ان دنوں پاکستان کے ثقافتی منظرنامے پر ایک ایک کرکے کئی چراغ گُل ہورہے ہیں۔ تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم، ادب اور فنونِ لطیفہ کے دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی بہت سی شخصیات رواں برس ہم سے بچھڑ چکی ہیں۔

ابھی حال ہی میں معروف اداکارہ بیگم خورشید شاہد انتقال کرگئیں اور اب تازہ ترین نام 'محمد انور اقبال بلوچ' کا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے موسم میں اس دارِفانی سے کوچ کیا جس کو ہم فراموشی کا موسم بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ کورونا کی اس ظالم وبا میں ہم سے بہت سارے حسین اور دلکش چہرے رخصت ہوچکے ہیں۔

انور اقبال نے اپنی وفات سے چند دن قبل شکوہ کیا تھا کہ بیماری کی حالت میں ان کی کھینچی گئی کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جس سے ان کے 'امیج' کو نقصان پہنچا۔ اس عمل میں مین اسٹریم میڈیا بھی برابر کا شریک ہے جس نے ان غلط خبروں اور تصویروں کو نشر کیا۔

وہ کراچی کے ایک بڑے ہسپتال میں زیرِ علاج تھے، قابل ڈاکٹرز ان کا علاج کر رہے تھے اور اس مشکل گھڑی میں اہلِ خانہ بھی ان کے ساتھ موجود تھے۔ انہیں کسی قسم کی مالی تنگ دستی کا سامنا نہیں تھا، سب سے بڑھ کر وہ اپنی زندگی سے مطمئن تھے۔

دھیمے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں ان کی متانت اور سنجیدگی جھلکتی تھی۔ وہ تمام عمر خوش لباس شخص کے طور پر جیے، ایسی شخصیت کی ناموزوں تصاویر وائرل کرنا، اور سوشل میڈیا، بالخصوص یوٹیوب پر ان کے حوالے سے من گھڑت تنگ دستی کی کہانیاں سنانا، ایک ایسا قبیح عمل ہے جو اکثر اس طرح کے مواقع پر دُہرایا جاتا ہے۔ مگر اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے ایسی فرضی ویڈیوز اور خبروں کو ہزاروں لاکھوں لائیکس مل رہے ہوتے ہیں جس سے معاشرتی بے حسی اور سماجی جہالت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

ذرا سوچیے کہ جس فنکار نے اپنی زندگی کے 40 سے زیادہ برس شوبز کی صنعت کو دے دیے ہوں، وہ خوش لباس اور ملنسار بھی ہو، اسے ان طرح کی حرکتوں کے سبب جہانِ فانی سے رخصت ہوتے وقت کتنی اذیت ہوئی ہوگی۔ پھر کوئی سرکاری شخصیت، کسی ثقافتی شعبے کا کوئی نمائندہ ان کی عیادت کرنے بھی نہیں گیا۔ میری نظر میں اتنے حساس فنکار کو اس کے آخری وقت میں تکلیف دینے میں ہم سب برابر کے حصہ دار ہیں چاہے وہ سوشل میڈیا ہو، شوبز اور سرکار سے جڑے لوگ ہوں یا پھر ہم عوام، جنہوں نے ان کے جذبات کا قطعی خیال نہیں کیا۔

حتیٰ کہ ان کی زندگی اور فنی خدمات کے حوالے سے بھی مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر صرف رسم ہی نبھائی گئی، کسی نے ان کی زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے کی کوشش نہ کی جو فنی جہتوں میں اپنی مثال آپ تھے۔ کسی بھی معاشرے کے زوال کی نمایاں نشانیوں میں سے ایک ناقدری ہے جس کے ہم خود کفیل ہیں، یہاں کس کس کو رویا جائے۔

انور اقبال نے ایک ایسے موسم میں اس دارِ فانی سے کوچ کیا جس کو ہم فراموشی کا موسم بھی کہہ سکتے ہیں
انور اقبال نے ایک ایسے موسم میں اس دارِ فانی سے کوچ کیا جس کو ہم فراموشی کا موسم بھی کہہ سکتے ہیں

آئیے متعارف ہوتے ہیں اس انور اقبال سے جس کے ذاتی اور فنی پہلوؤں سے ہم کم کم واقف ہیں۔ ان کا پورا نام محمد انور اقبال بلوچ ہے، ان کے والد سندھ اور بلوچستان کی ایک بڑی سیاسی شخصیت 'حاجی محمد اقبال بلوچ' تھے۔ انور اقبال کی جنم بھومی کراچی شہر ہے جہاں وہ 25 دسمبر 1949ء کو پیدا ہوئے اور یکم جولائی 2021ء کو رحلت ہوئی۔

ابھی کچھ دن قبل ہی ان کی اہلیہ کا بھی انتقال ہوا تھا جس کی وجہ سے انور اقبال شدید حالتِ غم میں مبتلا تھے۔ ان کے سوگواران میں شامل 4 بیٹیاں زباد انور، درین انور، مہر رنگ انور اور عائشہ انور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی سے اپنی منزلیں طے کر رہی ہیں۔ انور اقبال ہمیشہ ان کی کامیابیوں کا بڑی خوشی سے ذکر کیا کرتے تھے۔

انور اقبال نے تمام تعلیمی مدارج کراچی کے بہترین اداروں سے طے کرتے ہوئے جامعہ کراچی سے ماسٹرز کیا۔ اداکاری میں دلچسپی لینے کے بعد ہولی وڈ میں کام کرنا ان کا خواب تھا، جس کے لیے انہوں نے مکمل منصوبہ بندی کرلی تھی۔ وہ پہلے ایک امریکی ادارے سے اداکاری کی سند حاصل کرنا چاہتے تھے، ان کا وہاں داخلہ بھی ہوگیا تھا لیکن والد کی علالت نے ان کو وقتی طور پر روک دیا پھر والد ہی کی خواہش کے احترام میں وہاں جانے کا ارادہ ترک کردیا۔

انور اقبال مختلف کرداروں میں—فیس بُک
انور اقبال مختلف کرداروں میں—فیس بُک

مگر پاکستان میں اپنی فنی جدوجہد جاری رکھی۔ اقبال انور کو پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر معروف ڈراما نگار فاطمہ ثریا بجیا نے متعارف کروایا۔ 1976ء میں نشر ہونے والا ان کا پہلا ڈراما 'آب اور آئینے' تھا، یہیں سے ان کی اداکاری کا سفر شروع ہوا۔ اسی سال ان کو مشہورِ زمانہ ڈرامے 'شمع' میں کام کرنے کا موقع ملا جس میں ان کے کردار 'نانا کی جان قمرو' مشہور ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ پاکستان کے ایک نامور اداکار بن گئے۔ ان کے دیگر مشہور سندھی اور اردو ڈراموں میں دوستن جو پیر، ہیلو ہیلو، آخری چٹان، شاہین، اساوری، بابر، چاکراعظم، ایمرجنسی وارڈ، زندگی، پل صراط، رشتہ انجانا سا، حنا کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔

وہ ہولی وڈ کی فلمی صنعت کو بہت مانتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ مصر سے عمر شریف ہولی وڈ جاکر کامیابی سمیٹ سکتا ہے تو ہم پاکستان سے جاکر کچھ کیوں نہیں کرسکتے؟

انہوں نے انگریزی فلمیں دیکھنے سے اپنے مشاہدے کو تیز کیا اور پاکستانی سینما بھی دیکھا۔ ہندوستانی اداکار دلیپ کمار کی شخصیت سے بے حد متاثر رہے اور انہی کی فلموں کو دیکھ کر اداکاری کرنے کا شوق پختہ ہوا۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت میں اپنا کیریئر شروع کرنا چاہتے تھے، فلم 'چراغ جلتا رہا' میں ان کو موقع بھی مل رہا تھا لیکن معروف اداکار محمد علی کے منع کرنے پر اس فلم سے پیچھے ہٹ گئے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کو پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنی چاہیے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب وہ ابھی طالب علم ہی تھے۔

ہرچند کہ ان کا فلمی صنعت میں کیرئیر زیادہ طویل نہیں ہے، ڈراما صنعت میں ان کی مصروفیات زیادہ رہیں۔ اس کے باوجود فلم کا میڈیم ان کے دل سے قریب تھا جس کی ایک روشن مثال ہمارے سامنے موجود ہے اور وہ ہے پاکستان میں بننے والی پہلی بلوچی فلم 'ھملء ماہ گنج'۔ 1975ء میں یہ فلم تیار ہوگئی تھی اور اگلے برس ریلیز ہونی تھی، تاہم سیاسی مخالفت کی وجہ سے اس فلم کی نمائش روک دی گئی۔

یہ فلم 40 برس سے بھی زیادہ عرصے تک ریلیز نہ کی جاسکی، اور ابھی کچھ عرصہ پہلے اس کی نمائش کراچی آرٹس کونسل میں بلوچ ثقافتی دن کے سلسلے میں ہونے والے پروگرام میں کی گئی تھی، اب یہ فلم یوٹیوب پر بھی دستیاب ہے۔ اس فلم کے محرک انور اقبال کے بڑے بھائی جناب اکبر اقبال تھے جن کی ناگہانی وفات کے بعد انہوں نے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

انور اقبال اس فلم کے پروڈیوسر تھے اور اس میں ہیرو کا کردار بھی نبھایا تھا۔ فلم کے کہانی نویس فتح محمد نظر سکندری تھے جنہوں نے فلم کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی جبکہ مکالمے سید ظہور شاہ ہاشمی نے لکھے تھے۔ فلم کا منظرنامہ ایم اسلم بلوچ اور انور اقبال نے مشترکہ طور پر لکھا تھا۔ ان کے ساتھ دیگر اداکاروں میں ساقی، انتیا گل، اے آر بلوچ، نادر شاہ عادل، نور محمد لاشاری، شکیل لاسی، بوبی، محمد حسین مداری اور دیگر شامل تھے۔ فلم کی گیت نگاری معروف بلوچ شاعر عطا شاد نے کی تھی۔ عشرت جہاں اور ولی محمد نے اس فلم کے گیتوں میں اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار اسلم بلوچ تھے۔

15ویں صدی کے پس منظر میں حقیقی واقعات پر مبنی یہ بلوچی فلم ایک ایسے شخص کی کہانی پر مبنی ہے جو اپنے وطن کی محبت میں پرتگالی غاصبوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، پھر ایک پرتگالی لڑکی کو بلوچ جوان سے محبت بھی ہوجاتی ہے مگر وہ اس کو اپنے وطن کی محبت میں رد کردیتا ہے۔ اس فلم کے بننے اور نمائش نہ ہونے کے پیچھے ایک تاریخ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے فلم میں مرکزی کردار نبھانے والے ایک اداکار سے فلم سے متعلق بات کی جن کی شرط یہ تھی کہ ان کا نام رازداری میں رکھا جائے۔ ان سے کی گئی اس اہم اور خصوصی گفتگو کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

'اگرچہ 1975ء میں یہ فلم بنی تھی مگر نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی کیونکہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے طلبہ اس کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ چند سیاسی حلقوں سے بھی اس فلم کی مخالفت کی گئی تھی۔ چونکہ انور اقبال کے والد ایک اہم سیاسی شخصیت تھے اس لیے ان کے سیاسی حریفوں کو یہ خوف تھا کہ کہیں انور اقبال اس فلم کے ذریعے مقبول ہوکر سیاسی میدان میں ان کے لیے مشکلات کھڑی نہ کردیں۔

دھیمے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں انور اقبال کی متانت اور سنجیدگی جھلکتی تھی
دھیمے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں انور اقبال کی متانت اور سنجیدگی جھلکتی تھی

'اس فلم کی مخالفت کی ایک اور بڑی وجہ بلوچ سرداروں کی مخصوص سوچ بھی تھی جو سمجھتے تھے کہ بلوچی ثقافت کسی فلم کی محتاج نہیں ہے، اس کا تحفظ اور تشہیر ویسے بھی کی جاسکتی ہے۔ پھر ان کو یہ خوف بھی تھا کہ فلم کا گلیمر اور بے پردگی کہیں بلوچ سماج میں منفی رجحانات کو فروغ نہ دے لہٰذا فلموں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

'انور اقبال کی فلم کے لیے اس وقت یہ نعرہ عام تھا کہ 'فلم چلے گی تو سینما جلے گی'۔ اس فلم کو بنانے میں بہت محنت ہوئی تھی۔ کسی فنکار نے اپنے کام کا معاوضہ تک نہیں لیا تھا، سب نے مفت میں کام کیا تھا، لیکن اس کے باوجود فلم عام حالات میں نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی۔ بلوچ سماج کے منفی رویوں کی وجہ سے اس فلم کی غیر ضروری مخالفت کی جاتی رہی۔

انور اقبال کی فلم کے لیے اس وقت یہ نعرہ عام تھا کہ 'فلم چلے گی تو سینما جلے گی'
انور اقبال کی فلم کے لیے اس وقت یہ نعرہ عام تھا کہ 'فلم چلے گی تو سینما جلے گی'

'اس فلم کی نمائش کا ایک حل معروف شاعر عطا شاد نے نکالا تھا۔ چونکہ وہ ایک سرکاری ملازم تھے اس لیے انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز کے ایم ڈی عبدالکریم بلوچ کے ذریعے انور اقبال کو یہ پیش کش بھی کی تھی کہ آپ ہمیں یہ فلم دے دیں ہم اس کو پی ٹی وی سے اقساط کی صورت میں نشر کردیں گے۔ اس طرح عام فلم بین کم از کم اس فلم کو دیکھ لے گا اور سب کو اندازہ بھی ہوجائے گا کہ اس فلم میں کیا ہے مگر وہ اس پر بھی راضی نہ ہوئے۔ البتہ اپنے طور پر بڑی کوششیں کیں کہ کسی طرح یہ فلم نمائش پذیر ہوجائے مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ اس فلم کا ایک خصوصی شو حاکم علی زرداری نے کراچی میں اپنے سینما بمبینو میں کروایا تھا لیکن اس کے باوجود یہ فلم پردہ گمنامی میں ہی رہی۔ اس فلم میں کیے ہوئے کام کی یادیں میرے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں اور انور اقبال سے اس فلم کے حوالے سے بہت اچھا تعلق رہا ہے۔'

انور اقبال اس دنیا سے چلے گئے مگر اپنے کام کی صورت ہمارے لیے بہت ساری یادیں چھوڑ گئے۔ یہ کام ان کو پاکستانی فلمی اور ڈرامے کی صنعت میں زندہ رکھے گا اور ہمارے دلوں میں بھی کیونکہ سچے فنکار اپنے فن میں فنا ہوجاتے ہیں اور یہی ان کے سچے ہونے کی سب سے بڑی علامت ہے، ایسی ہی ایک روشن علامت انور اقبال تھے۔

تبصرے (5) بند ہیں

Ather Jul 03, 2021 12:27am
Having lived away from Pakistan for so many years since 1980, it is sometime hard to recognize some names but as soon as I saw the photograph of Anwar Iqbal I remembered him from the Pak TV dramas in 1970s. A very decent looking man who acted in decent dramas and never acted cheaply in real like as well. May he rest in peace. His last message on social media says a lot. Our media should show some respect of the privacy of individuals.
Bash Qamar Jul 03, 2021 06:25pm
Thank you for writing such a nice article for Anwar Baloch (RIP).
SaZ Jul 04, 2021 06:50am
Inna Lillahe wa Inna Elaihe Rajeoun II remember him from Akhri Chattan days and lateron. Nice actor and very nice personality. Pakistani media including social media is sickening , poatung pictures of dead, sick and destitutes just to take few likes, taking away the human diginity
Dreen Anwar Jul 04, 2021 12:31pm
I'm his daughter, Dreen Anwar..thank you for writing such a beautiful and authentic article. This is by far the most accurate and brilliant write up about my father's life and work. Thank you
khurram Jul 05, 2021 03:34am
بہت بہت شکریہ ۔ انور اقبال ایک عظیم فنکار تھے اور وہ ہماری یادوں میں زندہ رہیں گے اور ڈرامے کی تاریخ میں بھی ان کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا ۔ آپ کے اہل خانہ کے لیے دعاگو ہوں ۔ سلامت رہیے