پاکستان کی معروف ماہرِ تعلیم اور اداکارہ دردانہ بٹ بھی رخصت ہوئیں۔ درد کا یہ موسم ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، ایک کے بعد ایک شخصیت ہم سے جدا ہو رہی ہے۔

کورونا کی وبا سے انتقال کرنے والی بے پناہ مشفق اداکارہ، دردانہ آپا اپنی زندگی میں بھی زندہ رہنے کے لیے کینسر جیسے موذی مرض سے نبرد آزما تھیں اور بڑے حوصلے کے ساتھ زندگی بسر کر رہی تھیں۔ انہوں نے 5 دہائیوں سے زیادہ عرصے تک ناظرین میں خوشیاں تقسیم کیں، شاید ان کی رحلت وہ پہلا موقع ہے جو چاہنے والوں کی آنکھوں میں آنسو لے آئی، وگرنہ وہ ہمیشہ مسکراہٹ اور خوشیاں ہی تقسیم کرتی رہیں۔ دردانہ آپا جاچکی ہیں، درد کی لُو مزید تیز ہوگئی ہے۔

دردانہ آپا کی ذات روحانیت کے جذبے سے بھی سرشار تھی۔ ان کی زندگی میں روحانیت کی کھڑکی تب کھلی، جب وہ اپنی شادی کے کچھ عرصے بعد ہی بیوہ ہوگئیں۔ ان کی شادی 1960ء کی دہائی میں ہوئی تھی۔ انہوں نے دوبارہ کبھی شادی کا نہ سوچا، ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، مگر اپنی بہن کے بچوں سمیت، سارے زمانے کے بچوں کو اپنا بیٹا اور بیٹی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں، اس قدر مادرانہ شفقت، جس کی کوئی حد نہ تھی۔

انہوں نے سرطان جیسے مرض کو بھی خدا کی رضا سمجھ کر اور اس پر راضی ہوکر جھیلا، کسی تکلیف پر کبھی اُف تک نہ کی۔ کس قدر حیران کن شخصیت ہے ان کی، جس قدر غور کرتے جائیں، حیرانی کے در منکشف ہوتے جاتے ہیں۔ وہ ایک فنکار سے کہیں زیادہ صوفی منش انسان تھیں۔

دردانہ آپا کی ذات روحانیت کے جذبے سے بھی سرشار تھی
دردانہ آپا کی ذات روحانیت کے جذبے سے بھی سرشار تھی

دردانہ آپا نے نے 5 دہائیوں سے زیادہ عرصے تک ناظرین میں خوشیاں تقسیم کیں
دردانہ آپا نے نے 5 دہائیوں سے زیادہ عرصے تک ناظرین میں خوشیاں تقسیم کیں

دردانہ آپا کے فنی سفر پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو ابتدائی نقوش ان کی طالب علمی کی زندگی سے ہی ملتے ہیں۔ 1938ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ کم عمری میں پاکستان بنتے دیکھا، مگر یادداشت میں وہ یادیں دھندلیں اور غیر واضح تھیں۔ اسکول کے بعد کالج کی زندگی کے نقوش ان کی گفتگو میں واضح طور پر دکھائی دیتے تھے۔ لاہور کے مشہور زمانہ ’کینئرڈ کالج‘ سے گریجویشن کیا۔ وہیں سے ان کے اندر کی فنکارہ حقیقی معنوں میں دریافت ہوئی۔

بچپن سے شوخ اور شرارتی طبیعت کی وجہ سے توجہ کھیلوں کی طرف مبذول تھی، ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ان کے والد بھی کھیلوں سے بے پناہ شغف رکھتے تھے۔ دردانہ آپا ان سے جذباتی طور پر قریب تھیں، اس لیے ان کا دھیان کھیلوں کی طرف تھا، لیکن کالج کے زمانے میں ان کو ایسے مواقع ملے جنہوں نے ان کو بطور فنکارہ سامنے لانے میں معاونت فراہم کی۔

انہوں نے باقاعدگی سے تھیٹر ناٹکوں میں کام کرتے ہوئے کالج میں ہی طالب علم کی حیثیت سے اپنی منفرد شناخت بنائی۔ یہ پہچان ہی ان کا اصل جنون ثابت ہوا، جس سے یہ زندگی بھر جُڑی رہیں۔ مگر کاروبارِ زندگی چلانے کے لیے تعلیم کے شعبے کو پیشہ ورانہ طور پر اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ یہ ان کا خاندانی پیشہ تھا۔ اس طرح انہوں نے اپنے شوق اور پیشے کو متوازی رکھا۔

کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک گئیں۔ اسپین کی ’یونیورسٹی آف ٹولیڈو‘ سے ’ایجوکیشنل ایڈمسٹریشن‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ وطن واپسی پر ایک طرف اپنا تعلیمی کیریئر جاری رکھا اور دوسری طرف اداکاری کے شعبے سے بھی مزید جڑتی چلی گئیں۔

1967ء میں پہلی مرتبہ پاکستان ٹیلی ویژن پر کام کرنے کا موقع ملا۔ اس عرصے میں تھوڑا تھوڑا کام کرتی رہیں، مگر ان کو زیادہ پذیرائی تب ملی، جب 1978ء میں ’ففٹی ففٹی‘ اور 1980ء میں ’آنگن ٹیڑھا‘ میں کام کیا، چونکہ ان کی اداکاری مزاح پر مبنی ہوا کرتی تھی، اس لیے یہ موڑ ان کے فنی کیریئر میں کامیاب ثابت ہوا۔ 1985ء میں پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے مقبول ترین ڈرامے ’تنہائیاں‘ سے عالمگیر مقبولیت حاصل کرلی۔

دردانہ آپا نے تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم تینوں میڈیم میں کام کیا، جہاں ایک طرف ان کو فلم میں منور ظریف جیسے منجھے ہوئے اداکار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، وہیں ٹیلی وژن پر انہوں نے انور مقصود اور حسینہ معین کے لکھے ہوئے کھیلوں میں اہم کردار نبھائے۔ معین اختر، شکیل، سلیم ناصر، مرینہ خان، شہناز شیخ اور دیگر بڑے بڑے فنکاروں کے ساتھ جم کر کام کیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

پاکستان ٹیلی وژن کے کلاسیکی ڈراموں کے ساتھ ساتھ، عہدِ حاضر کے کمرشل ڈراموں اور فلموں میں بھی کام کیا۔ ان کے فنی کیریئر کی دستیاب کردہ ترتیب درج ذیل ہے۔

۔ ففٹی ففٹی 1978ء

۔ آنگن ٹیڑھا 1980ء

۔ نوکر کے آگے چاکر 1982 ء

۔ تنہائیاں 1985ء

۔ رانی 2008ء

۔ چھوٹی سی کہانی 2011ء

۔ ڈگڈی 2011ء

۔ میرا نصیب2011ء

۔ محبت روٹھ جائے تو 2011ء

۔ پھر چاند پہ دستک2011ء

۔ تنہائیاں نئے سلسلے 2012ء

۔ انتظار 2016ء

۔ میرے چھوٹے میاں 2017ء

۔ تھوڑی سی وفا 2017ء

۔ بیگانگی 2017ء

۔ رانی نوکرانی 2017ء

۔ رسوائی 2019ء

یہ ان ڈراموں کی نامکمل فہرست ہے جن میں انہوں نے کام کیا، اس کے ساتھ ساتھ وہ عہدِ حاضر کی چند نمایاں فلموں میں بھی دکھائی دیں، جن میں پرے ہٹ لو، دل دیاں گلاں، بالو ماہی، عشق پوزیٹیو اور ہجرت شامل ہیں۔

انہوں نے زندگی کے آخری برسوں تک کام کیا، ان کی خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے ان کو سرکاری اعزاز سے بھی نوازا لیکن ناظرین کی محبت اور زمانے نے ان کو جو احترام دیا، وہ سب سے بڑا اعزاز ہے۔

انہوں نے ایک موقع پر کہا ’جب کوئی فنکار اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے، تو سب لوگ اس کو یاد کرکے اداس ہوتے ہیں، جانے والے کو یاد کرنا چاہیے مگر اس کو یاد کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اس کے لیے قرآن خوانی کی جائے، تاکہ اس کی روح کو ایصال ثواب پہنچے اور وہ آسانیاں پائے۔ پیچھے رہ جانے والے فنکاروں کو بھی چاہیے کہ وہ رحلت پانے والے فنکار کے لیے ایسا کچھ اہتمام کریں‘۔

دردانہ آپا نے اپنی زندگی میں فنکاروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کوششیں کیں، وہ انسان دوست فنکارہ تھیں، جس زندہ دلی سے انہوں نے زندگی گزاری، وہ اپنی مثال آپ ہے، اور پھر جس طرح بہادری سے موت کا سامنا کیا، کینسر سے دو بدو رہیں وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ بے شک وہ ایک شاندار روایات کی حامل تہذیب یافتہ فنکارہ تھیں۔ خدا ان کی مغفرت کرے، آمین۔

لیکن اس موقع پر ہمیں انہیں ویسے ہی یاد کرنا چاہیے جس طرح وہ چاہتی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں