یہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا مسلسل دوسرا سیزن ہے جو کورونا وائرس سے متاثر ہوا ہے۔ پی ایس ایل کیا؟ اس وقت تو دنیا کا ہر شعبہ خاص طور پر کھیل اس وبا کی زد میں ہیں۔ بھارت میں انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) ملتوی ہوچکی ہے جبکہ اگلے ماہ ٹوکیو میں طے شدہ اولمپکس پر بھی لگاتار دوسرے سال خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ بہرحال، پاکستان سپر لیگ کی خوش قسمتی یہ ہے کہ گزشتہ سال بھی اسے مکمل ہونے کا موقع ملا اور اس سال بھی ایسا ہونے والا ہے۔

گزشتہ سال یعنی 2020ء میں کورونا وائرس کی اچانک آمد سے پاکستان سپر لیگ بہت ہی اہم مرحلے پر ملتوی ہوگئی تھی اور باقی ماندہ میچ 8 مہینے کے طویل وقفے کے بعد نومبر میں ہو پائے تھے۔ لیکن 2021ء میں تو کورونا وائرس نے کہیں پہلے لیگ کو جا لیا۔ ابھی تمام ٹیموں نے پہلے مرحلے کے آدھے میچ بھی نہیں کھیلے تھے کہ چند کھلاڑی اس وبا سے متاثر ہوگئے اور یوں ایک مرتبہ پھر سیزن کو مؤخر کرنا پڑا۔

ابھی تمام ٹیموں نے پہلے مرحلے کے آدھے میچ بھی نہیں کھیلے تھے کہ سیزن کو مؤخر کرنا پڑا۔

اب پچھلے سال کی طرح ایک مرتبہ پھر ہم سیزن کے باقی ماندہ مقابلوں کا رخ کر رہے ہیں۔ بس فرق ‘اتنا سا’ ہے کہ گزشتہ سال منقسم سیزن کے دونوں حصے پاکستان میں کھیلے گئے تھے، لیکن اس مرتبہ بقیہ میچ کے لیے متحدہ عرب امارات کا رخ کرنا پڑا ہے۔ یعنی ‘یہ تو وہی جگہ ہے، گزرے تھے ہم جہاں سے’۔

ابھی تک تو اس اماراتی مرحلے کو غیر یقینی کیفیت کا سامنا ہے۔ سب سے پہلے کئی کھلاڑیوں کی عدم دستیابی کا مسئلہ تھا، کئی ٹیموں کا تو حلیہ ہی بدل چکا ہے، پھر ویزا مسائل کا بھی معاملہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اس وقت وبا کو روکنے کے لیے پاکستان سمیت مختلف ممالک سے مسافروں کی آمد پر پابندی رکھتا ہے، اس لیے خصوصی اجازت ناموں کا حصول اور ابھی تو ‘پارٹی شروع ہوئی ہے’، آگے نجانے کیا کیا دیکھنا پڑے گا۔ بہرحال، اتنا تو ہمیں یقین ہے کہ ایک مرتبہ رکا ہوا سلسلہ شروع ہوجائے تو یہ سب بے معنی رہ جانا ہے، کیونکہ تب سب کی نظریں صرف اور صرف میدان پر ہوں گی۔

امارات، پی ایس ایل کی جنم بھومی

متحدہ عرب امارات پاکستان سپر لیگ کی جنم بھومی ہے۔ یہیں کے میدانوں پر 2016ء میں اس خواب کی تعبیر کا آغاز ہوا تھا۔ جب کسی کو یقین نہیں تھا کہ پاکستان کوئی لیگ بھی منعقد کر پائے گا، تب دبئی اور شارجہ نے اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔ یہی میدان اگلے 4 سال تک پی ایس ایل کے بیشتر مقابلوں کے میزبان رہے۔ ‏

2017ء میں پورے سیزن کا صرف ایک مقابلہ یعنی فائنل ہی پاکستان میں منعقد ہوا تھا۔ 2018ء میں آخری دو eliminator اور فائنل لاہور و کراچی میں ہوئے جبکہ 2019ء میں پہلا مرحلہ مکمل طور پر متحدہ عرب امارات میں اور پلے آف پاکستان میں کھیلے گئے، یہاں تک کہ 2020ء آگیا، جو پہلا سال تھا کہ پاکستان کی لیگ مکمل طور پر پاکستان ہی میں کھیلی گئی، وہ بھی صرف کراچی اور لاہور ہی میں نہیں بلکہ راولپنڈی اور ملتان کے میدانوں پر بھی۔

پھر نجانے کس کی نظر لگ گئی اور کورونا وائرس آگیا! پہلے تو تماشائیوں کو میدانوں سے بے دخل کیا گیا، پھر چند کھلاڑیوں کے ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ سے لیگ ہی ملتوی ہوگئی اور 8 مہینے کے طویل وقفے کے بعد باقی ماندہ میچ خاموشی کے ساتھ کھیلے گئے، یعنی تماشائیوں کے بغیر۔

پی ایس ایل کا آغاز 2016ء میں امارات سے ہی ہوا تھا
پی ایس ایل کا آغاز 2016ء میں امارات سے ہی ہوا تھا

2017ء میں سیزن کا صرف فائنل پاکستان میں کھیلا گیا
2017ء میں سیزن کا صرف فائنل پاکستان میں کھیلا گیا

2020ء میں پی ایس ایل کا سیزن 5 مکمل طور پر پاکستان میں منعقد ہوا
2020ء میں پی ایس ایل کا سیزن 5 مکمل طور پر پاکستان میں منعقد ہوا

کورونا وائرس کے باعث سیزن 5 کے کچھ میچ تماشائیوں کے بغیر کھیلے گئے اور پھر سیزن ہی ملتوی کردیا گیا
کورونا وائرس کے باعث سیزن 5 کے کچھ میچ تماشائیوں کے بغیر کھیلے گئے اور پھر سیزن ہی ملتوی کردیا گیا

اس سال تمام ٹیمیں پہلے مرحلے میں اپنے آدھے میچ بھی نہیں کھیل پائی تھیں کہ لیگ پھر وبا کی لپیٹ میں آگئی اور اب باقی ماندہ میچ بھی پاکستان میں منعقد نہیں ہو رہے۔

لیگ کی امارات منتقلی جہاں ایک لحاظ سے مایوس کُن ہے تو کئی ٹیموں کی باچھیں ضرور کھل گئی ہوں گی، کیونکہ لیگ کی پاکستان منتقلی کے ساتھ ہی جو 'زیرو' تھے وہ 'ہیرو' بن گئے تھے اور جو 'ہیرو' بنے پھرتے تھے، انہیں بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

چند ٹیمیں، جن کی ابتدائی 4 سیزنز میں دھاک بیٹھی ہوئی تھی، وہ لیگ کے پاکستان منتقل ہوتے ہی بھیگی بلّی نظر آئیں۔ ہم 2 مرتبہ کے چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ اور 3، 3 مرتبہ فائنل کھیلنے والے پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی بات کر رہے ہیں کہ جن کا متحدہ عرب امارات میں دُور دُور تک کوئی مقابل نہیں تھا۔

خود اندازہ لگا لیجیے، پہلے سیزن میں ابتدائی مرحلے میں پوائنٹس ٹیبل پر سب سے اوپر نظر آئے پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد اور کامیابی کا تاج یونائیٹڈ کو ملا۔

دوسرے سیزن میں پشاور اور کوئٹہ سب سے کامیاب ٹیمیں رہیں اور زلمی چیمپئن بھی بنے۔

تیسرے میں اسلام آباد ٹاپ پوزیشن پر آیا، بلکہ فائنل میں پشاور کو شکست دے کر دوسری مرتبہ چیمپئن بھی بنا۔

2019ء میں پھر ٹیبل پر پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد کا راج رہا۔ یعنی کہ کراچی، لاہور اور ملتان ہمیشہ ‘بگ تھری’ سے پیچھے ہی رہے۔ بلاشبہ، کراچی نے 2017ء اور 2018ء کے سیزنز میں کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن ان تینوں کو پچھاڑنا ہمیشہ سے مشکل رہا۔

امارات میں ہونے والے سیزنز میں اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور کی ٹیمیں دھاڑتی نظر آئیں
امارات میں ہونے والے سیزنز میں اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور کی ٹیمیں دھاڑتی نظر آئیں

کراچی، لاہور اور ملتان امارات میں تو بگ تھری سے پیچھے رہے لیکن پاکستان میں ان کی کایا پلٹ گئی
کراچی، لاہور اور ملتان امارات میں تو بگ تھری سے پیچھے رہے لیکن پاکستان میں ان کی کایا پلٹ گئی

لیکن پھر 2020ء آگیا، وہ سال جو بڑی امیدوں اور توقعات کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ پی ایس ایل پہلی بار مکمل طور پر پاکستان میں آئی اور وطنِ عزیز پہنچتے ہی چند ٹیموں کی کایا پلٹ گئی۔ وہ تمام ٹیمیں جو پچھلے سیزنز میں دبی دبی سی رہتی تھیں، پاکستان کے میدانوں پر شیر کی طرح دھاڑتی دکھائی دیں۔

پہلے مرحلے کی تکمیل پر ملتان سلطانز 14 پوائنٹس کے ساتھ پہلے نمبر پر نظر آیا جبکہ کراچی کنگز دوسرے اور لاہور قلندرز تیسرے نمبر پر آیا۔ جی ہاں! قلندرانِ لاہور جو تسلسل کے ساتھ ہر سیزن میں آخری نمبر پر آئے تھے اس مرتبہ ان کی بلند پروازی دیکھیں کہ فائنل تک پہنچ گئے، جہاں روایتی حریف کراچی کے ہاتھوں انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

سال 2020ء میں گزشتہ تمام سیزنز کی ٹاپ ٹیمیں پشاور، اسلام آباد اور کوئٹہ آخری نمبروں پر نظر آئیں جو حیران کُن بات تھی۔ 2 مرتبہ کا چیمپئن اسلام آباد تو 10 میں سے صرف 3 میچ ہی جیت پایا جبکہ 3، 3 مرتبہ رنر اپ رہنے والے کوئٹہ اور پشاور صرف 4، 4 میچ جیت سکے۔

تو کیا لیگ کی واپس امارات منتقلی گزشتہ سال ہزیمت سے دوچار ہونے والی ان ٹیموں کے لیے امید کی کرن ہے؟

ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو۔ خاص طور پر پشاور اور اسلام آباد کے لیے یہ واپس آنے کا بہترین موقع ہوسکتا ہے کیونکہ ان کی پوزیشن اس وقت کافی اچھی ہے۔ البتہ معاملات کوئٹہ کے حق میں نظر نہیں آتے۔ رواں سال تقریباً آدھا سیزن مکمل ہوچکا ہے۔ اسلام آباد اور لاہور کے سوا تمام ہی ٹیمیں اپنے 5، 5 میچ کھیل چکی ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ دفاعی چیمپئن کراچی، پشاور، اسلام آباد اور لاہور سب کے 6، 6 پوائنٹس ہیں جبکہ ملتان اور کوئٹہ صرف 2، 2 پوائنٹس حاصل کر پائی ہیں۔ یعنی اس وقت بھی وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔

ٹیموں میں آنے والی تبدیلی اور موسم کی صورتحال

پھر ٹیموں میں اچھی خاصی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اسلام آباد کو ایلکس ہیلز اور کرس جارڈن کی خدمات حاصل نہیں ہیں۔ پشاور لیام لوِنگسٹن، ثاقب محمود اور روی بوپارا سے محروم ہوچکا ہے جبکہ کوئٹہ کے پاس بین کٹنگ، انور علی، کرس گیل اور ڈیل اسٹین نہیں ہیں۔

پھر اس مرتبہ امارات میں آمد فروری اور مارچ کے خوشگوار موسم میں نہیں ہو رہی ہے بلکہ جون کا مہینہ ہے اور صحرائی گرمی ہے۔ اگلے 20 دن میں ابوظہبی میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس روز درجہ حرارت 40 ڈگری یا اس سے بھی زیادہ نہ ہو۔

پوائنٹس ٹیبل، ٹیموں میں آنے والی تبدیلیاں اور موسم، یہ تمام پہلو بہت اہمیت رکھتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ مقابلے کا میدان اب بھی مکمل طور پر کھلا ہوا ہے۔ دفاعی چیمپئن کراچی اعزاز پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں چھوڑے گا، لاہور سالہا سال کے انتظار کے بعد گزشتہ سال دکھائی گئی کارکردگی سے حوصلہ پاکر آگے جانے کی کوشش کرے گا، کوئٹہ اور پشاور پچھلے سال کی ناکامیوں کا ازالہ کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے اور اسلام آباد، اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ وہ ٹیم ہے جو 2 مرتبہ فائنل تک آئی ہے اور دونوں مرتبہ جیتی ہے۔ یعنی ‘گیم آن ہے!’

تبصرے (0) بند ہیں