مقبوضہ کشمیر میں مزید جغرافیائی تبدیلیوں کی رپورٹس پر پاکستان کا اظہار تشویش

اپ ڈیٹ 08 جون 2021
دفتر خارجہ نے بھارت سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مکمل پاسداری کا مطالبہ کیا— فائل فوٹو: اے پی پی
دفتر خارجہ نے بھارت سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مکمل پاسداری کا مطالبہ کیا— فائل فوٹو: اے پی پی

پاکستان نے مقبوضہ کشمیر پر غیرقانونی قبضہ برقرار رکھنے کے لیے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات مسترد کرتے ہوئے مزید تقسیم اور جغرافیائی تبدیلیوں کی سازش سے متعلق رپورٹس پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارت کے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے منافی ہیں۔

مزید پڑھیں: 'کشمیر سے متعلق یکطرفہ اقدامات واپس لینے تک بھارت سے تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے'

ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بین الاقوامی تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے اور پاکستان مقبوضہ علاقے کی آبادیاتی ساخت اور حتمی حیثیت میں تبدیلی کی بھارتی کوششوں کی بھرپور مخالفت جاری رکھے گا۔

دفتر خارجہ نے بھارت سے غیر قانونی اقدامات اور کارروائیاں روکنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مکمل پاسداری کرے اور مزید کسی بھی ایسے اقدامات سے اجتناب کرے جس سے جنوبی ایشیا میں علاقائی امن و استحکام متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔

انہوں نے عالمی برادری، اقوام متحدہ، عالمی پارلیمان، بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی میڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر صورت حال کا ادراک کریں کیونکہ بھارت کو مقبوضہ علاقے میں مزید کسی بھی غیر قانونی اقدامات سے روکنا ہو گا۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان حق خود ارادیت کے حصول کے لیے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی ہر ممکن حمایت جاری رکھنے کے اپنے عزم پر سختی سے قائم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کشمیر کی حیثیت کی بحالی کا لائحہ عمل دے تو مذاکرات کیلئے تیار ہیں، وزیراعظم

دفتر خارجہ نے کہا کہ نئے قبضوں کا کوئی قانونی اثر نہیں ہوگا اور بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق نہ تو مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت تبدیل کر سکتا ہے اور نہ ہی کشمیروں اور پاکستان کو غیر قانونی نتائج تسلیم کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

یاد رہے کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے متنازع خطے کو وفاقی اکائی میں تبدیل کردیا تھا۔

بھارت کے اس اقدام کے خلاف مقبوضہ کشمیر اور پاکستان بھر میں احتجاج کیا گیا تھا جبکہ کشمیری قیادت اور سیاسی کارکنوں کو نظر بند اور گرفتار کرلیا گیا تھا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات بھی کشیدہ ہوگئے تھے اور باہمی تجارت بھی روک دی گئی تھی۔

وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت اس سے قبل بھی بھارت سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی2019 سے پہلے والی حیثیت بحال کریں تاکہ حالات معمول پر آجائیں۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی رہنما قاتلانہ حملے میں ہلاک

گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ بھارت جب تک کشمیر میں یکطرفہ اقدامات واپس نہیں لیتا، ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے جس کا نقصان ان دونوں ممالک کے علاوہ پورے وسط ایشیا کو ہوگا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان علاقائی فوائد اس وقت حاصل کر سکتا ہے جب خطے میں امن ہو، بھارت کی جانب سے 2019 میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے یکطرفہ اقدام کیے جانے کے بعد ہمارے لیے ان کے ساتھ تجارت معمول پر لانا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ کشمیریوں کی قربانیوں کے ساتھ غداری ہوگی۔

بعدازاں اپنے بیان میں انہوں نے بھارت کو پھر مشروط بات چیت کی پیش کش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت کی بحالی کا لائحہ عمل دے تو پاکستان مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خود مختاری ختم کرکے ریڈ لائن عبور کر لی تھی، انہیں ہمارے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کے لیے واپس آنا پڑے گا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Jun 08, 2021 02:46pm
Hammariee hakumat neend mein hai…...