2020 میں سندھ میں لاپتا افراد، جرائم کے کیسز میں اضافہ ہوا، ایچ آر سی پی

اپ ڈیٹ 22 جون 2021
انہوں نے کہا کہ سن 2020 کے آخر تک سندھ میں 513 قیدیوں کو سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا—فائل فوٹو: شازیہ حسن
انہوں نے کہا کہ سن 2020 کے آخر تک سندھ میں 513 قیدیوں کو سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا—فائل فوٹو: شازیہ حسن

حیدرآباد: ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) سندھ کے نائب صدر قاضی خضر حبیب نے کہا ہے کہ 2020 میں سندھ میں لاپتا افراد اور جرائم کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قاضی خضر نے سندھ میں انسانی حقوق کی حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 2020 میں صوبے کی صورتحال سے متعلق تفصیلات کا تبادلہ کیا لیکن کووڈ 19 ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت سندھ کے جاری کردہ انتظامی احکامات اور انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: بھارت، پاکستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں، امریکی رپورٹ

پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 کے دوران حکومت سندھ نے صوبے کے لیے کووڈ 19 ایمرجنسی ریلیف آرڈیننس 2020 منظور کیا، جو 7 جولائی 2020 کو ایک ایکٹ بن گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت اسکولوں کی فیسوں کی ادائیگی کے معاملے میں والدین کو بھی ریلیف دیا گیا اور کرایہ داروں کو کرایے کی ادائیگی میں تاخیر کی اجازت دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کم از کم 5 قوانین میں ترمیم کی۔

انہوں نے بتایا کہ سندھ پولیس کے آئی جی کو مبینہ طور پر 19-18 اکتوبر کی درمیانی شب اغوا کیا گیا اور ایک سیکٹر کمانڈر کے دفتر لے جایا گیا جہاں انہیں کیپٹن (ر) صفدر اعوان کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنے پر مجبور کیا گیا جو اپنی اہلیہ مریم نواز کے ساتھ کراچی کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان بھاری اکثریت سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا دوبارہ رکن منتخب

قاضی خضر نے کہا کہ محکمہ سندھ کے جیل خانہ جات کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2020 میں 121 قیدیوں کو سزائے موت سنائی گئی تاہم کسی کو بھی تاحال پھانسی نہیں دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ سن 2020 کے آخر تک سندھ میں 513 قیدی سزا موت کے متنظر ہیں۔

قاضی خضر نے کہا کہ سندھ ہیومن رائٹس ڈیفنڈرس نیٹ ورک کے مطابق سندھ میں مجموعی طور پر 127 افراد لاپتا ہوئے جن میں سے 112 افراد کی بازیابی ہوئی جبکہ 15 تاحال لاپتا ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کے زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے کم از کم 6 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

قاضی خضر نے نشاندہی کی کہ حکومت نے مئی میں 3 سندھی قوم پرست سیاسی اداروں پر باضابطہ طور پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس میں جیئے سندھ قومی محاذ (آریسر) اور سندھ میں سرگرم 2 دیگر سیاسی گروہوں کو 'عسکریت پسند' کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: انسانی حقوق کمیشن نے کووِڈ 19 کے خلاف حکومتی ردِ عمل کو غیر تسلی بخش قرار دے دیا

انہوں نے کہا کہ سندھ میں بلدیاتی حکومتوں کی 4 سالہ میعاد 30 اگست 2020 کو ختم ہوئی لیکن حکومت سندھ نے آئندہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا تھا۔

قاضی خضر نے کہا کہ گزشتہ سال سندھ میں غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں