پی ایس او کا 'مہنگا ترین' ایل این جی کارگو خریدنے سے انکار، اوگرا نے نوٹیفکیشن واپس لے لیا

اپ ڈیٹ 03 اگست 2021
ہمیشہ اپنے تمام کاروباری معاملات اور طریقوں میں مکمل شفافیت کو برقرار رکھتے ہیں، پی ایس او - فائل فوٹو:ڈان
ہمیشہ اپنے تمام کاروباری معاملات اور طریقوں میں مکمل شفافیت کو برقرار رکھتے ہیں، پی ایس او - فائل فوٹو:ڈان

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے ایک روز قبل جاری ہونے والا نوٹیفکیشن واپس لے لیا جس میں پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی جانب سے خریدا گیا مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کارگو کی قیمت 20.055 ڈالر بتائی گئی تھی۔

اوگرا کا کہنا تھا کہ بولی 'مہنگی' اور 'ناقابل قبول' تھی۔

نوٹیفکیشن کی واپسی ایسے وقت میں سامنے آئی جب منگل کی صبح شائع ہونے والی ڈان کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سرکاری کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کا ایک کارگو 20.55 ڈالر فی یونٹ میں خریدا جو نہ صرف ملک کی سب سے مہنگی بلکہ دنیا کی دوسری مہنگی ترین خریداری تھی۔

رپورٹ کے شائع ہونے کے چند گھنٹے بعد پی ایس او نے ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس قیمت پر کسی بھی کارگو کی خریداری کی تردید کی تھی۔

مزید پڑھیں: پی ایس او نے مہنگا ترین ایل این جی کارگو خرید لیا

پی ایس او نے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ ٹینڈر اس کی زیادہ قیمت کی وجہ سے 27 جولائی کو ختم کر دیا گیا تھا اور بعد میں ایک نیا ٹینڈر جاری کیا گیا تھا۔

انہوں نے بولی کے نتائج کو خفیہ رکھنے سے بھی انکار کیا اور اصرار کیا کہ وہ 'ہمیشہ اپنے تمام کاروباری معاملات اور طریقوں میں مکمل شفافیت کو برقرار رکھتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بولی کے تمام نتائج پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قواعد کے مطابق پی ایس او کی ویب سائٹ پر شائع کیے جاتے ہیں'۔

پی ایس او نے کہا کہ اس نے قطر پیٹرولیم (کیو پی) کے ساتھ طویل المدتی سپلائی کا نیا معاہدہ کیا ہے جس کے نتیجے میں سپلائی جنوری 2022 میں شروع ہوگی اور اس سے ملک میں ایل این جی کی درآمدی قیمت میں مزید کمی آئے گی۔

بیان میں کہا گیا کہ 'آئندہ موسم سرما میں زیادہ طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ایس او نے نئے کیو پی کنٹریکٹ میں نومبر اور دسمبر میں 4 اضافی کارگو لانے کے آپشن کو استعمال کیا ہے جن کے سردیوں کے دوران مارکیٹ قیمت سے بہت کم ہونے کی توقع ہے'۔

وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ڈان کی رپورٹ کو جعلی قرار دیا۔

اس کے فوراً بعد اوگرا نے وہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا جس کا حوالہ رپورٹ میں دیا گیا تھا اور کہا کہ 'معمول کی ماہانہ مشق کے مطابق آر ایل این جی کی قیمتوں کے تخمینہ کردہ قیمتیں اس وقت کے دستیاب ڈیٹا کی بنیاد پر لگائی جاتی ہیں'۔

ادارے نے وضاحت کی کہ اس وقت دستیاب ڈیٹا کی بنیاد پر عارضی بنیادوں پر قیمتوں کے تعین کے لیے متعدد چیزوں کا حساب لگایا گیا تھا جسے بعد میں اوگرا نے اصل اخراجات کی بنیاد پر درست کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن)، مہنگی ایل این جی کس نے خریدی؟

اوگرا نے کہا کہ پی ایس او نے مطلع کیا کہ اس نے برینٹ کی پیش کردہ قیمت 27.8 فیصد کے ساتھ کارگو کا ٹینڈر ختم کردیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ '2 اگست کو نوٹیفائی کردہ آر ایل این جی کی قیمت اب درست نہیں ہے اور اگست کے آر ایل این جی کی قیمت کا نوٹیفکیشن واپس لیا جا رہا ہے'۔

نوٹیفکیشن

اوگرا کی طرف سے 2 اگست کو جاری کردہ نوٹیفکیشن 'ایل این جی کی اوسط فروخت کے عارضی قیمت کے تعین' سے متعلق کہا گیا تھا کہ ماہانہ ایل این جی کی قیمت کا حساب وفاقی حکومت کے ایل این جی کی تقسیم اور قیمتوں اور وزارت توانائی کے مشورے کی روشنی میں کیا گیا ہے۔

اوگرا کی طرف سے نوٹیفائی کی گئیں ایل این جی کی قیمتیں، جیسا کہ ڈان کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا، پی ایس او کے فراہم کردہ ڈیٹا/قیمتوں پر مبنی تھیں۔

اوگرا کے پاس ایل این جی کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے اور یہ صرف ایل این جی درآمد کنندگان، پی ایس او اور پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) کے طے کردہ اور رپورٹ کردہ قیمتوں پر انحصار کرتا ہے۔

رپورٹ کے فائل ہونے تک پی ایس او نے منسوخی یا ٹینڈرنگ کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں