کلبھوشن کیلئے قانون سازی کے بجائے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تجویز

اپ ڈیٹ 04 اگست 2021
سینیٹ کی قائم کمیٹی کے اجلاس میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر نظرثانی بل کو دوبارہ زیر غور لایا گیا— فائل فوٹو بشکریہ سینیٹ
سینیٹ کی قائم کمیٹی کے اجلاس میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر نظرثانی بل کو دوبارہ زیر غور لایا گیا— فائل فوٹو بشکریہ سینیٹ

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں کلبھوشن یادیو کے لیے قانون سازی کے بجائے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی تجویز دے دی۔

کمیٹی کا اجلاس بیرسٹر علی ظفر کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر نظرثانی بل کو دوبارہ زیر غور لایا گیا۔

مزید پڑھیں: ’آرڈیننس میں کلبھوشن یادیو کی سزا ختم نہیں کی‘

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بل پر بحث سے قبل عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا حوالہ دینا پڑے گا، کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ کو گرفتار کیا گیا اور 10 اپریل 2017 کو سزا سنائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں 8 مئی 2017 کو درخواست دائر کی تھی جس کے تحت ویانا کنونشن کے مطابق قونصلر کی رسائی دی جاتی ہے تاہم یہ معاملہ اس نکتے پر اٹکا کہ قونصلر رسائی دینی ہے یا نہیں۔

کمیٹی نے کہا کہ کلبھوشن یادیو سے متعلق فیصلے کی نقل فراہم کرنے کا کہا تھا، کلبھوشن یادیو سے متعلق فیصلے کی نقل فراہم نہیں کی گئی، جب تک ارکان فیصلہ نہیں پڑھیں گے تب تک آپ فیصلہ نہیں کر سکتے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آپ نے مطمئن کرنا ہے کہ ایکٹ لانا کیوں ضروری ہے، عالمی عدالت انصاف نے ہمیں باونڈ نہیں کیا کہ قانون سازی کریں بلکہ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر قانون سازی ضروری ہو تو کریں۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی: حکومت نے کلبھوشن یادیو سے متعلق بل منظور کرالیا

مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور کمیٹی کے رکن اعظم تارڑ نے کہا کہ کلبھوشن یادیو دشمن ملک سے ہے اور اس کو نظرثانی دی جا رہی ہے، جن لوگوں کو ملٹری کورٹس نے سزائیں دیں، ان کو یہ حق کیوں نہ دیا جائے؟ اگر قانون سازی کرنی ہے تو سب کے لیے کیوں نہیں؟

فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ نظرثانی سے متعلق آرمی ایکٹ میں ترمیم کیوں نہ کی جائے؟ جس پر تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کا معاملہ نہ کھولا جائے۔

کمیٹی کے چیئرمین بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آپ کے قانون میں ایک غلطی نظر آ رہی ہے، ایک جاسوس جس نے اتنی دہشت گردی پھیلائی، آپ اس کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔

جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما کامران مرتضیٰ نے کہا کہ دشمن ملک کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں اور اپنے شہریوں کو یہ حق نہیں دے رہے۔

مزید پڑھیں: قائمہ کمیٹی نے کلبھوشن کی سزا پر نظر ثانی کا بل منظور کرلیا

اس موقع پر وزیر قانون نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ہم کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق نہیں دے رہے، اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں تو پھر آپ نے یہ قانون پڑھا ہی نہیں ہے۔

اس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اپیل کا حق نہیں بلکہ آپ نظرثانی کا حق دے رہے ہیں۔

دوران اجلاس وفاقی وزیر فروغ نسیم اور مصدق ملک کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جس میں مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں جو حق ایک کو دیا جا رہا ہے وہ سب کو دیا جائے۔

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ایک سوال بار بار نہ کریں جس پر مصدق ملک نے کہا کہ کیا میں بات نہ کروں، چلا جاؤں؟ آپ بات سنیں ہم بات کریں گے۔

جواب میں وزیر قانون نے کہا کہ ایک ہی سوال بار بار نہیں سنا جائے گا جس پر مصدق ملک نے سوال کیا کہ کیا آپ چیئرمین ہیں؟ جواباً وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر میں چیئرمین نہیں، تو آپ کا نوکر بھی نہیں ہوں، آپ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے آرڈیننس کی شکل میں کلبھوشن یادیو کو این آر او دیا، بلاول بھٹو

دوران اجلاس پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہا کہ فرض کریں کہ اگر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتے تو پاکستان کے اس پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، کیا یہ درست نہیں کہ کچھ کیسز میں عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر تمام ارکان اپنے سوالات تحریری طور پر دے دیں تو بہتر رہے گا، اگر اس قانون پر عملدرآمد نہ ہوا تو بھارت ہمارے خلاف عالمی عدالت انصاف میں توہین کی درخواست لانے کے ساتھ ساتھ ہمارے خلاف سیکیورٹی کونسل میں قرارداد لائے گا، اس قانون کی وجہ سے بھارت آج تک ہمارے خلاف کچھ نہیں کر سکا۔

اس پر رضا ربانی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے میں کہیں بھی توہین کا حوالہ نظر نہیں آ رہا۔

کلبھوشن سزا پر نظر ثانی کا معاملہ

خیال رہے کہ گزشتہ سال 8 جولائی کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان نے بتایا تھا کہ پاکستان میں گرفتار اور سزا یافتہ بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو نے اپنی سزا کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل دائر کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس کے بجائے انہوں نے اپنی زیر التوا رحم کی اپیل پر جواب کے انتظار کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے کلبھوشن یادیو کیس پر بھارت کا بے بنیاد بیان مسترد کردیا

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ حکومت پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈینسس 2020‘ نافذ کیا۔

اس آرٹیننس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔

آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت کلبھوشن یادیو بذات خود، قانونی اختیار رکھنے والے نمائندے یا بھارتی ہائی کمیشن کے قونصلر اہلکار کے ذریعے نظرِ ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔

چنانچہ اس سلسلے میں 16 جولائی کو بھارتی قونصل خانے کے اہلکاروں کی بھارتی جاسوس سے ملاقات بھی کروائی یہ بھارتی عہدیداروں کی کلبھوشن کے ساتھ دوسری ملاقات تھی۔

تاہم بھارتی عہدیدار اس کی بات سنے بغیر ہی وہاں سے چلے گئے جبکہ بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں الزام لگایا تھا کہ پاکستانی حکام نے ’بغیر کسی رکاوٹ‘ کے قونصلر رسائی کے سمجھوتے کی پاسداری نہیں کی تھی اس لیے اہلکار احتجاجاً ملاقات سے واپس چلے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہر صورت عمل ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ

بعدازاں اگلے ہی روز پاکستان نے بھارتی جاسوس کو سیکیورٹی اہلکاروں کے بغیر تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کی پیشکش کی۔

علاوہ ازیں 22 جولائی کو وفاقی حکومت نے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے جاسوس کلبھوشن یادیو کے لیے سرکاری وکیل مقرر کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تا کہ سزا سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جاسکے۔

درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق فوجی عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی اور دوبارہ غور کے لیے وکیل مقرر کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں