پاکستان کی فوجی قیادت امریکا سے اچھے تعلقات کی حامی

اپ ڈیٹ 03 جولائ 2021
فوجی قیادت نے پارلیمانی کمیٹی کو ملک کی داخلی و سلامتی کی صورتحال پر بریفنگ دی — فائل فوٹو: ڈان
فوجی قیادت نے پارلیمانی کمیٹی کو ملک کی داخلی و سلامتی کی صورتحال پر بریفنگ دی — فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: فوجی اور انٹیلی جنس قیادت نے حکومت کے حالیہ بیانات سے بھی بڑھ کر امریکا کے ساتھ تعلقات کے مستقبل سے متعلق پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں متنازع طریقہ اختیار کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجلاس میں شرکت کرنے والے چند پارلیمانی رہنماؤں نے ڈان کو اجلاس کے احوال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ فوجی اور انٹیلی جنس قیادت نے اس بات پر زور دیا کہ جہاں چین کے ساتھ تعلقات مضبوط ہیں اور اسے قربان نہیں کیا جاسکتا، وہیں امریکا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کو برقرار رکھنا ہوگا۔

یہ اجلاس جمعرات کو منعقد ہوا تھا اور رات دیر گئے تک جاری رہا تھا۔

اجلاس میں ہونے والی بات چیت علاقائی ماحول، ملک کو درپیش اسٹریٹجک چیلنجز اور داخلی و سلامتی کی صورتحال پر مرکوز تھی۔

مزید پڑھیں: فوج کا تقسیم کرنے والی سیاست سے گریز کا مطالبہ

انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ان امور پر اجلاس میں ایک پریزنٹیشن دی۔

اراکین پارلیمنٹ، پاکستان کے امریکا سے تعلقات کے بارے میں فوجی نظریات کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھتے تھے جو افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور امریکا اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع کی وجہ سے کشمکش کا شکار ہیں۔

کمیٹی کو ممکنہ منظر ناموں کی ایک حد پیش کی گئی اور بتایا گیا کہ دانشمندانہ انتخاب کرنا پڑے گا جو ملک کے مفاد میں بہترین ہو۔

امریکا کے بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک تعاون، افغانستان میں خطے کو غیر مستحکم رکھنے کے لیے پیچھے چھوڑی گئی افراتفری اور واشنگٹن کی چین کی قابلیت کی پالیسی کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا۔

تاہم اسی کے ساتھ امریکا کے ساتھ کاروباری تعلقات کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔

اپوزیشن کے ایک رکن نے بتایا کہ فوجی اور انٹیلی جنس قیادت، وزیر اعظم عمران خان کے امریکا کے بارے میں حالیہ بیانات میں سخت مؤقف سے کہیں زیادہ حقیقت پسندانہ نظر آئی۔

ایک اور سینئر پارلیمانی رہنما نے کہا کہ اگرچہ جغرافیائی سیاسی پیشرفت کی وجہ سے خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے واضح اشارے ملے ہیں لیکن یہ بھی عیاں ہے کہ ’چین کا جانبدار‘ سمجھے جانے کی بھی خواہش نہیں ہے۔

ارکان پارلیمنٹ کو اجلاس سے یہ محسوس ہوا کہ جہاں پاکستان نے انسداد دہشت گردی کی آئندہ کی کارروائیوں کے لیے سی آئی اے کے ڈرون اڈوں کی میزبانی کرنے سے انکار کر دیا ہے، وہیں سلامتی پر تعاون کے مستقبل پر بات چیت جاری ہے اور پیشرفت کا امکان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فوج سیکیورٹی سے متعلق امور پر اراکین اسمبلی کو بریفنگ دے گی

یاد رہے کہ ایئر اینڈ گراؤنڈ لائن آف کمیونیکیشن کے بارے میں، جسے امریکا، افغانستان میں اپنی فوجوں کی مدد کے لیے استعمال کرتا ہے، کہا جاتا تھا کہ ان پر حکومت 2015 کے مفاہمتی یادداشت کے ذریعے عمل کرتی ہے جس کی سالانہ تجدید ہوتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اس معاہدے میں غیر مہلک مواد کی نقل و حمل کا ذکر تھا تاہم امریکا نے کم از کم دو مواقع پر اس کی خلاف ورزی کی ہے۔

'افغانستان سے متعلق ماضی کی سوچ ناقابل قبول'

اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان 1990 کی دہائی کی طرح طالبان کو امارات کی شکل میں دیکھنا نہیں چاہتا لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ طالبان جس نے مئی میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کے بعد سے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے، وہ رکنے والے نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’18ویں صدی کی سوچ ناقابل قبول ہے‘۔

یکم مئی کو امریکا، روس، چین اور پاکستان کے درمیان ہونے والے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’طاقت کے ذریعے مسلط کردہ کسی بھی حکومت کے افغانستان میں قیام‘ کی حمایت نہیں کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: سیاسی معاملات پر فیصلے جی ایچ کیو کے بجائے پارلیمان میں ہونے چاہئیں، مریم نواز

پاکستان کا افغانستان میں اہم اسٹریٹجک مفاد یہ ہے کہ اس کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہ ہو۔

اسلام آباد کو ایک بڑی پریشانی یہ ہے کہ اس وقت افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تقریباً ساڑھے 6 ہزار جنگجو کابل کے زوال کی صورت میں افغان طالبان سے دوبارہ رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید یہ کہ افغانستان میں طالبان کی فتح، پاکستان میں پرتشدد انتہا پسند تنظیموں کا حوصلہ بڑھانے کا کام کر سکتی ہے جو ان کی حمایت کی بنیاد کو نئی شکل دے سکتی ہے اور انہیں نئی بھرتیاں اور فنڈز مہیا کر سکتی ہے۔

اجلاس میں ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کو نظریاتی رابطے کی وجہ سے ایک ہی سِکے کے دو رُخ قرار دیا گیا۔

اس میں مزید بتایا گیا کہ افغان طالبان پر پاکستان کا اثر بہت محدود ہے۔

سیکیورٹی عہدیداروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ افغانستان آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مزید تشدد کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہاں عدم استحکام پاکستان پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔

یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ مزید 7 لاکھ تک افغان مہاجرین پاکستان آسکتے ہیں جبکہ پاکستان پہلے ہی 30 لاکھ کی میزبانی کر رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں