نور مقدم قتل کیس: مبینہ قاتل کی ’تھراپی ورکس‘ سے وابستگی پر عوامی تنقید

اپ ڈیٹ 01 اگست 2021
مقتولہ کے والد نے کہا تھا کہ ملزم ایک ادارے سے وابستہ ہے لیکن انہوں نے ادارے کا نام نہیں لیا تھا---فائل فوٹو
مقتولہ کے والد نے کہا تھا کہ ملزم ایک ادارے سے وابستہ ہے لیکن انہوں نے ادارے کا نام نہیں لیا تھا---فائل فوٹو

اسلام آباد: سابق سفیر کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے واقعہ سے پورا ملک صدمے سے دوچار ہے، بہت سے شہریوں نے اپنی پریشانی اور غصے کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور مبینہ قاتل، اس کے اہلخانہ کو شدید تنقید کا سامنا ہے ایسے میں تھراپی ورکس نامی ایک کمپنی کا نام بھی مبینہ قاتل کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تھراپی ورکس نامی کمپنی کا نام اس وقت منظر عام پر آیا جب تحقیقاتی اداروں نے اپنی تفتیش کا دائرہ وسیع کیا جس میں انکشاف ہوا کہ مبینہ قاتل ظاہر جعفر تھراپی ورکس سے وابستہ تھا۔

مزید پڑھیں: تھراپی ورکس کی وابستگی عوامی جانچ کے تحت آتی ہے۔

مقتولہ کے والد نے بیٹی کے جنازے کے موقع پر میڈیا سے کہا تھا کہ ملزم ایک ادارے سے وابستہ ہے لیکن انہوں نے ادارے کا نام نہیں لیا تھا۔

واقعہ سے قبل بہت سے لوگ تھراپی ورکس نامی ادارے سے نہیں واقف تھے۔

یہ تنظیم جو ایک مشاورتی اور سائیکو تھراپی سروس ہے، 2007 میں قائم کی گئی تھی اور 2008 میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں بطور کمپنی رجسٹرڈ ہوئی تھی جس کا مرکزی دفتر کراچی میں بلاک فور کلفٹن میں تھا اور اس کے چیف ایگزیکٹو افسر طاہر ظہور احمد ہیں۔

کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ان کی ٹیم اعلیٰ تربیت یافتہ پیشہ ور افراد پر مشتمل ہے جنہیں 25 سال سے زیادہ کا مقامی اور بین الاقوامی تجربہ ہے جن کا ایڈوانس ایڈکشن تھراپی پر انحصار ہے اور کراچی کے علاوہ اس کے لاہور، ملتان اور اسلام آباد میں دفاتر ہیں، جس میں ملک بھر میں 50 سے زائد افراد ملازم ہیں۔

سوشل میڈیا ان خبروں سے گونج رہا تھا کہ ملزم تھراپی ورکس سے منسلک تھا اور یہاں تک کہ اسکول کے بچوں کو مشاورت بھی فراہم کرتا تھا۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: عدالت نے ظاہر جعفر کے والد، والدہ سمیت 4 ملزمان کو جیل بھیج دیا

ایسی ہی ایک پوسٹ میں ظاہر جعفر کو راولپنڈی کے ایک معروف اسکول میں چھٹی اور ساتویں جماعت کے بچوں کو طبی تبدیلیوں اور خود کی دیکھ بھال سے متعلق کاونسیلنگ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

عوامی احتجاج کے بعد کلینک کی اسلام آباد برانچ کو سیل کر دیا گیا۔

اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقت نے کہا کہ رجسٹریشن سے متعلق دستاویزات کی عدم فراہمی کی وجہ سے کلینک کو سیل کردیا گیا۔

دوسری جانب تھراپی ورکس نے مؤقف اختیار کیا کہ ظاہر جعفر کا نام ان کی معالجین کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔

تھراپی ورکس نے ٹوئٹر پر ہونے والی تنقید کے جواب میں کہا کہ ظاہر جعفر ستمبر 2015 سے ستمبر 2016 تک یوکے لیول 3 میں بطور طالب علم داخل ہوا اور پھر اکتوبر 2016 سے جون 2018 تک یوکے لیول 4 میں شامل ہوا جہاں اس نے اپنا کورس ورک اور بین الاقوامی مضامین مکمل نہیں کیے، جس کی بنیاد پر انہیں کبھی بھی کسی مریضوں کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

مزید پڑھیں: ظاہر جعفر نے نور مقدم کے قتل کا اعتراف کرلیا، پولیس کا دعویٰ

منگل کے روز کمپنی نے ایک بیان جاری کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ہماری بین الاقوامی اسناد پہلے ہی متعلقہ حکام کے پاس ہیں اور ہمارے طلبہ دیکھنے کے لیے دستیاب ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ہمیں بے بنیاد تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اور میڈیا میں ہمارے خلاف بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

اپنے فیس بک پیج پر شیئر کیے گئے کمپنی کے بیان میں کہا گیا کہ الزامات سے ہمارے طلبہ، مریضوں اور عملے کے اراکین کو ’انتہائی تکلیف‘ پہنچی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ تحقیقات کی بنیاد پر کمپنی کے کسی بھی عملے کو حراست میں یا گرفتار نہیں کیا گیا۔

تنظیم نے متاثرہ خاندان کے لیے اپنی حمایت کا بھی اظہار کیا۔

جبکہ تھیراپی ورکس کے سی ای او اور چیف تھراپسٹ طاہر ظہور احمد نے سوالات کے جواب دینے سے انکار کیا۔

کلینک کے ایک سینئر ایگزیکٹو نے کہا کہ کیپیٹل انتظامیہ کی جانب سے کی گئی کارروائی بلاجواز اور بڑی حد تک غیر قانونی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم کے والدین کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

عہدیدار نے بتایا کہ تھراپی ورکس اسلام آباد ہیلتھ کیئر ریگولیٹری اتھارٹی (آئی ایچ آر اے) اور ان کے مساوی اتھارٹیز سندھ اور پنجاب میں رجسٹرڈ ہے۔

آئی ایچ آر اے اسلام آباد ہیلتھ ریگولیشن ایکٹ 2018 کے تحت قائم ایک خود مختار صحت ریگولیٹری ادارہ ہے۔

آئی ایچ آر اے کے چیئرمین ڈاکٹر فضلے ہادی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ تھراپی ورکس کو عارضی رجسٹریشن دی گئی ہے اور آپریٹنگ اجازت اتھارٹی کے ذریعے سائٹ معائنہ سے مشروط ہے۔

ڈاکٹر ہادی نے مزید کہا کہ رجسٹریشن کے لیے تقریبا 3 ہزار 500 درخواستیں موصول ہوئی ہیں لیکن اتھارٹی کی صلاحیت محدود ہے اس لیے تمام ہیلتھ یونٹس کے سائٹ انسپکشن میں وقت لگے گا۔

لیکن برٹش ایسوسی ایشن فار کونسلنگ اینڈ سائیکو تھراپی (بی اے سی پی) نے تھراپی ورکس کو کوئی رکنیت دینے سے انکار کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں