لکھاری ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ 'بولو بھی' کے ڈائریکٹر ہیں۔
لکھاری ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ 'بولو بھی' کے ڈائریکٹر ہیں۔

پاکستان میں اظہارِ رائے کے تمام ذرائع کو حکومتی کنٹرول میں لانے کی ایک اور کوشش منظرِ عام پر آگئی ہے۔

وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے نام سے ڈرافٹ آرڈیننس جاری کردیا ہے۔ یہاں یہ امر ضروری ہے کہ اس آرڈیننس میں شامل نکات کا تجزیہ کیا جائے اور ساتھ ہی ریاست کی جانب سے اظہارِ رائے اور پریس کو کنٹرول کرنے کی حالیہ کوششوں کا بھی جائزہ لیا جائے۔

یہ مجوزہ باڈی پرنٹ، ٹیلی ویژن، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرے گی اور مجموعی طور پر مختلف ریگولیٹرز کو ایک باڈی میں ضم کردیا جائے گا۔ سمجھا یہ جارہا ہے کہ اس سے پیسے کی بچت ہوگی اور اختیارات کا نظام بہتر ہوگا، لیکن دراصل یہ حکومت کے کاندھوں پر موجود غیر آئینی سنسرشپ کے بوجھ کو کم کرنے کی کوشش ہے۔

خود اس مسودے میں کہا گیا ہے کہ ’جمہوریت میں میڈیا کو سیلف ریگولیٹری ہونا چاہیے‘، لیکن پھر سیلف ریگولیشن کے بارے میں یہ کہہ کر حکومت کی جانب سے میڈیا ریگولیشن کی راہ ہموار کی گئی ہے کہ ’اس کے نقصانات اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں‘۔

وزارتِ اطلاعات کی جانب سے پیش کیے جانے والے مسودے میں اس بات کو کھل کر تسلیم کیا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ’سرکاری اشتہارات کو مراعات کے طور پر‘ استعمال کرنے کا رجحان موجود ہے جس کے تحت میڈیا ہاؤسز سے من پسند کوریج حاصل کی جاتی ہے اور تنقیدی کوریج پر سزا دی جاتی ہے اور ماضی میں بھی یہ طرزِ عمل دیکھا گیا ہے۔

اگر یہ واقعی ایک ایسا جمہوری ملک ہے جہاں حقوق کا احترام کیا جاتا ہے تو پھر اس قسم کے طرزِ عمل کو تبدیل ہونا چاہیے۔ حکومتی اشتہارات کا مقصد پرنٹ، براڈکاسٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچنا ہونا چاہیے۔ ان اشتہارات کو میڈیا سے حمایت کے حصول کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ میڈیا کا کام ہی حکومت کا احتساب کرنا ہے۔

مزید پڑھیے: کورونا کی وبا و حکومتوں کی سختیاں آزادی صحافت پر 'قدغن'

پی ایم ڈی اے کے حوالے سے ایک اہم تشویش یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اس میں انٹرنیٹ کے مختلف نوعیت کا ادراک کیے بغیر سوشل میڈیا کو میڈیا کی دیگر اقسام کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ ایک جانب تو پری ونٹیشن آف الیکٹرانک سائبر کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016ء کا صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خاموش کروانے کے لیے ناجائز استعمال کیا جارہا ہے تو دوسری جانب پی ایم ڈی اے کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ’میگا ڈیٹا اور سوشل میڈیا کے دور میں ریگولیٹری کا کام صرف ’سائبر کرائم کی مجرمانے کارروائیوں‘ تک محدود ہے اور سائبر کرائم پر تحقیقات کرنے اور قانونی کارروائی کرنے کا اختیار ایف آئی اے کے پاس ہے‘۔

اس بیان میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے پیکا کے سیکشن 37 کا غلط استعمال کرتے ہوئے گزشتہ سال ٹک ٹاک پر 2 مرتبہ پابندی عائد کرنے کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔

ٹک ٹاک پر پابندی کے علاوہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو ریکارڈ تعداد میں صارفین کے ڈیٹا اور مواد کو ہٹانے کی درخواستیں بھیجی گئیں اور ان میں سے کئی درخواستوں پر سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے عمل بھی کیا گیا۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ پی ایم ڈی اے کی مدد سے سوشل میڈیا کو سنسر کرنے کی طاقت میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسی تجویز ہے جس کی اجازت نہ ہی آئین دیتا ہے اور نہ ہی یہ عملی طور پر ممکن ہے کیونکہ پی ایم ڈی اے کے مسودے میں یہ لکھا گیا ہے کہ ’انٹرنیٹ ٹیکنالوجی میں آنے والی ترقی کی وجہ سے حکومت کے ریگولیٹری اختیار میں کمی آتی جارہی ہے‘۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پیکا کے سیکشن 37 کے تحت ریموول اینڈ بلاکنگ آف ان لا فل آن لائن کانٹینٹ رولز، 2020ء کو ’بادی النظر میں آرٹیکل 19 سے تجاوز‘ قرار دیا ہے اور حکومت اب دوسری مرتبہ اس پر نظرثانی کر رہی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی پہلے ہی بہت کوششیں ہوچکی ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں آزادیِ اظہار کی صورتحال بدتر ہوگئی، رپورٹ

ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ریاست کی جانب سے جمہوریت اور آئینی اقدار اور طرزِ عمل کو مکمل طور پر بھلا دیا گیا ہے۔ پاکستان یونین آف جرنلسٹ، پاکستان بار ایسوسی ایشن اور ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کی جانب سے اس مجوزہ آرڈیننس کو ’میڈیا مارشل لا‘ لگانے کی کوشش کہا گیا ہے۔ اس مسودے کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور ایوان اور اسٹینڈنگ کمیٹی میں اس پر بحث کروانے کے بجائے جمہوری طریقہ کار کو بائی پاس کرکے اسے آرڈیننس کی صورت میں متعارف کروایا جارہا ہے۔

یہ مسودہ اچانک ہی عوامی بحث کا موضوع بنا ہے اور اب اسے تیزی سے پاس کروانے کی کوششیں ہورہی ہیں جبکہ دوسری جانب جرنلسٹ پروٹیکشن بل انسانی حقوق کی وزارت کی جانب سے 2 سال کی کوششوں کے بعد کابینہ سے پاس ہوا اور اب اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جارہا ہے۔ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان میں پریس کو تحفظ دینے کے بجائے پریس کو کنٹرول کرنا ہی اصل ترجیح ہے۔

یہ تمام کوششیں ایک ایسے پس منظر میں ہو رہیں ہیں کہ جس میں صحافی اسد طور کو وفاقی دارالحکومت میں ان کے گھر میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور حملہ آور اتنے دلیر تھے کہ انہیں سی سی ٹی وی کیمروں کی بھی پرواہ نہیں تھی۔

اس کے علاوہ کراچی میں فرید خان نامی فوٹو گرافر کو لاک ڈاؤن کی فوٹو گرافی کرنے پر پولیس کی جانب سے غیر قانونی طور پر گرفتار کرلیا جاتا ہے، اسی طرح ایک نجی چینل کی ٹیم کی جانب سے کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کی فلم بنانے پر ان کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان سب واقعات سے قبل اسلام آباد میں ابصار عالم پر گولی چلائی جاتی ہے۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ ماضی میں اسی حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے پی ایم ڈی اے کی طرز کے دیگر مسودوں پر بھی نظر ڈالی جائے۔ 2018ء میں موجودہ وزیرِ اطلاعات نے ہی پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کا خیال پیش کیا تھا جس میں الیکٹرانک، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا ریگولیٹرز کو ضم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

اسی طرح 2020ء میں ایک مسودہ سامنے آیا جس میں ویب چینلز اور اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کو بھی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے زیرِ اثر لانے کی تجویز دی گئی۔ ان دونوں مسودوں پر پی ایم ڈی اے کی طرح ہی تنقید کی گئی تھی کہ اس طرح کے قوانین کی ہماری جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہے کہ جس میں آرٹیکل 19 اور 19 اے پریس کی آزادی اور معلومات کے حصول کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔

مزید پڑھیے: صحافت سے دم توڑتی مزاحمت دیکھ کر ڈر لگتا ہے

رجسٹریشن اور نگرانی کے سخت عمل کے ذریعے سول سوسائٹی پر کنٹرول تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ اب پریس اگلا ہدف لگتا ہے کہ سالانہ ’نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ‘، قابلِ منسوخ لائسنس، ٹرائبیونلز کے ذریعے جرمانے عائد کیے جائیں گے اور صرف سپریم کورٹ میں اپیل کی اجازت کے ذریعے میڈیا کو نیا ہدف بنالیا گیا ہے۔

پاکستان میں سرکاری اور نجی فلموں اور الیکٹرانک، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے کا قیام دراصل تمام میڈیا کو پاکستان ٹیلی ویژن کی طرح بنانے کا منصوبہ ہے۔ وزیرِاعظم نے وعدہ کیا تھا کہ پی ٹی وی آزاد رہے گا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

ملک میں جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا اور انٹرنیٹ ریگولیٹر خفیہ اور سرکاری حکام کے دباؤ سے آزاد رہ کر کام کریں۔ مسودے میں ہر شعبے کے لیے مجوزہ ونگ کے بجائے ہر ریگولیٹر کو علیحدہ کام کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ہمیں ’ہائبرڈ ریگولیٹری فریم ورک‘ کی کوششیں بھی ترک کردینی چاہیئیں۔ یہ سخت سنسنر کا ایک انداز ہے جس کو ریاستی سنسر کے لیے جرمانے عائد کرنے، لائسنس منسوخ کرنے اور صحافیوں کے روزگار کو خطرے میں ڈالنے کی طاقت حاصل ہے۔


یہ مضمون 3 جون 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں