ایوان ایک قرار داد منظور کر کے صدارتی نظام کو ہمیشہ کیلئے دفن کردے، شاہد خاقان

اپ ڈیٹ 23 جون 2021
شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کررہے تھے —تصویر: ڈان نیوز
شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کررہے تھے —تصویر: ڈان نیوز

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پارلیمانی ایوان میں یہ ہمت ہونی چاہیے کہ ایک قرار داد پاس کر کے ہمیشہ کے لیے صدارتی نظام کو دفن کردیا جائے۔

قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ اس ایوان میں اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران حکومتی بینچز سے حملہ کیا گیا جو پورے ملک نے دیکھا، نازیبا زبان استعمال ہوئی، کتابیں ماری گئیں اور ہم میں سے کوئی بھی شخص اس پر ایک افسوس کا لفظ بھی نہیں کہہ سکا۔

انہوں نے کہا کہ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ اسی ایوان میں ایک شخص نے اسپیکر کو جوتا مارنے کی دھمکی دی اور اسپیکر کچھ نہ کرسکے، اس پر ہمیں شرمندہ ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کی مصالحت کی کوشش ناکام

انہوں نے مزید کہا کہ ایوان کی کارروائی رات 12 بجے تک چلی تو کیا کوئی اضافی خرچ یا ملک کا نقصان ہوا؟ عوام ہی کی بات ہوئی، پورا پورا سال گزر جاتا ہے یہاں عوام کی بات نہیں ہوسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایوان میں معاملات اپوزیشن لاتی ہے، تحریک التوا پیش کی جاتی ہیں لیکن 3 سال کے عرصے میں ایک بھی تحریک التوا پر بحث نہیں ہوسکی، ہم کیا کررہے ہیں؟ یہ تمام بینچز اخلاقی برتری کی بنیاد پر چلتی ہے کرسی آپ کو عزت نہیں دیتی آپ کو کرسی کو عزت دینی ہوتی ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ہم سب کی ناکامی ہے کہ آج اسپیکر قومی اسمبلی اس ایوان کو چلانے میں ناکام ہیں، نہ حکومت کا بینچ ان کی بات سنتا ہے نہ اپوزیشن سنتی ہے، جب حالات یہ ہوجائیں تو ایک ہی باعزت راستہ رہ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ یہاں رکے گا نہیں ایوان میں جو کتاب یہاں سے یا حکومتی بینچز سے ماری گئیں وہ ملک کی جمہوریت کو ماری گئی اور آپ دیکھیں گے ایک دن آئے گا کہ یہ ٹی وی پر یہ پروگرام چلیں گے کہ یہ جمہوریت ہے تو اس سے بہتر آمریت ہے۔

مزید پڑھیں:حکومت اور اپوزیشن نے اسمبلی کی کارروائی بہتر طریقے سے چلانے پر اتفاق کرلیا، پرویز خٹک

ان کا کہنا تھا کہ جو افراد ایوان میں حملہ آور تھے اور گالم گلوچ کررہے تھے ان میں 90 فیصد سے زائد کو اس ایوان میں نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ اس تحفے کا حق ادا کررہے ہیں جو انہیں دیا گیا اور جب یہاں حملہ ہوا تو سوشل میڈیا پر باتیں چلیں کہ صدارتی نظام لایا جائے پارلیمانی نظام ناکام ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک صدارتی نظام میں دو لخت ہوا تھا، یہ ملک صدارتی نظام میں نہیں چل سکتا، اس ایوان میں یہ ہمت ہونی چاہیے کہ ایک قرار داد پاس کر ہمیشہ کے لیے صدارتی نظام کو دفن کردیا جائے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انہیں بجٹ پڑھنے کا خاصہ تجربہ ہے لیکن حالیہ بجٹ میں کہیں غریب کا ذکر نہیں کیا گیا، جھوٹ ہی بول دیتے کہ ہم ریلیف دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کیا آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین لباس ٹھیک نہیں پہنیں تو مردوں کے جذبات ابھر جاتے ہیں؟ آج ملک کا مسئلہ مہنگائی ہے، کیا کسی وزیر نے مہنگائی کی بات کی؟

یہ بھی پڑھیں:قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی، گالم گلوچ روکنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق

ان کا کہنا تھا کہ میں وزیر خزانہ سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا آپ آٹے، چینی، گھی، پتی، دودھ دالوں، بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرسکتے ہیں کیوں کہ بجٹ اہداف پورے ہونے کی صورت میں تو پیٹرول 30 روپے مہنگا ہوجائے گا۔

رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک بلواسطہ ٹیکسز پر چلتے ہیں، ہم 74 سال سے کوشش کرتے رہے کہ براہ راست ٹیکسز بڑھیں لیکن وزیر خزانہ کا پورا بجٹ بلواسطہ ٹیکسز کی عکاسی کررہا ہے جو عام آدمی ادا کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں سوائے ایک طبقے کے کسی کے ٹیکس گزیٹ آف پاکستان میں نہیں چھپتے، نہ کسی جرنیل، نہ جج، نہ بیوروکریٹ اور نہ ہی کاروباری فرد کا ٹیکس شائع ہوتا ہے یہ صرف اراکین پارلیمان کے نام کے ساتھ شائع ہوتے ہیں تو اگر ہم خود ٹیکس نہیں دیں گے تو دوسروں پر کس طرح ٹیکس لگاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس پارلیمان کے اراکین خود ٹیکس نہ دیتے ہوں ان کے پاس عوام پر ٹیکس لگانے کا کیا قانونی جواز ہے، یہ چیزیں سمجھیں گے تو ہی ملک آگے بڑھے گا۔

قومی اثاثے گروی رکھنے کی مخالفت کریں گے، سعد رفیق

سعد رفیق کا قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال
سعد رفیق کا قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال

سابق وزیر ریلوے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما سعد رفیق نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب اس ایوان کی ابتدا ہوئی تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں مولانا فضل الرحمٰن کی بات ماننا چاہیے اور اس جعلی الیکشن کے نتیجے میں جو اعداد و شمار ہم پر مسلط کیے گئے اس پر حلف لینے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔

انہوں نے وضاحت کیا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے، سیاست میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں، وہ حلف نہ اٹھایا ہوتا تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا، ہم اس لیے آگئے کہ انتشار نہ ہو، ملک انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا لیکن آپ کو ہمارا یہاں آنا گوارا نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں:قومی اسمبلی: اپوزیشن، حکومتی اراکین کی 'زرعی پالیسی' پر کڑی تنقید

انہوں نے کہا کہ جب ایوان شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف نے چارٹر آف اکانومی کی بات کی جس کا مذاق اڑایا، تماشہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ این آر او مانگتے ہیں جو بھی ڈھنگ کی بات کی گئی اسے اہمیت نہیں دی گئی لیکن کوئی بھی قوم معاشی خودمختاری کے بغیر آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔

سعد رفیق نے کہا کہ اس مرتبہ پاکستان کے ساتھ بہت ہی بڑا ہاتھ ہوا، نئے پاکستان کے نام پر ایسے ایسے خواب دکھائے گئے، وزیراعظم ہاؤس کی گاڑی بیچی گئی پھر مہنگی خریدی گئیں اب نئی کہانی یہ آگئی کہ ایئرپورٹس اور موٹرویز کو گروی رکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو افراد یہ ایئرپورٹس اور موٹرویز بناتے ہیں وہ مجرم اور چور ہوئے تو جو گروی رکھتے ہیں انہیں کیا کہا جائے یہ سوال سب سے ہے اور ان سے بھی ہے جو انہیں لے کر آتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ قومی اثاثے گروی رکھنے کی باتیں ہورہی ہیں لیکن ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا، اپوزیشن میں جتنی بھی سکت ہے اس کی مخالفت کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں