شادی کی وہ تقریب بہت ہی بڑی اور شاہانہ طرز کی تھی۔ تقریب کے مقام سے دُور کہیں سے بکرے کی ران پکنے کی خوشبو آرہی تھی۔ اس خوشبو نے جو جذبات جگائے وہ اگر دبے ہی رہتے تو بہتر تھا۔

اس نے دیکھا کہ چاول کی تھالوں میں مصالحہ لگی ہوئی اور کشمش اور انار سے بھری ہوئی بکرے کی رانیں باورچی خانے سے شاہی دسترخوان پر لائی جارہی تھی۔ زعفران کی خوشبو نے اس کے حواس پر اثر کیا اور اسے ایک ایسے وقت میں لے گیا جہاں فضا میں موجود چاشنی صرف بکرے میں بھری کشمش کی نہیں تھی بلکہ اس میں اس کی شاہی شادی کی موسیقی بھی شامل تھی۔ اسے انار کی خوشبو سے گوشت کا ذائقہ اور خوشبو دار پلاؤ یاد آگیا جو وہ بھول چکی تھی۔

اپنی نوعمری میں جب میں مغلوں کے دور کو سوچتے ہوئے یہ خیال کرتی تھی کہ وہ ران روسٹ کس طرح کھاتے ہوں گے تو میرا تخیل کچھ ایسا ہوتا تھا جیسا ابھی آپ پڑھ چکے ہیں۔

لیکن 1970ء کی دہائی میں اکتوبر کے ایک مہینے میں جب عید الاضحیٰ آئی تو سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ میں اس وقت 5 یا 6 سال کی تھی اور بہت حیرت سے اپنے والد کو سن رہی تھی۔ ہم نے کچھ دن پہلے ہی جو تہوار منایا تھا میرے والد اس کے پیچھے موجود شاندار تاریخ کا ذکر کررہے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ بکرا خریدنے گئی تھی۔ ہم نے 700 روپے میں ایک تگڑا اور خوبصورت بکرا خریدا تھا۔ پھر قربانی کی صبح تک اس کی خوب خاطر مدارت کی تھی اور بعد میں اسے گھر والوں کے ساتھ کھانے کی میز پر خوب مزے سے اڑایا۔

کہا جاتا ہے کہ ران روسٹ شاہی افراد کا پکوان ہے لیکن تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو مٹن جنوبی ایشیا، مشرق وسطٰٰی، وسط ایشیا اور بحیرہ روم کے علاقے میں پسندیدہ گوشت رہا ہے۔ شاید مویشیوں کی دستیابی یا ان کے حجم نے اسے جلدی شکار ہونے والی اور آسانی سے کھائی جاسکنے والی خوراک بنادیا یا اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بکرے اور بھیڑ کا گوشت سب سے زیادہ ذائقہ دار اور رسیلا ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ میری ذاتی پسند بھی ہے اس وجہ سے میرا جھکاؤ بھی اسی کی طرف ہے۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ گائے، بھیڑ اور بکرے کے گوشت پر مبنی مغلوں کی خوراک برِصغیر میں ان کی رعایا کے ایک بڑے حصے کی خوراک سے متصادم تھی۔ لیکن افغانستان اور خیبر پختونخوا کے پہاڑوں پر رہنے والے افراد بنجارے چرواہوں کی طرح گوشت پر مبنی خوراک کے عادی تھے۔ پختونوں اور دیگر پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں کا جنگجوانہ انداز بھی غیر پالتو جانوروں کو خوراک بنانے کی وجہ ہے۔ اس کے برعکس سبزی پر مبنی خوراک کو میدانی علاقوں کے لوگوں کے لیے تصور کیا جاتا ہے۔

ران روسٹ بہت ہی شاہانہ، آرائشی، خوبصورت اور دلکش پکوان ہے۔ اسے ترجیحاً چربی میں ہی پکایا جاتا ہے۔ تازہ گوشت اس کے پکنے کے لیے ضروری چکنائی فراہم کرتا ہے اور اسے گرما گرم نان کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔

ہر عید پر میرا پسندیدہ پکوان عید کے دوسرے دن بننے والا ران روسٹ ہوتا ہے۔ تو ران روسٹ کی ترکیب آپ کی نذر۔

ران روسٹ

اجزا:

3 سے 4 کلو گرام وزنی بکرے کی ران

6 عدد بڑے ٹماٹر

1 سے 2 سرخ پیاز

ہری مرچیں

لہسن

مصالحے کے لیے درکار اجزا

4 چائے کے چمچے پسا ہوا ادرک اور لہسن

حسبِ ذائقہ کُٹی ہوئی سرخ مرچ

نمک حسبِ ذائقہ

8 عدد کُٹی ہوئی ہری مرچیں

2 چائے کے چمچے کشمیری مرچ پاؤڈر

آدھا کپ لیموں کا رس

ایک پیکٹ باہر سے خریدا گیا بار بی کیو مصالحہ، تکہ مصالحہ یا قورمہ مصالحہ (جو بھی آسانی سے دستیاب ہو)

آدھا کپ تیل

ایک کھانے کا چمچ ہلدی

ترکیب

بکرے کی ران کو اچھی طرح دھولیں اور گہرے کٹ لگا کر رکھ دیں۔

مصالحے کے تمام اجزا ایک پیالے میں ملالیں۔ ذائقے کو پسند کے مطابق رکھنے کے لیے مصالحے کو چکھ کر دیکھ لیں۔ مصالحے کا ذائقہ ہی گریوی کا ذائقہ ہوگا۔ مصالحے کو اچھی طرح بکرے کی ران پر لگائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ مصالحہ ران پر لگے کٹ کے اندر تک پہنچے۔ ران کو ڈھک کر کم از کم 36 گھنٹوں کے لیے فریج میں رکھیں۔ اس کے بعد اوون کو 450 ڈگری پر پری ہیٹ کرلیں۔ ران کو تر کرنے کے لیے اس پر 2 سے 3 کپ بیف کی یخنی ڈالیں، فوائل کی مدد سے سِیل کرکے ڈیڑھ گھنٹے تک بیک کریں۔

پین کو اوون سے باہر نکال کر گول کَٹی ہوئی پیاز کے رِنگ، کَٹی ہوئی ہری مرچ، 6 بڑے ٹماٹر 4 حصوں میں کاٹ کر اور لہسن کے جوئے شامل کریں۔ اوون کا درجہ حرارت 400 ڈگری پر سیٹ کریں اور مزید 2 گھنٹوں کے لیے بیک کریں۔

ضروری ہدایت: ہر 30 منٹ بعد ران کی شکل و صورت اور گلاوٹ کو چانچتے رہیں۔ جب گوشٹ ہڈی سے الگ ہونا شروع ہوجائے اس وقت ران تیار ہے۔ اپنی دعوت میں اسے بطور سینٹر پیس پیش کریں، یہ مہمانوں کو ضرور پسند آئے گا۔


یہ مضمون 02 ستمبر 2018ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں