گزشتہ اقساط: پہلی قسط، دوسری قسط، تیسری قسط، چوتھی قسط، پانچویں قسط، چھٹی قسط


17 مارچ 2020ء کی رات 12 بجے کا وقت تھا جب میں لاؤنج میں رکھے صوفے پر بالآخر 2 گھڑی کے لیے تھک ہار کر گِری تھی۔ یہ وہی صوفہ تھا جسے ہم میاں بیوی نے کوئی 8 ماہ پہلے پاکستان شفٹ ہونے کے ابتدائی دنوں میں پہلی نظر میں نہ صرف پسند کرکے خرید لیا تھا بلکہ اپنی مرضی کے رنگ و ڈیزائن کے کشن بھی پورے کمرے کے انٹیریئرز کے ساتھ ملا کر بنوائے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم اپنا خوابوں کا گھر بنانے کے بالکل ابتدائی مراحل میں تھے۔

شاید مجھے یہ احساس ہوچلا تھا کہ اس پر میں آخری بار بیٹھی ہوں۔ مگر یہ احساس اس قدر اٹل سچ ہوگا مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ میں سر پر ہاتھ رکھ کر لیٹی تو ساتھ ہی میری آنکھوں میں پانی بھر آیا اور میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔

2 مواقع پر ہی انساں کے لیے رونا آساں ہوتا ہے۔ ایک جب وہ تنہا ہو یا پھر اپنے رب کے سامنے ہو۔ میں تنہا تھی اور اپنے حال پر کُھل کر رونے پر قادر تھی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ جس سفر کا آغاز آنسو بہانے سے ہوا تھا اس کا انجام بھی آنسوؤں پر ہی ہوگا۔ مگر میرے صبر کی انتہا ہوچکی تھی۔

میں گھر کی ہر شے پیک نہیں کرسکتی تھی۔ ایک کنال کے فلور پر ہر کمرہ سامان سے بھرا تھا جبکہ میرے پاس ساتھ لے جانے کے لیے محض 100 کلو کی گنجائش تھی۔ کپڑے اور جوتوں کے علاوہ تھوڑی سی کتابیں اور کچھ کچن کا سامان ہی ساتھ پیک کرپائی تھی۔

صبح دبئی کی طرف واپسی تھی اور مجھے شاید ہمیشہ کے لیے اپنے ساز و سامان سے بھرے اس گھر سے اور اس شہر سے اُڑ جانا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ واپسی ہوگی؟ ہوگی تو کیسے اور کہاں ہوگی؟ خوابوں کا گھر بنانے کے چکر میں ہم 10 سال کی سب کمائی اور سامان سمیٹ کر پاکستان لوٹے تھے اور اب سب کچھ ادھر ہی چھوڑ کر واپس جانے پر مجبور تھے۔

گھر کے لاؤنج میں رکھا صوفہ
گھر کے لاؤنج میں رکھا صوفہ

میں ضروری جوڑے سمیٹتی، چیزیں اٹھاتی اور پھر واپس رکھ دیتی کہ اب ان میں سے میں واپس کچھ نہیں لے جاسکتی تھی۔ اس اذیت کا اندازہ صرف وہ لگا سکتا ہے جس نے اپنے کپڑے جوتے چھوڑ کر گھر بنایا ہو، سونا چاندی زیورات، میک اپ کے سامان کے بجائے گھر کا فرنیچر لیا ہو، کئی کئی ماہ پیسے جوڑے ہوں اور پھر جاکر ایک ایک کتاب اور اس کے لیے الماری خریدی ہو، اور آخری دن وہ ایک کتاب، ایک الماری 2 کپ اور 2 چادریں تک اپنے ساتھ نہ لے جاسکتا ہو۔

جب لوگ کہتے ہیں کہ انساں کو سب کچھ ادھر دنیا میں ہی چھوڑ جانا ہے تو ہم کبھی نہیں سوچتے کہ یہ عمل کس قدر تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ زندگی میں اس روز میں نے یہ پہلی بار جانا تھا کہ بہت محنت سے بنائی ہوئی زندگی چھوڑ کر خالی ہاتھ چل دینا کس قدر مشکل ہوسکتا ہے۔ اب جان چکی تھی اور اندھیرے کمرے کے صوفے پر گِری پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ مگر یہ رونا یہیں تک نہ تھا۔ مجھے اس سے آگے بھی اس نیک عمل کے لیے بہت سی وجوہات ملنے والی تھیں۔

اگرچہ میں اس سارے عمل سے 2008ء میں بھی گزر چکی تھی مگر تب ہم جوان تھے، زندگی کا آغاز تھا، اب ہم تھک چکے تھے، زندگی بنا بنا کر بے حال ہوچکے تھے، اب بار بار ایک ہی کام کرنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔

پچھلے 8 ماہ میں ہم اتنے جھگڑوں اور مسائل میں پھنس چکے تھے، اتنی ناراضگیوں بھرے فون سُن چکے تھے کہ میاں صاحب کے ہاتھ کھڑے ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا تھا، بس اب واپس آجاؤ! میں روز نئے سرے سے سمجھانے کی کوشس کرتی کہ کس قدر محنت سے زمین پر قدم جمائے ہیں۔ ان 8 ماہ میں یہاں تک آنے اور گھر بنانے میں لاکھوں روپے خرچ ہوچکے ہیں، اب بہتر ہے کہ زندگی کو یہیں سے آگے چلنے دیں۔ مگر اس بار میاں صاحب بھی ایک ہی بیان پر کھڑے تھے۔ واپسی!

جب بازاری شوارموں سے دل بھر چکا ہو، ہزار طرح کے شکایتی فون اور باتیں سُن سُن کر کان پک چکے ہوں اور وضاحتیں دے دے کر زباں بے حال ہوگئی ہو، روزانہ شام کو ویڈیو کال پر بچے پڑھا پڑھا کر پاکستانی تعلیمی اداروں سے جی بھر چکا ہو تو بیگم کی بات پر کان دھرنا پاکستانی شوہر کے لیے ویسے بھی خوبصورت آپشن نہیں رہتا۔ جب تک میں منانے کی کوشش میں لگی تھی کورونا چین سے نکل کر پاکستان پہنچ چکا تھا اور اسکول ایک ماہ کے لیے بند ہوگئے تھے

آخری دن کی پیکنگ
آخری دن کی پیکنگ

لگتا تھا کہ اسکول جلدی نہیں کھل سکیں گے۔ اسکول بند تھے اس لیے شہر میں قیام کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی۔ جب میاں واپسی پر بضد رہے تو میں نے بھی سوچا کہ واپس جانا ہی ہے تو پھر مئی کا انتظار کیوں کیا جائے وہ بھی ایسی صورتحال میں جب کورونا کے خوف نے دنیا کو جکڑ رکھا ہے۔

سوشل میڈیا پر جو صورتحال دکھائی جارہی تھی اس سے لگتا تھا کہ کورونا پاکستان میں پھیلا تو شہر کی گلیاں خدانخواستہ لاشوں سے اٹ جائیں گیں اور اس شہر میں 2 بچوں کے ساتھ میں اکیلی کیسے حالات کا مقابلہ کرپاؤں گی۔ پھر پروازوں پر پابندیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا، اس لیے میں نے واپس جانے کی ٹھانی تاکہ ہم کم سے کم ایک شہر میں اکٹھے ہوسکیں۔

میں اپنا سارا گھر اور زندگی سمیٹ کر دوبارہ پاکستان لاچکی تھی۔ اب واپس جائیں تو کرایے کا گھر؟ گھر میں بھرا سامان؟ گھر خالی کردیں؟ سامان کا کیا کریں؟ یہ پھر سے ایک آسان فیصلہ نہیں تھا۔

میاں صاحب چاہتے تھے کہ سارا سامان مناسب قیمت پر بیچ دوں، لیکن میں یہ قطعی نہیں چاہتی تھی۔ گلف میں آپ کو کوئی شہریت نہیں ملتی، چنانچہ عمر بھر کے تحفظ کی قطعی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ خصوصاً کورونا کے ساتھ ہی معاشی بحران تیزی کے ساتھ سر اٹھا رہا تھا، اور پچھلے 10 سالہ تجربے کی بنا پر ہم جانتے تھے کہ اس معاشی بحران کے سبب ہزاروں ایشیائی باشندوں کی گردنوں پر دھڑا دھڑ چھری پھرے گی، اور سب سے پہلے انہیں ہی دیس نکالے دیے جائیں گے۔

ایسے میں بنا بنایا گھر چھوڑ کر خالی ہاتھ ایسے شہر میں لوٹنا غلط فیصلہ لگ رہا تھا جس کی دہلیز پر معاشی بحران کھڑا گرج برس رہا ہو۔ اس لیے میاں کو سمجھایا کہ لاکھوں کی چیزیں ہزاروں میں بیچنا کوئی ٹھیک فیصلہ نہیں لگتا، ہم ایسا کرتے ہیں کہ سامان کسی چھوٹے گھر میں شفٹ کرکے تالا لگا دیتے ہیں۔

میں نے یہ مشورہ دے تو دیا، لیکن یہ کام کرنا مجھے خود ہی تھا، اس لیے ایک بار پھر سے سڑک پر نکلی، گھر ڈھونڈنے۔ سوچا کہ جب واپس آئیں گے تو رہنے کا ٹھکانہ ہوگا۔ ساماں محفوظ ہوگا کوئی وسیلہ بن گیا یا شاید گھر بن جائے تو سامان کم سے کم محفوظ ہوگا۔ پھر سارا علاقہ کئی دن لگا کر گھومی، ایک چھوٹی سی بیسمنٹ ڈھونڈی۔ سیکیورٹی اور ایڈوانس کرایہ دیا اور چابیاں لے لیں۔

بیٹے کے سامان کی پیکنگ
بیٹے کے سامان کی پیکنگ

اعصاب شل ہوچکے تھے، وقت بھی محدود تھا اور اب پھر سے شفٹنگ کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ لہٰذا ایک رشتے کا بھائی جو شہر میں تھا اسے بُلا کر ذمہ داری دی کہ ہمارے ڈرائیور اور ملازم کو ساتھ لے کر ہمارے جانے کے بعد سامان کی شفٹنگ کروا دے۔ خاندان بھر کو پچھلے 8 ماہ سے اعتراض تھا کہ مردوں کے کرنے کے کام میں خود کیوں کر رہی ہوں؟ آخر 8 ماہ میں پہلی بار ایک مرد کو بُلا کر سارا کام سونپا۔ اب زندگی سے، لوگوں سے اور حالات سے مزید الجھنا اور لڑنا مشکل تھا۔

واپسی کا سفر بہت تھکا دینے والا تھا۔ جب دماغ تھک چکے ہوں اور انسان 100 حصوں میں بکھر چکا ہو تو 3 گھنٹے کا سفر بھی صدی سے بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ دبئی ایئرپورٹ پر اترنے والی آخری فلائٹ سے اترتے میری حالت کسی لٹے پٹے قافلے سی تھی۔ ہم اگرچہ جنگی علاقے سے نہیں لوٹے تھے مگر ہماری حالت کسی جنگ سے بچ کر نکلنے والے افراد سے کم نہ تھی۔ ہم محض جانیں بچا کر لوٹے تھے۔ میاں صاحب سے میں خفا تھی کہ واپسی کی ضد کرتے وہ یہ بات بالکل فراموش کر بیٹھے کہ میں نے اس کوشش میں کیسے خود کو ہلکان کیا تھا۔

'میرا پیسہ ہے ناں، میں اور لگا دوں گا'، یہ کہتے ہوئے شوہر بھول جاتے ہیں کہ صرف پیسوں سے گھر نہیں بنتے اس میں جب تک کسی عورت کا خون پسینہ، محبت اور جدوجہد شامل نہ ہو تو ایک مکان ایک گھر نہیں بن سکتا۔ آخر کیوں گھر کی چھت گراتے وقت اس کی رضا کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا؟

یہاں سے آگے لکھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ بس قلم یہیں آکر پھنس جاتا ہے۔ کیا ہم زندگی کے تمام سچ کاغذ پر لکھ سکتے ہیں؟ شاید نہیں؟ تمام سچ اگر کاغذ پر اتریں تو پھر یا تو قلم جل جائے گا یا پھر کاغذ بڑھکنے لگے گا۔

سفر ختم ہوا تھا مگر عذاب نہیں۔ اگلے ہی روز سے دبئی ایئرپورٹ فلائٹس کے لیے بند ہوگیا تھا۔

دبئی کی زمیں پر اترتے ہی خبر ملی کہ میرا گھر نیلامی پر لگ چکا ہے جو کوئی چاہے قیمت دے کر جو چاہے لے جائے۔ جس گھر کی دہلیز سے میں نے کبھی کسی کو گزرنے نہیں دیا تھا وہ دکان میں تبدیل ہوچکا تھا جس میں گاہک دندناتے پھرتے تھے۔ رشتے کے بھائی کو سامان اگلے گھر شفٹ کرنے کے بجائے بیچنے میں زیادہ دلچسپی تھی۔ چنانچہ اس نے میری ساری محنت کو آگ لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ لاکھوں کی چیزیں آدھی قیمت پر بھی نہیں بلکہ کوڑیوں کے بھاؤ بِک رہی تھیں۔

میں پہلے ہی بے حال بیٹھی تھی، اب اتنی دُور اور بے بس تھی کہ چیخنے چلانے اور اجڑ جانے کے سوا کچھ نہ کرسکتی تھی۔لوگ کہتے ہیں سب مادی چیزیں ہیں، کوئی جانتا ہے ایک عورت ایک ایک مادی چیز کو اپنے گھر میں بھرنے کے سپنے کتنے عرصے سے دیکھتی ہے، کیسے پیسہ پیسہ اس کے لیے جوڑتی ہے اور خالی دیواروں کے اندر وہ مادی چیزیں بھرتی ہے تاکہ اس کی اور اس کے گھر والوں کی زندگیاں آسان اور خوبصورت ہوسکیں۔ تو آج میری گزشتہ 14 سال کی محنت چوراہے پر بِک رہی تھی۔

ساماں کُھلتا اور بکتا ہوا
ساماں کُھلتا اور بکتا ہوا

میں بے حال ہوکر کبھی میاں سے جھگڑتی کبھی والد تو کبھی بھائی سے۔ میری عمر بھر کا اثاثہ اجڑ رہا تھا مگر ذمہ داری کوئی نہیں لے رہا تھا۔

ایک ہی دن میں سجا سجایا، بنا بنایا گھر کسی لٹی ہوئی دکان کی طرح خالی ہوگیا۔ کرایے پر لیے گیے نئے پورشن تک کسی نے جانے کی زحمت ہی نہ کی۔ الٹا جو سیکیورٹی اور ایڈوانس کا ڈیپازٹ دیا تھا وہ بھی گیا۔ میرا ملازم جو سامان خریدتے، اٹھاتے، رکھتے اور سجاتے وقت مدد کرتا رہا اور ہر اچھے بُرے وقت میں میرا ساتھ دیا وہ فون پر بلک پڑا! بولا، 'باجی! تباہی پھر گئی ہے!'

اس دن میں نے دیکھا کہ مرتے ہوئے انساں پر گِدھ کیسے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ میں مری نہیں تھی بس سرحد پار گئی تھی کہ میرے گھر کے ساماں پر لوگ مالِ غنیمت سمجھ کر ٹوٹ پڑے تھے۔ کیا خونی رشتے، کیا دوست اس حمام میں سب کے سب ننگے تھے۔ (کیا یہ بتانا ضروری ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا؟ کہ جب زندگی میں پہلی ہجرت کی تھی تب بھی ہمارے سامان کا یہی حشر ہوا تھا۔ ہم سے محبت کے دعوے دار ہمارے پردیس جانے کو اکثر ہماری موت سے کم نہیں گردانتے)

مجھے ایک ہی دن میں اللہ نے جیسے دنیا اُلٹ کر دکھا دی تھی۔ ایک ہی دن میں میں یوسف بن کر کنویں میں پھینکی گئی تھی۔

ہر کوئی آپ سے اپنی اپنی ضرورت کی چیزیں و مفاد نکال جاتا ہے اور آپ کو چھوڑ جاتا ہے۔ انسان بے بس آنکھوں سے صرف لوگوں کے اصل چہرے دیکھتا اور اپنے آپ پر ماتم ہی کرسکتا ہے کہ یہ تھے وہ رشتے ناطے، محبتیں اور سہارے جن پر ساری عمر وہ غرور کرتا رہا جن کا جھوٹا سہارا ساری عمر وہ اپنے ساتھ سمجھتا رہا اور ان کو ڈھونڈتا رہا۔ جب انسان تہی دامن ہوجاتا ہے ہر چیز، ہر رشتے اور ہر واسطے سے محروم ہوجاتا ہے، تب وہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے جو دوسرے لوگ دیکھ نہیں پاتے۔ ایسا وقت عموماً موت کا ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ وقت میری موت کا نہیں تھا مگر میں نے وہ سب جیتے جاگتے زندگی میں دیکھ لیا۔

پردیسی پن ایک کیفیت ہے جس کے لیے آپ کا پردیس میں ہونا ضروری نہیں ہوتا بس آپ کے پاؤں کے نیچے زمین نہ ہو، کوئی ٹھکانہ نہ ہو، کوئی اپنا نہ ہو تو انساں پردیسی ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ہم پر یہ بات آشکار ہوئی تھی کہ ہم ہر طرف سے پردیسی ہی تھے۔

اس دوسری ہجرت میں ہر رشتہ، دوستی اور محبت سب چھوٹ گیا۔ اس بار میں سامان کے ساتھ رشتے، یادیں، دوست اور محبت سب کچھ چھوڑ کر صرف درد دبئی لاسکی تھی۔

لوگ کہتے ہیں سب مایا ہے، سب جھوٹ اور دھوکا ہے۔ اس روز میں نے جانا، سب جھوٹ اور دھوکا ہے۔ رشتے بھی، دوست بھی، محبت بھی! کہنے میں تو بہت ہی آسان فقرہ ہے مگر دل پر یہ راز تب کھلتا ہے جب خود دل ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ سب وہ لے گئے جو ان کو چاہیے تھا، میرے وجود سے غرض میرے میاں اور بچوں کو تھی۔ سو دبئی میں ہم لوگ محض زندگیاں بچا کر خالی ہاتھ پھر سے اکٹھے ہوئے اور 2008ء کی طرح سے دوبارہ فرش پر پھینکے 3 گدوں اور قرض کے بوجھ کے ساتھ زندگی کا سفر جاری رکھا۔

تبصرے (7) بند ہیں

Ahmad Aug 23, 2021 11:05am
100% agreed. I have faced the same circumstances, and feel like it's my story.
imran khan Aug 23, 2021 12:50pm
میڈم میری آج بھی وہی رائے ہے جو پہلے تھی آپکی پلاننگ کی سب سے بڑی غلطی آپکا انا گھر اسلام آباد میں نا ہونا ہے ورنہ باقی سب چھوٹے موٹے مسائل ہیں ۔ جہاں آپ نے اتنے پیسے خرچ کیے اگر چھوٹا سا اپنا گھر بنا لیتیں تو پھر ان سب مصیبتوں سے جان بچ سکتی تھی ۔ اگر گھر نا بھی ہوتا ایک اپارٹمنٹ خرید لیتیں تو بھی یہ سب نا ہوتا ۔ آپکی سب سے بڑی پرابلم اسلام آباد میں اپنا گھر نا ہونا تھی باقی سب چھوٹے موٹے مسائل تھے ۔ سوچیں آپکا اپنا گھر ہوتا تو آپ سامان گھر میں چھوڑ کر چلی جاتیں ۔ اپنا گھر ہوتا تو اتنے لوگوں سے گھر ڈھونڈھنے اور ملنے بھاگ دوڑ کی کوئی ضرورت نا ہوتی ۔
شبینہ اعجاز Aug 23, 2021 12:55pm
اپ کی اس ساری پریشانی اور مصیبتیں اٹھانے کی ایک بڑی واضح وجہ ٓآپ کے غلط اندازے تھے، آپ نے پاکستانی کی زندگی کو باہر کے تناظر میں دیکھا اور اکیلے ایسے شہر میں بچوں کے ساتھ بسنے کی کوشش کی جہاں آپ کا کوئی جاننے والا نہیں تھا، اگر میکا پاس ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ صورتحال مختلف ہوتی۔
Salazar Aug 24, 2021 02:22am
Mai nai paisay jama kar kai Playstation 2 liya magar 6 maheenai baad baichna para. $200 ka liya tha $30 ka baich diya. Baichnai kai baad roya lekin phir socha kia Playstation meray liye roye ga? Nahin. Uus din kai baad sai khabi kisi maadi shai ko lose karnai ka ghum nahin hua.
جواد Aug 24, 2021 06:10am
کسی سیانے نے کہا ہے کہ خاندان کے افراد تمھارے بال و پر ہوتے ہیں، جو تمھیں پرواز میں مدد کرتے ہیں.
Rana Aug 24, 2021 08:15am
It is very unfortunate that pakistani men don’t have their own mind. I have seen several times that they make the decision on their own or go with the decision of their father, mother or siblings. Unlike western man who always ask their wives when making any kind of decision. The simple solution for this is that pakistani women should not use her money to put any furniture or anything in home. And should buy a property under her name whether it is one bedroom. Atleast in this way they are not struggling all the time , and have their own place to retire.
پرویز اقبال Aug 27, 2021 12:05am
حرف به حرف سچ ھے