کینیڈین وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کیلئے پہلے مسلمان جج کو نامزد کردیا

اپ ڈیٹ 18 جون 2021
محمود جمال اونٹاریو 2019 سے کورٹ آف اپیل جج کی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں— فوٹو: کمرشل فیڈرل جوڈیشل افیئرز کینیڈا
محمود جمال اونٹاریو 2019 سے کورٹ آف اپیل جج کی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں— فوٹو: کمرشل فیڈرل جوڈیشل افیئرز کینیڈا

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا کی سپریم کورٹ کے لیے پہلے مسلمان جج محمود جمال کو نامزد کردیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس سے قبل محمود جمال اونٹاریو کورٹ آف اپیل کے جج رہے ہیں اور 2019 سے یہ ذمے داریاں نبھا رہے تھے۔

مزید پڑھیں: کینیڈا کے وزیر اعظم نے مسلم اہلخانہ کے قتل کو دہشت گرد حملہ قرار دے دیا

جج کی ذمے داریاں نبھانے سے قبل وہ کینیڈا کے دو اعلیٰ قانون کے اسکولوں میں پڑھاتے رہے اور کئی دہائیوں تک بحیثیت وکیل بھی امور انجام دیتے رہے اور 35 اپیلوں کے لیے سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوئے۔

وزیراعظم نے محمود جمال کی نامزدگی پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ وہ سپریم کورٹ کا ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گے اور اسی وجہ سے میں آج اپنے ملک کی اعلی ترین عدالت میں ان کی تاریخی نامزدگی کا اعلان کر رہا ہوں۔

محمود جمال کو ابھی بھی ہاؤس آف کامنز جسٹس کمیٹی کی جانب سے جانچے جانے کا عمل باقی ہے لیکن یہ محض ایک رسمی کارروائی ہے۔

وہ 1967 میں نیروبی کے ایک ہندوستانی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور 1981 میں کینیڈا منتقل ہونے سے پہلے ان کی پرورش برطانیہ میں ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کینیڈا: نفرت کی بنیاد پر حملے میں پاکستانی نژاد خاندان کے 4 اراکین جاں بحق

کینیڈا ایک کثیر الثقافتی ملک ہے جس کی 3 کروڑ 80 لاکھ آبادی میں سے تقریباً ایک چوتھائی کی اقلیتی گروپ کی حیثیت سے شناخت کی گئی ہے۔

لیکن مسلمانوں پر حالیہ حملوں، کمیشن کی جانب سے نسل کشی قرار دیے گئے مقامی لوگوں بدترین سلوک اور سیاہ فام اور دیگر نسلی اقلیتوں کے خلاف پولیس کی بربریت نے کینیڈا میں نسل پرستی کی کارروائیوں کو اجاگر کیا ہے۔

نسل پرستی کے خلاف مارچ کرنے والے امریکی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کرنے والے جسٹن ٹروڈیو نے کہا کہ بہت سے گورے کینیڈا نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ہمارے بہت سے دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ساتھی جس نسل پرستانہ رویے اور امتیازی سلوک کا سامنا کررہے ہیں اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں ہمارے تمام اداروں میں منظم نسل پرستی ایک مسئلہ ہے۔

مزید پڑھیں: کینیڈا: اسکارف کے خلاف نافذ قانون کے خاتمے کیلئے درخواست پر سماعت مقرر

ملازمت کے سوالنامے میں محمود جمال نے کہا کہ ان کی ہائبرڈ مذہبی اور ثقافتی پرورش اور اہلیہ کے ہمراہ کینیڈا میں انہوں نے جن تجربات کا سامنا کیا ہے اس نے مجھ پر تارکین وطن، مذہبی اقلیتوں اور نسل پرست افراد کو درپیش چیلنجز سے آگاہ کیا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ میں اسکول میں ایک عیسائی کی حیثیت سے پروردگار کی عبادت اور چرچ آف انگلینڈ کی اقدار کو محسوس کرتے ہوئے بڑا ہوا، گھر میں بطور مسلمان عربی زبان میں قرآن مجید حفظ کیا اور اب اسماعیلی برادری کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہوں۔

مسلمان جج نے انکشاف کیا کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں نے بھی روزمرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا کیا، بچپن اور جوانی میں نام، مذہب یا جلد کی رنگت کی وجہ سے مجھے طعنہ دیے گئے اور ہراساں کیا جاتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ ایران میں 1979 کے انقلاب کے دوران بہائی مذہبی اقلیت پر ہونے والے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے ان کی اہلیہ کینیڈا ہجرت کر گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلاموفوبیا کی حقیقت کس بنیاد پر جھٹلائیں گے؟ کینیڈین وزیراعظم

محمود جمال نے کہا کہ ہماری شادی کے بعد میں ایک بہائی بن گیا کیونکہ میں انسانیت کے روحانی اتحاد کے عقیدے سے متاثر ہوا اور ہم نے اپنے دو بچوں کو ٹورنٹو کی کثیر النسل بہائی برادری میں پروان چڑھایا۔

جمال نو رکنی عدالت میں سب سے طویل مدت تک فرائض انجام دینے والے جسٹس روزالی ابیلا کی جگہ لیں گے جو یکم جولائی کو ریٹائر ہونے والی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں