اسلام آباد، کابل اور دہلی کے درمیان 2 دہائی کے لگ بھگ جو کشیدگی، محاذ آرائی بلکہ 'جنگ' تک کی نوبت آئی اس کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ تینوں ملکوں کے درمیان جو لاکھوں منقسم خاندان ہیں وہ اپنے عزیزوں اور پیاروں سے ملنے کے لیے برسوں سے تڑپ رہے ہیں۔

80ء کی دہائی کے آخر بلکہ 90ء کی دہائی میں صرف کراچی کے انڈین قونصلیٹ سے روزانہ ایک ہزار ویزے جاری ہوتے تھے، ہفتے میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی 2 فلائٹیں کراچی اور لاہور سے دہلی جاتی تھیں، رہا چمن اور طورخم کا بارڈر تو یہ پورس بارڈر کہلاتا ہے۔

ایک ہزار 260 کلومیٹر طویل کتنی ہی باڑیں رکاوٹیں لگا لیں، دونوں جانب کے قبائلیوں اور پشتونوں کی آمد و رفت روکی نہیں جاسکتی۔ اس وقت بھی کم و بیش 30، 40 ہزار دونوں طرف کے پشتونوں بلکہ ہزاروں ٹرکوں کی آمد و رفت جاری ہے۔ یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ جولائی 1989ء میں جو پی آئی اے سے دہلی اور پھر آریانہ ایئر لائن سے صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ کابل گیا تھا اور جس کی روداد میں نے گزشتہ بلاگ میں لکھی اس پر ایک بڑی تعداد نے حیرت اور شک و شبہات کا بھی اظہار کیا۔

مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جغرافیائی ہی نہیں تاریخی، ثقافتی اور خونی رشتوں کے حوالے سے یہ ممکن ہی نہیں کہ ان 3 پڑوسی ملکوں کے کروڑوں عوام کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کوئی 'آئرن وال' کھڑی کی جاسکے کہ خونی رشتوں اور پڑوسیوں کو بدلنا آپ کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے ہماری میڈیا کی موجودہ پیڑھی تمام تر جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کے باوجود یہ تصور بھی نہیں کرسکتی کہ ان ملکوں کی فرسٹ ہینڈ رپورٹنگ کے لیے کوشش کی جائے۔

1979ء میں کابل کے مرکزی علاقے کا منظر—کری ایٹو کامنز
1979ء میں کابل کے مرکزی علاقے کا منظر—کری ایٹو کامنز

دلی سے آریانہ ایئر لائن کی پرواز کا مقررہ وقت صبح 7 بجے کا تھا یوں ہمیں دلی کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھنے کا موقع مل گیا۔ نکھرے نکھرے دھلے دھلائے دہلی کو ہم الوداع کہہ رہے تھے۔

ہمارا خیال تھا کہ آریانہ ایئر لائن کی پرواز سے کابل جانے والے صرف ہم صحافی ہوں گے یا چند غیر ملکی اور سکھ کیونکہ سنا تھا کہ کابل سے تو جہاز بھر بھر کے دہلی آرہے ہیں مگر دہلی سے کابل جانے والے جہاز میں اِکا دُکا مسافر ہوتے ہیں۔ مگر جب ہم روانگی کے لیے رن وے پر پہنچے تو ایک لمبی قطار لگی تھی اور تقریباً ڈیڑھ سو مسافر ہمارے ہمسفر تھے، جن میں زیادہ تر افغانی تھے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ تھے۔

کابل کی فضاؤں میں پہنچتے ہی ذہن میں سوالات کا ایک ہجوم جمع ہوچکا تھا۔ مغربی اور پاکستانی اخبارات و جرائد افغانستان سے 15 فروری کو روسی افواج کی واپسی کے بعد سے مسلسل یہ خبریں اور رپورٹس شائع کررہے تھے کہ 'کابل' کا سقوط بس ہوا ہی چاہتا ہے۔ کابل ایئرپورٹ کے تباہ ہونے کی خبریں بھی ہم بے شمار بار پڑھ چکے تھے اور پھر 2 بار فضا میں کابل شہر کا چکر لگا کر آریانہ ایئر لائن کا جہاز رن وے پر دوڑ رہا تھا۔ ہمارے میزبان جرنلسٹ یونین آف افغانستان کے ڈپٹی چیئرمین اور ان کے دیگر ساتھی ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔

5 گاڑیوں پر مشتمل ہمارا قافلہ آہستہ آہستہ ایئرپورٹ کی حدود سے نکل کر شہر میں داخل ہورہا تھا۔ تجسس اور حیرت کے ملے جُلے تاثر سے ہماری آنکھیں ایک ہی نظر میں سب کچھ جاننے کی متلاشی تھیں، مگر گزشتہ 10 برسوں میں کابل پر جو بیتی تھی اسے ایک نظر میں ایک دن میں یا ایک ہفتے میں جاننا اتنا آسان نہیں تھا۔

مجھے سب کچھ مانوس لگ رہا تھا کیونکہ انہی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر 11 سال قبل میں نے 10 دن سفر کیا تھا۔ اب ہم گل خانہ کے سامنے سے گزر رہے تھے جہاں میں نے صدر نور محمد ترہ کئی سے انٹرویو کیا تھا، جنہیں حفیظ اللہ امین نے انتہائی سفاکی سے قتل کیا اور پھر بیرک کارمل کے ہاتھوں ایسی ہی سفاکی سے وہ بھی قتل ہوئے مگر بیرک کارمل کی جگہ ڈاکٹر نجیب اللہ کو اقتدار کی منتقلی مخصوص اشتراکی نظام کے مطابق ہوئی۔

گاڑیوں کا قافلہ شہر نو میں داخل ہورہا تھا۔ ’10 سال قبل یہاں بڑی رونق اور گہما گہمی ہوا کرتی تھی‘، میرے ساتھ بیٹھے ایک افغان صحافی ہمیں بتا رہے تھے۔ ’بڑے بڑے تاجروں اور دکانداروں کی ایک بڑی تعداد ثور انقلاب کے چند سال بعد یہاں سے چلی گئی، کچھ سال پہلے تو شہر نو بالکل ہی اُجڑ گیا تھا مگر اب آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ شہر نو میں زندگی کے اثرات پھر سے بیدار ہورہے ہیں۔ لوگوں میں اعتماد بحال ہورہا ہے۔ اگرچہ واپس آنے والوں کی رفتار بہت تیز نہیں مگر ان میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ 'بلائنڈ راکٹ' اب بھی ہر 2 دن بعد گرتے ہیں اور چند معصوموں کی جان لے لیتے ہیں مگر اب یہ ہمارے معمولات کا حصہ ہیں‘۔

گاڑیوں کا قافلہ اب انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں داخل ہورہا تھا جہاں ہمیں آئندہ 5 روز قیام کرنا تھا۔ کراچی کے انٹرکانٹینینٹل کی طرح ہماری نگاہیں اِدھر اُدھر صنفِ نازک کو تلاش کررہی تھیں مگر چہار جانب سنجیدہ ستے ہوئے چہرے حالتِ جنگ کی کہانی سنارہے تھے۔ دوپہر کا کھانا کھاتے ہی ہماری پہلی ملاقات میزبانوں سے ہوتی ہے۔

انٹرکانٹینینٹل ہوٹل کابل—کری ایٹو کامنز
انٹرکانٹینینٹل ہوٹل کابل—کری ایٹو کامنز

کراچی پریس کلب کے طرز کی 2 منزلہ سادہ سی عمارت کے مرکزی دروازے میں جرنلسٹ یونین آف افغانستان کے چیئرمین پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے پولٹ بیورو کے رکن اور افغانستان کے ممتاز صحافی اور شاعر بارق شفیع بڑے پُرجوش انداز میں ہمارا استقبال کرتے ہیں۔

افغانستان میں ایک خاص بات دیکھنے میں آئی کہ عموماً تمام وزرائے اعلیٰ، حکام اور صحافی انگریزی زبان جانتے ہوئے بھی گفتگو مترجم کے ذریعے ہی کرتے ہیں۔ اپنے قومی تشخص کے اظہار کا مجھے یہ ایک خوبصورت انداز لگا۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ آپس میں بھی انگریزی میں گفتگو کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔

بارق شفیع ایک کاغذ پر لکھے ہوئے نوٹ کو پڑھتے ہوئے ہمیں بتاتے ہیں کہ ’گزشتہ 24 گھنٹے کے اندر وائس آف امریکا نے 6 گھنٹے، بی بی سی نے 3 گھنٹے، سعودی عرب نے 3 گھنٹے اور قاہرہ نے 4 گھنٹے ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا، یوں 24 گھنٹے میں مجموعی طور پر ساڑھے 34 گھنٹے ابلاغ کے ان اداروں نے ہم پر بمباری کی‘۔

بارق شفیع بڑی دردمندی سے کہہ رہے تھے کہ ’ہم جنگ سے تھک چکے ہیں۔ اس جنگ نے ہمارے گھر تباہ کیے، ہماری بہنوں کا سہاگ اجاڑا، ہمارے بچوں کو یتیم کیا، میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان چاہے تو یہ جنگ دوسرے دن ختم ہوسکتی ہے‘۔ انہوں نے پاکستانی صحافیوں سے درخواست کی کہ وہ یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جائیں گے بلکہ اپنے ساتھ امن، محبت، دوستی کا پیغام لے کر جائیں گے۔

پاکستانی صحافیوں کے وفد کی جانب سے جناب منہاج برنا نے کہا کہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ پہلی بار 13 پاکستانی صحافی افغانستان آئے ہیں، اس کے یقیناً مثبت نتائج نکلیں گے۔

پریس سینٹر سے جب ہم نکلتے ہیں تو اندھیرا ہوجاتا ہے۔ دہلی سے ہم نے اپنے سفر کا آغاز 4 صبح بجے کیا تھا۔ ہم مسلسل 16 گھنٹے سے سفر میں تھے مگر دیکھنے اور جاننے کا تجسس اتنا تھا کہ تھکن کا احساس ہی نہیں ہورہا تھا۔ انٹر کانٹینینٹل میں ڈنر ہمارا انتظار کررہا ہوتا ہے۔

ڈنر کے بعد ہمارے میزبانوں نے موسیقی کا پروگرام بھی رکھا ہوا تھا۔ استاد رحیم بخش افغانستان کے بڑے مقبول گلوکار ہیں، کلاسیکل موسیقی پر بھی انہیں بڑا عبور ہے،۔ہماری وجہ سے زیادہ تر انہوں نے اردو ہی میں غزلیں اور گیت سنائے اور اختتام لال میری پت رکھیو پر ہوا۔

استاد رحیم بخش
استاد رحیم بخش

یہاں اہم بات یہ ہے کہ جس لمحے میں اپنے دوسرے سفر سے متعلق یادداشتوں کو لکھ رہا ہوں، طالبان ایک بار پھر کابل کے تخت پر براجمان ہوچکے ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ ماضی میں دو مرتبہ وہ پہلے بھی اقتدار میں آچکے ہیں، اس لیے کوشش ہوگی کہ اگلی تحریر میں طالبان کے پچھلے دورِ اقتدار سے متعلق یادوں کو آپ کے سامنے پیش کرسکوں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Polaris Aug 29, 2021 11:58pm
بڑی اچھی درخواست کی تھی آپ سے انہوں نے پاکستانی صحافیوں سے درخواست کی کہ وہ یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جائیں گے بلکہ اپنے ساتھ امن، محبت، دوستی کا پیغام لے کر جائیں گے۔