لکھاری شعبہ بین الاقوامی تعلقات، جامعہ کراچی کے سابق چیئرمین ہیں۔
لکھاری شعبہ بین الاقوامی تعلقات، جامعہ کراچی کے سابق چیئرمین ہیں۔

سال 1989ء سے 1997ء تک دنیا میں 3 اہم واقعات رونما ہوئے۔ پہلا واقعہ دیوار برلن کا گرنا، دوسرا واقعہ سوویت یونین کا ٹوٹنا اور تیسرا واقعہ ہانگ کانگ کی چین کو واپسی۔ اگرچہ پہلے دو واقعات کو بین الاقوامی سطح پر یاد کیا اور منایا جاتا ہے تاہم تیسرے واقعے کو چین سے باہر شاید ہی یاد رکھا جاتا ہو۔

ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں علاقائی تنازعات کی کمی نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں چین نے دنیا کو دکھایا کہ کس طرح ایک علاقائی تنازع کو پُرامن طور پر، بامقصد طریقے سے اور قدیم چین کے عسکری منصوبہ ساز سن زو کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے حل کیا جاسکتا ہے۔ سن زو نے کہا تھا کہ ’اصل مہارت ہر جنگ جیتنے میں نہیں ہے بلکہ جنگ کیے بغیر ہی دشمن کو شکست دینے میں پوشیدہ ہے‘۔

آج سے 24 سال قبل یکم جولائی 1997ء کی رات چین نے ایک گولی چلائے بغیر ہانگ کانگ کا قبضہ واپس لے لیا تھا، اور یوں ایک تاریخی غلطی کو درست کردیا گیا۔

برطانیہ نے 1839ء میں چین پر حملہ کیا تھا۔ اس جنگ کا پہلا قدم ہی ہانگ کانگ پر قبضہ کرنا تھا۔ اس قبضے کو تب باضابطہ شکل مل گئی جب چین کو مجبوراً معاہدہ چوئنپی (Convention of Chuenpi) پر دستخط کرنے پڑے اور ہانگ کانگ کو حملہ آوروں کے حوالے کرنا پڑا۔

1842ء میں فریقین نے معاہدہ نینکنگ (Treaty of Nanking) پر دستخط کیے جس کے بعد یہاں برطانیہ کا قبضہ مزید مضبوط ہوگیا۔ 1898ء میں چین نے ہانگ کانگ کو اگلے 99 سال کے لیے لیز پر برطانیہ کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی۔ 1949ء کے انقلاب کے بعد چین کے سامنے یہ چیلنج تھا کہ اب ہانگ کانگ کو کس طرح واپس لیا جائے۔

ہانگ کانگ کی برطانوی سمندر پار علاقے کی حیثیت چین کی بدنامی کا باعث تھی کیونکہ یہ چین کے اپنے علاقوں پر مکمل خودمختاری نہ ہونے کا اعلان تھا۔ نئے چین کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ ہر وہ معاہدہ جس پر چین نے مجبوری میں دستخط کیے تھے وہ غیر قانونی ہے، ساتھ ہی چینی ریاست نے ہانگ کانگ کو واپس حاصل کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔

اس عزم کے باوجود چین نے ہانگ کانگ میں اپنی فوج یا کوئی ملیشیا نہیں بھیجی۔ چین کو یہ معلوم تھا کہ اگر جلد بازی یا لاپرواہی میں کوئی قدم اٹھایا گیا تو برطانوی افواج اس پر ٹوٹ پڑیں گی اور انقلاب کے ذریعے جو کچھ حاصل کیا گیا ہے وہ سب برباد ہوجائے گا۔ یوں چین نے 1997ء تک لیز کے ختم ہونے کا انتظار کیا۔ یکم جولائی 1997ء کو برطانیہ نے باضابطہ طور پر ہانگ کانگ چین کے حوالے کردیا۔

مزید پڑھیے: چین کے نئے قانون کے بعد برطانیہ کی ہانگ کانگ کے عوام کو امیگریشن حقوق کی پیشکش

ہانگ کانگ کی چین کو حوالگی بلاشبہ ایک تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ واپسی آسان نہیں تھی۔ ظاہر ہے کہ ہانگ کانگ سنائی کا کوئی ریگستان یا پھر سیاچن میں کوئی گلیشیئر نہیں ہے جہاں دشمنی، بربریت اور موت ہی نظر آتی ہو۔ ہانگ کانگ سرمایہ دارانہ نظام کا گڑھ تھا اور آج بھی ہے۔ اس خطے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے اس کی اسٹریٹجک اہمیت تھی۔ لیکن وہی بات کے برطانیہ کے ایک صدی سے زیادہ طویل جابرانہ قبضے کی تلخ یادیں کسی بھی طرح کے مذاکرات میں رکاوٹ ثابت ہونے والی تھیں۔

1980ء کی دہائی میں جب دونوں ممالک کے مابین باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہوا تو چین آج جیسی عالمی طاقت نہیں تھا۔ مزید یہ کہ 1980ء کی دہائی میں سرد جنگ بھی جاری تھی۔ دونوں سپر پاورز (امریکا اور سوویت یونین) چین کے خلاف تھیں۔ امریکا کی زیرِ قیادت مغربی بلاک نہ ہی چین کے ساتھ ہمدرد تھا اور نہ ہی اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہتا تھا۔ مزید یہ کہ برطانیہ بھی اس معاہدے سے باہر نکلنے کے بہانے تلاش کر رہا تھا جس میں اس نے 1898ء میں چین کو جکڑ دیا تھا۔ تاہم چین نے بہت احتیاط سے کام لیا۔ چین نے برطانیہ کو کوئی بہانہ فراہم نہیں کیا اور اس معاہدے کو خود برطانیہ کے لیے ہی مشکل بنادیا۔ چین نے اس بات پر زور دیا کہ معاہدے کے مطابق برطانیہ 1997ء میں ہانگ کانگ چھوڑنے کا پابند ہے۔

یہ ایک حقیقت پسندانہ قدم تھا۔ چین نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اس مسئلے پر کوئی سخت مؤقف معاملے کو بڑھا سکتا ہے۔ یوں برطانیہ کے ساتھ ایک کبھی ختم نہ ہونے والا علاقائی تنازعہ شروع ہوجائے گا اور چین کو ہانگ کانگ کا قبضہ کبھی واپس نہیں ملے گا۔ مزید یہ کہ چین کے طویل مدتی منصوبے تھے اور وہ انہیں قربان کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اسی وجہ سے چین بڑے رسک لینے اور سمجھوتے کرنے سے نہیں کترایا۔

مزید پڑھیے: امریکا نے ہانگ کانگ پر اپنے فیصلے پر اصرار کیا تو مؤثر جواب ملے گا، چین

مثال کے طور پر چین اس بات پر راضی ہوگیا کہ ہانگ کانگ کا نظام ’ایک ملک دو نظام‘ کے اصول کے تحت چلایا جائے گا۔ اس نظام کے تحت ہانگ کانگ کو اگلے 50 سالوں کے لیے ’خارجی اور دفاعی معاملات کے علاوہ وسیع سطح پر خودمختاری حاصل ہوگی‘۔ چین نے اس بات پر بھی ہامی بھری کہ ہانگ کانگ کی حیثیت ’ایک خصوصی انتظامی علاقے‘ کی ہوگی جس کا اپنا قانونی نظام ہوگا، ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں ہوں گی اور یہاں لوگوں کو جمع ہونے اور اظہارِ رائے کا حق حاصل ہوگا۔

ہانگ کانگ واپس حاصل کرنے کے بعد چین نے اس جزیرے کو ملک میں ضم کرنے کے حوالے سے کئی اقدامات اٹھائے۔ بہرحال یہ بات تو واضح ہے کہ امریکا چین کی جانب سے عالمی اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے میں رکاوٹ بنتا رہے گا اور چین کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے سیاسی و معاشی نظام کو نقصان پہنچانے کے لیے ہانگ کانگ کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ چین کے مستقبل کی جنگ ہانگ کانگ میں ہی لڑی جائے گی۔


یہ مضمون 02 جولائی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں