1932میں تعمیر ہونے والی لائڈز بینک کی عمارت جو اب خطرے میں ہے۔
1932میں تعمیر ہونے والی لائڈز بینک کی عمارت جو اب خطرے میں ہے۔

ماسٹر پلان کی تیاری: ہر شہر کے ثقافتی ورثے کی حفاظت

کراچی کے تاریخی ورثے کی آگہی نہ ہونے، تجارتی سرگرمیوں کے بڑھنے اور غفلت کے باعث کئی یادگار مقامات بہت بری حالت میں ہیں۔
اپ ڈیٹ 15 جولائ 2021 03:01pm

کراچی اور اس کے مضافات میں ہمارا بہت ہی حیران کن اور متنوع ثقافتی ورثہ موجود ہے جو کہ ہمارے شاندار ماضی کی یادگار ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو کہانی 20 لاکھ سال پہلے شروع ہوتی ہے۔ تاریخ تو وہ کہانی ہوتی جو سب کو معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ماقبل تاریخ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ماہرین ثقافت اس بات پر متفق ہیں کہ اینتھروپوجینک اشیا ایک قابل اعتبار کہانی بتاسکتی ہیں۔ تاہم ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کراچی جو کہ تاریخی مقامات اور آثار قدیمہ سے بھرا ہوا، اب آہستہ آہستہ اپنے ورثے کو کھوتا جارہا ہے۔ تاریخی ورثے کی آگہی نہ ہونے، تجارتی سرگرمیوں کے بڑھنے اور غفلت کے باعث کئی تاریخی یادگار اور مقامات بہت ہی بری حالت میں ہیں۔

کراچی کی علاقے میں پتھر کے دور سے ہی انسانی آبادی کی مسلسل موجودگی کے آثار ملتے ہیں۔ اس تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک میگالیتھک (وفات پاجانے والے اجداد کے مزاروں کی روایات) اور دوسرا کانسی کا دور جو کہ اس علاقے میں دریائے سندھ کی تہذیب کا عروج تھا۔ اپنے محل وقوع کی وجہ سے یہ علاقہ یہاں موجود ماقبل تاریخ ثقافتوں کے ملنے کی جگہ تھا۔ سندھ اور میسوپیٹیمیا کی تہذیب کے درمیان موجود سمندری رابطے (جس کے خاطر خواہ ثبوت موجود ہیں) کی وجہ سے اس علاقے کی اہمیت واضح ہے۔

قدیم تہذیبوں کے ہائی وے پر موجود ہونے کے علاوہ کراچی کا علاقہ اپنے سمندری ماحول، سمندر سے حاصل ہونے والی غذا، معتدل آب و ہوا، کم اونچائی والے راستوں اور وادیوں کی موجودگی اور چشموں اور ندی نالوں کی موجودگی کی وجہ سے مقامی ثقافتوں کے آباد ہونے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا تھا۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس علاقے نے ماقبل تاریخ سے لے کر بعد تک آنے والے ادوار میں انسانی ترقی کے عمل میں اہم کردار ادا کیا ہوگا۔

اس خطے میں موجود ابتدائی انسانوں پر تحقیق میں حائل کئی مشکلات کی وجہ سے اس کام کے لیے آثار قدیمہ کے حوالے سے ایک نئی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تحقیق دیگر شعبوں کے ساتھ مل کر ہونی چاہیے اور اس میں آثار کے تحفظ اور نگرانی کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ سب سے پہلے تو قدیم پتھر کے دور کے بارے میں تحقیق کرنی چاہیے۔ اگرچہ سندھ میں بارشیں کم ہوتی ہیں لیکن بارشوں کے انداز میں ایک معمولی سی تبدیلی خوراک کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کو اس جانب راغب کرسکتی تھی۔ اس علاقے کی ارضیات کا مطالعہ بھی اہم ہے اور اسے ترجیح دینی چاہیے۔

سال 2021ء میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 64 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور یہاں شرح نمو 2.27 فیصد ہے۔ اس کا ایک تاریک پہلو شہریوں کے طرز زندگی کے لیے موجود ماحولیاتی چیلنجز ہیں۔ فراہمی آب کا نظام اس بڑھتی ہوئی طلب کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہے اور اس میں بہتری لانے کے لیے نئے انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ یہ تمام عوامل قانونی سقم کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور یوں تاریخی یادگاروں کے تحفظ کے حوالے سے موجود قوانین پر بھی کام کرنے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ہر سطح پر ضروری اقدامات اٹھانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔

ہماری سماجی و معاشرتی ترقی میں ثقافتی ورثے کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جب بھی ہم کراچی کی تاریخ کو جمع کرنے اور لکھنے کی بات کرتے ہیں تو اس میں آثار قدیمہ کے پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب تجارتی سرگرمیوں کے باعث ہمارا قدیم ورثہ متاثر ہورہا ہوتا ہے تو شاید ہی کوئی اس جانب توجہ دیتا ہے۔

تحفظ کا مطلب اینٹوں اور پتھروں کا تحفظ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اجداد کی زندگیوں کے بارے میں معلومات کو محفوظ بنانا ہے۔ تاریخی اہمیت رکھنے والی عمارتیں شہر کی سماجی اور معاشی بہتری کے لیے اہم ہوتی ہیں۔ ورثے کی کھوج کرنا اور اسے محفوظ بنانا جائیداد کی قدر میں اضافے اور روزگار کے نئے مواقع کو ممکن بناتا ہے۔ ہمارے ورثے میں موجود اکثر عمارتیں دنیا کے بہترین آرکیٹکٹس نے تیار کی ہیں۔ ایسی ہی ایک عمارت لائڈز بینک (سِلک بینک) ہے جسے توڑ کر اب 60 منزلہ فلک بوس عمارت میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس طرح کے نئے تعمیری منصوبے آلودگی بڑھانے، ٹریفک کے دباؤ میں اضافے جس کے سبب اسموگ پیدا ہوتی ہے، پانی کی قلت اور سیوریج کے نظام کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔

اپنے ورثے کی حفاظت کسی بھی ایسے شہر کے لیے ضروری ہے جو خود اپنی قدر کرتا اور اس ضمن میں ہمیں ابھی بہت کام کرنا ہے۔ ورثے کے حوالے سے یہاں بہت کمزور قوانین ہیں بلکہ سچ پوچھیے تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نگرانی کے نہ ہونے، کمزور قانون اور معمولی جرمانوں کی وجہ سے اپنے ورثے کی حفاظت کے لیے ہمارے پاس کچھ زیادہ چیزیں نہیں ہیں۔ تاہم ان مقامات کی ثقافتی اقدار کا تعلق ہم سب سے ہے۔

ہم کیا کرسکتے ہیں؟

1- اپنے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے ایک فنڈ قائم کریں اور اس حوالے سے موجود تنظیموں کو بہتر مانیٹرنگ کے ذریعے مزید مؤثر بنائیں۔

2- ورثے کے تحفظ کی کوششوں میں عام شہریوں کو بھی اپنے وقت اور صلاحیتوں کے استعمال پر راغب کرنے کے لیے ایک رضاکار سروس شروع کی جائے۔

3- لوگوں سے مدد لی جائے اور ان کے ارد گرد ورثے سے متعلق ہونے والے تمام معاملات سے باخبر رہا جائے۔

4- عوامی نمائندوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے اور ثقافتی ورثوں کی حفاظت کے لیے مضبوط قانون سازی کی جائے۔

کوئی قانون بھی اس وقت تک ہمارے ورثے کی حفاظت نہیں کرسکتا جب تک ہمیں خود اس ورثے کی اہمیت اور موجودگی کے بارے میں آگہی نہیں ہو۔ اس ورثے کے انتظام کو لاحق خطرات میں جامع ترقیاتی منصوبہ بندی کا فقدان، تجاوزات، ناکافی انتظامات، آلودگی اور توڑ پھوڑ شامل ہیں۔ ہمیں ان مشکلات سے نمٹنے اور اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے ایک اسٹریٹجک نظام کی ضرورت ہے۔


ڈاکٹر اسما ابراہیم اسٹیٹ بینک میوزم کے آرکائیو اینڈ آرٹ گیلری ڈپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر اور پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔[email protected]*