'16 سال سے بچے تعلیم سے محروم ہیں، بیوروکریسی کام نہیں کر سکتی تو گھر چلی جائے'

اپ ڈیٹ 05 اگست 2021
عدالت نے اسکولوں کو فعال کرنے کیلئے ایک سال کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کردی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت نے اسکولوں کو فعال کرنے کیلئے ایک سال کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کردی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے صوبہ خیبرپختونخوا کی بیوروکریسی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صوبے کے زلزلے سے متاثرہ اضلاع میں تباہ شدہ اسکول 6 ماہ میں فعال کرنے کا حکم دے دیا جبکہ چیئرمین ایرا کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سال 2005 کے زلزلے سے خیبرپختونخوا کے متاثرہ علاقوں میں اسکولوں کی عدم تعمیر پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت میں صوبائی حکومت کی جانب سے اسکولوں کو فعال کرنے کے لیے ایک سال کی مہلت دینے کی استدعا عدالت نے مسترد کردی۔

یہ بھی پڑھیں:خیبرپختونخوا کے ایک ہزار اسکول بند کرنے کا فیصلہ

عدالت نے دریافت کیا کہ بتایا جائے اربوں روپے کے فنڈز جاری ہونے کے باوجود خیبرپختونخوا کے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں اسکولز کیوں نہیں بنے؟

عدالت نے ریماکس دیے کہ تعلیم صوبائی حکومت کی ترجیحات میں کم ترین ہے، زلزلے کو 16 سال گزرنے کے بعد بھی اسکولز تعمیر ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے۔

عدالت نے کہا کہ اربوں روپے مختص ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا، جن علاقوں میں اسکول بنے وہ بھی مکمل فعال نہیں۔

دوران سماعت خیبرپختونخوا حکومت نے اسکولوں کی عدم تعمیر کا ذمہ دار ارتھ کوئیک ری کنسٹرکشن اینڈ ری ہیبیلٹیشن اتھارٹی (ایرا) کو ٹھہرایا۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ زلزلہ زدہ علاقوں کی بحالی ایرا کی ذمہ داری تھی، صوبائی حکومت کو فروری 2020 میں متاثرہ علاقوں کا کنٹرول ملا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سارا گورکھ دھندا صرف پیسہ ادھر ادھر گھمانے کے لیے ہے، انہوں نے خیبرپختونخوا کی بیوروکریسی کو نااہل قرار دیا۔

مزید پڑھیں: اسکول کی خستہ حال عمارت زیرتعلیم بچوں کے لیے خطرہ بن گئی

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ کے گھروں سے چھتیں ہٹا دیں تو آپ کو پتا چلے گا، افسران کے کمروں سے اے سی اور فرنیچر بھی ہٹا دینا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر، وزیراعلیٰ ہاؤس اور افسران کے گھر دیکھیں کیسے شاندار ہیں، ایک دن کے لیے پانی بند کردیں تو آپ کی چیخیں نکل جائیں گی۔

چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ 16 سال سے بچے تعلیم سے محروم ہیں، بیوروکریسی کام نہیں کر سکتی تو گھر چلی جائے، خیبرپختونخوا کے محکمہ تعلیم کو شرم آنی چاہیے، افسران سمجھتے ہیں مختص شدہ پیسہ ان کے لیے ہے۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا پشاور اور مانسہرہ کے بچوں میں کوئی فرق ہے؟ کیا ملک میں سریا، سیمنٹ نہیں ملتا؟ ملک میں پیسہ بھی ہے اور تیارچھتیں بھی دستیاب ہیں، نیت کا فقدان ہے ورنہ تینوں چیزوں کو یکجا کیسے نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں 51 فیصد لڑکیاں اسکول جانے سے محروم، رپورٹ

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جاپان میں سونامی آیا انہوں نے چند ماہ میں پورا شہر بنا دیا، ایرا نے جو اسکولز بنائے وہ کسی بھوت بنگلے سے کم نہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی میں شرح خواندگی سب سے زیادہ ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسکول تو ہیں نہیں، شرح خواندگی کیسے زیادہ ہوگئی؟

سماعت میں قائم مقام چیف سیکریٹری کے پی نے کہا کہ نشاندہی پر عدالت کا مشکور ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مشکور نہ ہوں قوم سے اپنی نااہلی پر معافی مانگیں۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ بدقسمتی سے تعلیم کاروبار بن چکا ہے اور حکومتی نااہلی کی وجہ سے تعلیم کا کاروبار پھیل رہا ہے، پرانا نظام چاہیے جہاں سب برابری سے پڑھتے تھے۔

بعدا ازاں عدالت نے پیشر فت رپورٹس طلب کرتے ہوئے سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی۔

تبصرے (0) بند ہیں