آتش گیر غباروں، سرحدی جھڑپوں کے بعد اسرائیل کی غزہ پر بمباری

اپ ڈیٹ 30 اگست 2021
محکمہ صحت فلسطین کے مطابق جھڑپوں میں 11 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں—اے ایف پی
محکمہ صحت فلسطین کے مطابق جھڑپوں میں 11 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں—اے ایف پی

اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ کے شہریوں کی سرحد پر فورسز کے ساتھ جھڑپ اور جنوبی اسرائیل میں آتش گیر غبارے پھینکے جانے کے بعد اسرائیلی فضائیہ نے غزہ میں 2 مقامات پر حملہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ جھڑپوں میں ایسے وقت میں اضافہ ہوا کہ جب اسرائیل اور مصر، غزہ کی پٹی پر تجارتی اور سفری پابندیوں میں نرمی کررہے ہیں، سال 2007 میں اسلامی تحریک حماس کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے دونوں ممالک کی جانب سے بڑی حد تک اس پٹی کا رابطہ منقطع کردیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ 'لڑاکا طیاروں نے حماس کے فوجی کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا جو ہتھیار بنانے اور تربیت کے لیے استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ جبالیا سے منسلک ایک دہشت گرد سرنگ کا داخلی مقام تھا'۔

انہوں نے اپنے بیان میں الزام عائد کیا کہ حملے حماس کی جانب سے اسرائیل کی سرزمین پر آتش گیر غبارے پھینکنے اور گزشتہ روز ہونے والے پُر تشدد فسادات کے جواب میں کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: 'جھڑپوں' کو روکنے کیلئے اسرائیل اور حماس جنگ بندی پر متفق

اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کی پٹی سے کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

اسرائیلی فائر فائٹرز کا کہنا تھا کہ ہفتے کی شام کو فلسطین کے محصور علاقے کے قریب اشکول ریجن میں دو جگہ آگ بھڑک اٹھی تھی۔

ایک رپورٹر نے بتایا کہ دن کے اختتام پر احتجاج شرو ع ہوا، فلسطینیوں نے غزہ اور اسرائیل کی سرحد کے درمیان ٹائر جلائے جبکہ اسرائیلی فوج نے آنسو گیس اور اسٹن گرینیڈ فائر کیے۔

وزارت صحت غزہ کا کہنا تھا کہ جھڑپوں میں 11 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں جن میں تین جھلس کر زخمی ہوئے۔

مزید پڑھیں:اقوام متحدہ کا اسرائیل پر فلسطینیوں کی جبری بےدخلی روکنے پر زور

احتجاج سے چند گھنٹوں پہلے غزہ کے شہریوں نے ایک ہفتے قبل سرحد پر تصادم کے دوران اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہوکر جاں بحق ہونے والے 12 سالہ عمر حسن ابو النائل کو سپرد خاک کیا تھا۔

غزہ کے شہریوں کی جانب سے 2018 میں احتجاج کی تحریک شروع کی گئی تھی جن کا مطالبہ یہ تھا کہ اسرائیلی محاصرہ ختم کیا جائے اور 1948 میں یہودی ریاست قائم ہونے کے بعد نکالے گئے فلسطینیوں کو ان کی آبائی زمینوں پر واپسی کا حق دیا جائے۔

حماس کی حمایت سے ہر ہفتے ہونے والے زیادہ تر پرشدد احتجاج میں اس وقت تیزی آئی جب اسرائیل نے ایک سال سے زائد کے عرصے میں ساڑھے 3 سو فلسطینیوں کو قتل کردیا۔

خیال رہے کہ رواں برس مئی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان 11روز تک تباہ کن تصادم جاری رہا جو کئی برسوں میں دونوں کے درمیان ہونے والا بدترین تصادم تھا اور غیر رسمی جنگ بندی پر اختتام پذیر ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے فلسطینی نوجوان جاں بحق

جس کے بعد کئی ماہ تک غزہ سے آتش گیر غبارے پھینکے جاتے رہے اور اسرائیل اس کا الزام حماس پر لگاتا ہے۔

اسی دوران اسرائیل کی جانب سے شہریوں کی زندگی اور تجارت پر عائد کردہ پابندیاں نرم کی جاتی رہیں جو اس نے حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد 2007 سے اس خطے میں عائد کر رکھی ہیں۔

مصر نے جمعرات کو غزہ میں داخل ہونے کے لیے جزوی طور پر رفح کراسنگ کھولی تھی جسے اتوار کے روز دوبارہ کھولا گیا تا کہ فلسطینی نکل سکیں۔

رفح، غزہ سے باہر دنیا بھر میں جانے کا واحد رستہ ہے جو اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں ہے یہ پیر کو مصر کی جانب سے بند کردیا گیا تھا۔

مصر نے اس اقدام کی کوئی وجہ نہیں بتائی لیکن فلسطین ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیلی سرحد پر تشدد میں اضافے کی وجہ سے کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں