گلیڈی ایٹرز بمقابلہ قلندرز

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے لاہور قلندرز کو شکست دے کر پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سے اپنی واپسی کو فی الحال روک لیا ہے اور اس فتح کے بعد گلیڈی ایٹرز اور ان کے فینز کی بھی امیدیں بندھ گئی ہیں۔

تاہم اگلے مرحلے میں پہنچنے کے لیے کوئٹہ کو لازمی طور پر اپنے آخری 2 میچ جیتنے ہوں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ گلیڈی ایٹرز کو اس بات کو بھی ممکن بنانا ہوگا کہ پوائنٹس ٹیبل پر 2 ٹیمیں ان سے نیچے ہوں اور اگر پوائنٹس میں برابر بھی ہوں تو نیٹ رن ریٹ بہرحال نیچے ہو۔

قلندرز کے خلاف اس میچ میں گلیڈی ایٹرز کے اعظم خان پاکستانی اسکواڈ میں سلیکشن کے بعد پہلی بار ایسی ہٹنگ کرتے نظر آئے جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔ اعظم کی کریز پر موجودگی تک لگ رہا تھا کہ گلیڈی ایٹرز 175 کے لگ بھگ اسکور بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن ان کی وکٹ گرنے کے بعد سرفراز احمد اور باقی بیٹسمین اتنا تیز نہ کھیل پائے۔

مزید پڑھیے: گلیڈی ایٹرز، جنہوں نے اپنا اصل کہیں کھو دیا!

عثمان شنواری شاید دو انتہاؤں پر ہی کھیلنا جانتے ہیں اور اس مرتبہ ٹیم میں اپنی واپسی پر گلیڈی ایٹرز کی فتح کا باعث بن گئے۔ عثمان شنواری جو پی ایس ایل کے ابوظہبی لیگ میں اپنا پہلا میچ کھیل رہے تھے، آتے ہی چھا گئے اور گلیڈی ایٹرز کو ٹورنامنٹ کے اگلے مرحلے میں لے جانے کے لیے برقرار رکھا۔ یہاں یہ کہنا بنتا ہے کہ یہ مکمل طور پر ون مین شو نہیں تھا، بلکہ کوئٹہ کے باقی سارے باؤلرز نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

مجھے یہاں یہ کہنے دیجیے کہ لاہور قلندرز واقعی قلندروں کی طرح ہی کھیلتی ہے، کبھی جیتا ہوا میچ ہار جاتے ہیں تو کبھی ہارا ہوا میچ جیت جاتے ہیں۔ لیکن اس میچ میں کچھ غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ ایک درمیانے ہدف کے تعاقب میں لاہور قلندرز کی وکٹیں شروع سے ہی گرتی رہیں اور اگر ٹم ڈیوڈ ایک عمدہ اننگ نہ کھیل جاتے تو شاید قلندرز کی اننگ 100 سے پہلے ہی سمٹ جاتی۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ وکٹ میں باؤلرز کے لیے کچھ مدد ضرور موجود تھی لیکن ہدف ایسا نہیں تھا کہ اس کو حاصل نہ کیا جاسکتا، تاہم لاہور قلندرز کے بیٹسمین غلط شاٹس کھیل کر وکٹیں گنواتے رہے۔

اس وقت کوئٹہ، لاہور اور کراچی کا نیٹ رن ریٹ منفی میں ہے۔ کوئٹہ کے لیے نیٹ رن ریٹ میں بہتری کی امید اس میچ میں پیدا ہوچکی تھی لیکن ٹم ڈیوڈ کی عمدہ اننگ کے بعد شاہین آفریدی اور حارث رؤف کی چند بڑی ہٹس نے فتح کا مارجن بہت کم کردیا۔

لاہور قلندرز کے پاس اس ٹورنامنٹ کی سب سے اچھی باؤلنگ لائن موجود ہے لیکن انہیں بیٹسمینوں کی طرف سے کچھ خاص مدد حاصل نہیں، اور اگر پچھلے دونوں میچوں میں ہونے والی شکست کا جائزہ لیا جائے تو اس کی مکمل ذمہ داری بیٹسمینوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔

قلندرز کے لیے جیمز فالکنر کی سلیکشن بہترین ثابت ہوئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پچھلے 2 میچوں میں ان کے بیٹسمین ساتھ نہ دے پائے لیکن جیمز فالکنر مسلسل وکٹیں حاصل کر رہے ہیں اور صرف 4 میچوں میں 11 وکٹیں اپنے نام کرچکے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے موسم کے بارے میں تو سبھی کو اندازہ تھا کہ یہ کھلاڑیوں کو بہت تنگ کرسکتا ہے لیکن میدان کے اندر درجہ حرارت اتنا بڑھ جائے گا اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور لاہور قلندرز کے درمیان ہونے والے میچ میں سرفراز احمد اور شاہین آفریدی کے درمیان ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا۔ شاہین آفریدی کا باؤنسر جب کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کپتان سرفراز احمد کے سر سے ٹکرایا تو شاہین نے سرفراز کا حال تک نہ پوچھا بلکہ نان اسٹرائیکنگ اینڈ پر دونوں کھلاڑی لفظی جنگ میں الجھے نظر آئے۔ معاملہ سلجھانے میں دونوں امپائرز کے ساتھ ساتھ لاہور قلندرز کے اسٹار بیٹسمین محمد حفیظ بھی آگے آگے رہے اور سرفراز احمد کو ٹھنڈا کرتے دکھائی دیے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی اگلے مرحلے میں رسائی اس صورت میں آسان ہوجائے گی اگر وہ اگلے دونوں میچ جیت جائیں اور کراچی کنگز کے ساتھ ساتھ ملتان سلطانز کو بھی اپنے تمام میچوں میں شکست کا سامنا ہو۔

کنگز بمقابلہ زلمی

ابوظہبی میں ٹورنامنٹ کا دوبارہ آغاز ہوا تو کراچی کنگز کی ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر سرِفہرست تھی لیکن مسلسل 3 ناکامیوں کے بعد کراچی کنگز کی اگلے مرحلے میں رسائی کافی مشکل ہوگئی ہے۔ ہر شکست گزشتہ شکست سے بڑی ہوتی جا رہی ہے اور پشاور زلمی کے ہاتھوں ہونے والی شکست صرف 2 پوائنٹس کا نقصان ہی نہیں تھی بلکہ یہ مورال کی شکست بھی تھی۔ اس شکست کے بعد اگلے میچوں میں واپسی کرنا کراچی کنگز کے لیے کافی مشکل ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: کراچی کنگز شکستوں کے بھنور میں کیوں گرفتار ہوگئی؟

پچھلے 2 میچوں میں بابر اعظم کے 2 بڑے اسکور کے باوجود کراچی کنگز کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب اننگ کی پہلی گیند پر ہی وہاب ریاض نے بابر اعظم کو اپنا شکار بنایا تو کراچی کنگز کی بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔

کراچی کنگز کو کراچی میں کھیلے جانے والے مقابلوں میں جو کلارک کا ساتھ حاصل تھا جنہوں نے کچھ عمدہ اننگز کھیلی تھیں لیکن ابوظہبی میں ان کی جگہ آنے والے مارٹن گپٹل ابھی تک مکمل ناکام رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح ان کے نیوزی لینڈ ٹیم کے ساتھی کالن منرو بھی کراچی کنگز کی جانب سے اسکور بنانے میں ناکام رہے تھے۔

پشاور زلمی نے اس میچ کے لیے 3 نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا اور ان تینوں نے ہی زلمی کی جیت میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ ثمین گل کی 2 گیندوں پر 2 وکٹوں نے جہاں کراچی کو پچھلے قدم پر دھکیلا وہیں ابرار احمد کی مسٹری گیندوں نے کراچی کنگز کی بیٹنگ لائن کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیں۔ پچھلے میچ میں کراچی کنگز کی شکست کے سب سے اہم کردار کالن منرو کی طرح ابرار احمد بھی پہلے کراچی کنگز کی جانب سے کھیل چکے ہیں۔

پشاور زلمی کی جانب سے ایک بار پھر حیدر علی کو موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا اور اس بار انہیں ون ڈاؤن پوزیشن پر بیٹنگ کا موقع ملا۔ ایک معمولی سے ہدف جسے حضرت اللہ زازائی کی بے مثال ہٹنگ نے اور بھی آسان بنا دیا تھا، حیدر علی کے پاس ایک اچھا موقع تھا کہ وہ ایک چھوٹی سی ناقابل شکست اننگ کھیل سکیں۔

اس اننگ میں حیدر علی کے پاس زیادہ اسکور کرنے کا موقع تو نہیں تھا لیکن فتح کے وقت ناٹ آؤٹ واپس جاکر وہ اگلے میچوں کے لیے کچھ اعتماد ضرور حاصل کرسکتے تھے۔ لیکن ایک بار پھر حیدر علی ناکام رہے، ایک بار پھر ان کا وکٹ دینے کا انداز بہت خراب تھا۔ یہ وہ حیدر علی نہیں لگ رہے تھے جو آج سے ڈیڑھ سال پہلے پاکستان انڈر 19 کی جانب سے کھیل رہے تھے۔ یہ ایک نوجوان شاہد آفریدی ضرور لگ رہا ہے جو ہر اننگ میں چند چھکے مارنا ہی کافی سمجھتا تھا۔

افغانستان کے حضرت اللہ زازائی نے پہلا موقع ملنے پر اسی بہترین ہٹنگ کا مظاہرہ کیا جو وہ افغانستان کی جانب سے بھی چند مرتبہ کرچکے ہیں۔ محمد عامر اور عامر یامین کو لگائی گئیں بہترین ہٹس نے ایک یکطرفہ مقابلے کو مزید مختصر کردیا۔ عماد وسیم نے اننگ کے آخر میں ایک ہی اوور میں اگرچہ 2 وکٹیں ضرور حاصل کیں لیکن یہ کسی کو سمجھ نہیں آیا کہ عماد نے باؤلنگ کا آغاز کیوں نہیں کیا جہاں وہ زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ عماد وسیم کی پاور پلے میں باؤلنگ ہی تھی جس نے عماد کو ٹی20 کرکٹ میں نمبر ون باؤلر بنا دیا تھا۔

اس میچ کے بعد پشاور زلمی کی اگلے مرحلے میں رسائی یقینی تو نہیں ہوئی لیکن اگر وہ اپنا آخری گروپ میچ ایک بہت بڑے مارجن سے نہ ہاریں تو ان کا باہر ہونا تقریباً ناممکن ہے۔

دوسری جانب کراچی کنگز کو مقابلے میں شامل رہنے کے لیے آخری دونوں میچ بڑے مارجن سے جیتنا لازمی ہیں۔ ان دونوں میچوں میں فتح کے بعد بھی کراچی کنگز کی اگلے مرحلے میں رسائی یقینی نہیں ہوگی بلکہ دوسری ٹیموں کے نتائج بھی اس پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور نیٹ رن ریٹ بھی آڑے آ سکتا ہے۔ کراچی کنگز کا نیٹ رن ریٹ اس وقت صرف کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے بہتر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں