تیسرے پارلیمانی سال میں اب تک 18 آرڈیننس نافذ

اپ ڈیٹ 22 جولائ 2021
گزشتہ برس حکومت نے قانون سازی کے لیے 31 آرڈیننس نافذ کیے تھے—فائل فوٹو: اے پی پی
گزشتہ برس حکومت نے قانون سازی کے لیے 31 آرڈیننس نافذ کیے تھے—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے تیسرے پارلیمانی سال کے دوران واضح طور پر قانون سازی کے لیے صدارتی آرڈیننس پر انحصار کم کیا ہے۔

حالانکہ گزشتہ برس جاری کیے گئے آرڈیننس کی تعداد پارلیمان میں منظور کردہ قوانین سے بڑھ گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا کہ تیسرا پارلیمانی سال جو 12 اگست کو ختم ہورہا ہے اس میں 18 آرڈیننس نافذ کیے گئے جن میں ملک کے انتخابی اور ٹیکس قوانین میں تبدیلی کے متنازع آرڈیننس بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے ماضی کے مقابلے میں 50 فیصد کم آرڈیننس جاری کیے، پی ٹی آئی سینیٹر

گزشتہ برس حکومت نے قانون سازی کے لیے 31 آرڈیننس نافذ کیے تھے جبکہ اپنی 3 سالہ مدت کے دوران حکومت مجموعی طور پر 56 آرڈیننس اب تک نافذ کرچکی ہے۔

رواں پارلیمانی سال کے دوران نافذ کردہ سب سے متنازع آرڈیننس انتخابی قوانین 2017 میں ترمیم اور ٹیکس قانون (ترمیمی) آرڈیننس 2021 تھا۔

فروری میں حکومت نے سینیٹ انتخابات میں 'اوپن اور قابل شناخت بیلٹ کے استعمال کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا آرڈیننس نافذ کیا تھا۔

بعدازاں حکومت نے سرکلویشن کے ذریعے وفاقی کابینہ سے اس کی منظوری بھی حاصل کرلی تھی۔

مزید پڑھیں: دوسرے پارلیمانی سال میں حکومت کے آرڈیننس کی تعداد قانون سازی سے زیادہ

آرڈیننس کی تحریر کے مطابق وہ فوری طور پر لاگو ہوگا لیکن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 122 میں ترمیم کے ساتھ اسے سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط کردیا گیا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ نے آرڈینس سے متعلق ریفرنس کو خارج کرتے ہوئے معاملہ دوبارہ پارلیمان کو ارسال کردیا تھا۔

بعدازاں مئی میں حکومت نے جلد بازی میں ایک اور آرڈیننس نافذ کیا جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئندہ عام انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (ای وی ایمز) خریدنے اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا پابند کیا گیا تھا۔

تاہم ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں ای وی ایمز کے استعمال کے حکومتی آئیڈیے کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ یہ 2023 کے عام انتخابات میں دھاندلی کی کوشش ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’پہلے پارلیمانی سال میں قومی اسمبلی کی کارکردگی قابلِ ذکر نہیں رہی‘

دوسری جانب الیکشن کمیشن نے بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے آئیڈیے کی مخالفت کی تھی اور ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ کمیشن وزیر اعظم کی سربراہی میں انتخابات میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں ہی شریک نہیں تھا۔

عہدیدار نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم کو 9 سال پرانی 'لیب مں تیار کردہ ووٹنگ مشین دکھائی تھی جسے الیکشن کمیشن بین الاقوامی معیار کے فیچرز نہ ہونے کی وجہ سے ابتدا میں ہی مسترد کرچکا تھا۔'

علاوہ ازیں مارچ میں قومی اسمبلی میں ٹیکس قوانین میں آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کے معاملے پر بھی قانونی اور تکنیکی بحث ہوئی اور اپوزیشن نے حکومت کی جانب سے ٹیکس قوانین (ترمیم) آرڈیننس 2021 نافذ کیے جانے پر احتجاج کیا۔

جس پر وزیراعظم کے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے واضح کیا تھا کہ آرڈیننس مَنی بل کی شکل میں پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں