سے فی کس آمدنی میں 13.4 فیصد کی بہتری آئی ہے۔ جس سے فی کس آمدنی 1361 ڈالر سے بڑھ کر 1543 ڈالر ہوگئی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ بہتری صرف اور صرف اکاؤنٹ بکس یعنی کاغذ میں ہونے والی بہتری قرار دی جاسکتی ہے کیونکہ روپے کی قدر 168 تک پہنچ جانے کی وجہ سے ملک میں دستیاب تمام کموڈیٹیز کی مالیت اسی تناسب سے ایڈجسٹ ہوچکی ہے۔

روپے کی قدر میں بہتری کی وجہ سے جی ڈی پی کا حجم 263 ارب ڈالر سے بڑھ کر 296 ارب ڈالر ہوگیا ہے اور حجم میں 33 ارب ڈالر کا اضافہ کسی بھی سال کا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔

اس پر معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کہتے ہیں کہ ’جی ڈی پی کا مطلب مقامی پیداوار ہے اور اس میں بہتری ڈالر کی قدر کم ہونے سے نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر جی ڈی پی میں اضافہ پاکستانی کرنسی میں دیکھا جائے تو یہ 14.81 فیصد بنتا ہے جبکہ ڈالر میں 12.5 فیصد بنتا ہے۔ کرنسی کے تقابل میں جی ڈی پی بڑھنے کے بجائے 2.3 فیصد کم ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ فی کس آمدنی کے تعین کے لیے مالی سال 20ء-2019ء اور مالی سال 21ء-2020ء میں آبادی کو یکساں یعنی 19 کروڑ 30 لاکھ دیکھا گیا ہے‘۔ خرم شہزاد سوال اٹھاتے ہیں کہ ’کیا ایک سال میں آبادی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا؟‘

اب جبکہ ہم وبا کی تیسری لہر کا سامنا کررہے ہیں اور معیشت بندشوں کا شکار ہے تو پھر کس طرح اتنی بڑی معاشی سرگرمی پیدا ہوسکتی ہے؟
اب جبکہ ہم وبا کی تیسری لہر کا سامنا کررہے ہیں اور معیشت بندشوں کا شکار ہے تو پھر کس طرح اتنی بڑی معاشی سرگرمی پیدا ہوسکتی ہے؟

جی ڈی پی کے مختلف اعداد و شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے خرم شہزاد مزید کہتے ہیں کہ ’ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر نے 18.7 فیصد کی شرح سے پرفارم کیا ہے۔ اگرچہ جی ڈی پی کی ترقی میں ریٹیل سیکٹر کا حجم 38 فیصد ترقی دکھا رہا ہے مگر صنعتی شعبہ اس کے برخلاف 20 فیصد ترقی دکھا رہا ہے‘۔

پاکستان تحریکِ انصاف سال 2018ء میں جب اقتدار میں آئی تو اختتام کو پہنچنے والے مالی سال یعنی 18ء-2017ء کے دوران معاشی شرح نمو 5.8 فیصد تھی جس کو بعدازاں کم کرکے 5.53 فیصد کردیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اوسط معاشی شرح نمو 4.7 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

پڑھیے: حکومت آئی ایم ایف کی شرائط مانے یا اگلے انتخابات کی تیاری کرے؟

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت میں مالی سال 19ء-2018ء کی معاشی شرح نمو 1.8فیصد، 0.47 فیصد اور 3.94 فیصد کو بھی درست مان لیا جائے تو اس کے مقابلے میں آبادی میں اضافے کی شرح 2.2 فیصد یا اس سے زائد بنتی ہے جبکہ حقیقی معاشی ترقی 1.2 فیصد رہی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر معیشت اتنی ہی اچھی چل رہی تھی تو عبدالحفیظ شیخ کو کیوں وزارت سے فارغ کیا گیا کیونکہ شوکت ترین نے تو حال ہی میں چارج سنبھالا ہے اور اس تمام کارکردگی کا سہرا تو عبدالحفیظ شیخ کے ہی سر جاسکتا ہے۔ مگر اس کا جواب کسی حکومتی نمائندے کے پاس نہیں ہے۔ یا یوں کہا جاتا سکتا ہے کہ شوکت ترین نے ضرور الہ دین کا چراغ رگڑ کر یہ ترقی حاصل کرلی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی معیشت کا مزید ڈیٹا آنا باقی ہے۔ اس کے بعد ہی معاشی شرح نمو کی اصل حقیقت سامنے آسکے گی۔ مگر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ معیشت میں پیداواری خصوصاً صنعتی شعبہ ابھی تک سال 2018ء کی سطح پر نہیں پہنچ سکا ہے۔

حکومتی ماہرین گزشتہ سال کی منفی شرحِ نمو کی بنیاد پر معاشی شرحِ نمو کی نئی سطح کا اعلان کررہے ہیں۔ اگر ایک مرتبہ پھر حکومت نے معاشی شرح نمو کے اعداد و شمار کو تبدیل کیا اور شرح حقیقی طور پر 3.94 فیصد نہ رہی تو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں اور مالیاتی اداروں کا پاکستان سے اعتماد اٹھ جانے کا خدشہ پیدا ہوجائے گا جس کی تلافی کسی کے بس میں نہیں ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں