لاہور قلندرز نے اس میچ میں ایسی کارکردگی دکھائی جو یا تو قلندرز دکھا سکتے ہیں یا پاکستان کی قومی ٹیم۔ ایک ایسا میچ جو قلندرز کے ہاتھوں میں تھا اسے تقریباً گنوا دینے کے بعد اسلام آباد یونائیٹڈ کے ہاتھوں سے فتح کو چھین لینا، یہ کام صرف یہی 2 ٹیمیں کر سکتی ہیں۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا دوبارہ آغاز ایک سست پچ پر ہوا جہاں بیٹنگ کافی مشکل لگ رہی تھی لیکن اس میچ کے دوران شائقین کی دلچسپی شروع سے آخر تک برقرار رہی۔ دونوں ہی ٹیموں نے بیٹنگ میں کئی غلطیاں کیں لیکن اسلام آباد یونائیٹڈ نے جس طرز کی بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اس کے مطابق تو شاید وہ فتح کے حقدار ہی نہ تھے۔ یونائیٹڈ کی بیٹنگ دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ ٹاس کی شکست کے ساتھ ہی میچ میں شکست تسلیم کرچکے ہیں۔

عثمان خواجہ سے لے کر آصف علی تک تمام بلے باز کریز پر جمنے کی کوشش میں گیندیں ضائع کرتے رہے اور دباؤ بڑھ جانے پر وکٹیں گنواتے رہے۔ اگرچہ ماضی میں شاداب خان نے یونائیٹڈ کے لیے چند بہتر اننگز ضرور کھیلی ہیں لیکن انہیں جلد از جلد اس بات کو محسوس کرنا ہوگا کہ ابھی وہ نمبر 4 کی پوزیشن کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کی بیٹنگ لائن کافی طویل ہے جہاں حسن علی نمبر 9 اور محمد وسیم نمبر 10 پر بیٹنگ کرتے ہیں اور دونوں ہی بہت اچھی ہٹس لگا لیتے ہیں، لیکن وہ اپنا روایتی کھیل اسی وقت پیش کرسکتے ہیں جب ابتدائی نمبروں پر آنے والے بیٹسمین اچھا آغاز فراہم کرسکیں، جو بدقسمتی سے اس میچ میں نہیں ہوسکا۔ یونائیٹڈ کے پاس ایک اچھی بیٹنگ لائن اپ ضرور ہے لیکن شاید بیٹسمینوں کی بیٹنگ پوزیشن اور بیٹنگ اپروچ بدلنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس میچ میں لاہور قلندرز کی فیلڈنگ اچھی نہیں تھی، انہوں نے نہ صرف ایک سے زائد کیچ چھوڑے بلکہ اوور تھرو کے رنز بھی دیے لیکن اسلام آباد یونائیٹڈ کے بلے باز جیمز فالکنر کی عام سی گیندوں پر وکٹیں گنواتے رہے۔

لاہور قلندرز کے پاس بہترین باؤلنگ اٹیک موجود ہے لیکن شاہین شاہ آفریدی، راشد خان اور حارث رؤف کی موجودگی میں کسی کو امید نہیں تھی کہ جیمز فالکنر قلندرز کے سب سے اہم ہتھیار ثابت ہوں گے۔ فالکنر کی نپی تلی باؤلنگ کے ساتھ ساتھ ان وکٹوں کے گرنے میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے بیٹسمینوں کے بے مقصد شاٹس کا بھی ہاتھ تھا۔

راشد خان، جنہوں نے قلندرز کی نمائندگی کرنے کے لیے وائٹلٹی بلاسٹ کے میچ چھوڑنے کو ترجیح دی، انہوں نے ایک زبردست اسپیل کرکے ایک بار پھر بتادیا کہ ٹی20 کرکٹ میں ان سے بہترین اسپنر شاید کوئی نہیں۔

راشد خان نے اپنے تمام ہتھیار استعمال کیے اور کسی بھی بلے باز کو کھیلنے کا موقع نہیں دیا۔ یہاں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر آئندہ میچوں میں وکٹیں اسی طرح سست رہیں تو راشد خان لاہور قلندرز کے لیے نہایت اہم ہتھیار ثابت ہوسکتے ہیں۔

محمد فیضان پچھلے کئی سال سے لاہور قلندرز کے ساتھ ہیں لیکن شاید ابھی تک کسی کو یہ سمجھ نہیں آسکا کہ فیضان اس ٹیم میں بحیثیت باؤلر کھیلتے ہیں یا بیٹسمین؟ فیضان لاہور قلندرز کے پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام کا حصہ ہیں جہاں سے کئی دیگر نوجوان بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ ایک بہت اچھا پروگرام ہے جس سے نوجوان کھلاڑیوں کو ایک بڑے لیول پر سامنے آنے کا موقع ملتا ہے، لیکن یہاں سب سے اہم ذمہ داری قلندرز کے کپتان پر عائد ہوتی ہے، جنہوں کم از کم اتنا تو ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ 11 کھلاڑیوں میں شامل کھلاڑیوں کا ٹیم میں مقصد کیا ہے؟

فیضان کئی میچوں میں قلندرز کی نمائندگی کرچکے ہیں لیکن انہیں کم ہی بیٹنگ کا موقع مل سکا، لیکن حیران کن طور پر اس میچ میں وہ اہم ترین پوزیشن یعنی تیسرے نمبر پر بیٹنگ کرتے دکھائی دیے۔ یہ ان کے لیے ایک اچھا موقع تھا لیکن 2 عمدہ شاٹس لگانے کے بعد وہ جس طرح وکٹ گنوا بیٹھے، اس سے شاید ہی کوئی کپتان خوش ہوگا خاص طور پر اگر کپتان خود نان اسٹرائیکر اینڈ پر موجود ہو۔

محمد حفیظ اور سہیل اختر جس وقت کریز پر موجود تھے، اس وقت تو یہی لگ رہا تھا کہ قلندرز یہ میچ آرام سے جیت جائیں گے اور اسلام آباد یونائیٹڈ سے مسلسل 6 میچ ہارنے کے بعد قلندرز کو بالآخر فتح نصیب ہوجائے گی، لیکن شاید یہی دباؤ تھا کہ وکٹیں گرنے لگیں اور مطلوبہ رن ریٹ تیزی سے اوپر جانے لگا۔ اس موقع پر کریز پر ڈیوڈ موجود تھے لیکن یہ ڈیوڈ ویزے نہیں بلکہ ٹم ڈیوڈ تھے۔ ڈیوڈ ویزے کی موجودگی لاہور قلندرز کے کپتان اور باقی انتظامیہ کے لیے اطمینان کا باعث رہی ہے کیونکہ وہ لاہور قلندرز کو ایسی پوزیشن سے کئی میچ جتوا چکے ہیں تاہم پی ایس ایل کے باقی میچوں کے لیے لاہور قلندرز کا حصہ نہیں ہیں۔

اگرچہ ٹم ڈیوڈ نے بھی جیت میں اپنا حصہ ضرور ڈالا لیکن یہ راشد خان تھے، جو ایک بہترین اسپیل کرنے کے بعد اس وقت کریز پر آئے تھے جب آخری اوور میں فتح کے لیے 16 رنز درکار تھے۔

لیکن جس شاداب خان کو یونائیٹڈ کے کوچ جوہان بوتھا نے میچ سے پہلے لیگ کا بہترین کپتان قرار دیا تھا، انہی شاداب خان سے اس میچ میں ایک غلطی ہوگئی۔ شاداب نے اپنے سب سے اہم باؤلرز یعنی حسن علی اور فہیم اشرف کے اوور پہلے ہی ختم کرلیے تھے، اور اس کی کمی آخری اوور میں بہت محسوس ہوئی کیونکہ اس اہم ترین اوور کے لیے حسین طلعت کو بلانا پڑا، جو یونائیٹڈ کو بھاری پڑگیا۔

اگرچہ شاداب خان کا اپنا ایک اوور بھی باقی تھا لیکن شاید وہ راشد خان کا سامنا کرنے سے گھبرا گئے۔ حسین طلعت وکٹ کو سمجھنے میں غلطی کرگئے اور ہلکی گیندیں پھینکنیں کے بجائے زور لگاتے رہے اور راشد خان کو یونائیٹڈ کے ہاتھوں سے فتح چھین لینے کا موقع میسر آگیا۔

اگرچہ یہ ایک لو اسکورنگ میچ تھا، لیکن اس کے باوجود یہ کہہ لینا چاہیے کہ پی ایس ایل کا دوبارہ آغاز ایک شاندار میچ سے ہوا جہاں قلندرز نے فتح حاصل کرلی اور ساتھ ہی پوائنٹس ٹیبل پر پہلی پوزیشن پر بھی قبضہ جمالیا لیکن اس میچ میں دونوں ٹیموں نے کئی غلطیاں کیں جن پر آنے والے میچوں میں قابو پانا ہوگا۔ دونوں ٹیموں کو بیٹنگ پوزیشنز میں تبدیلی اور بیٹنگ اپروچ میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں