حکومتی قرض دو سال میں 22 فیصد بڑھ کر 38 ہزار 700 ارب روپے ہوگیا

اپ ڈیٹ 31 اگست 2021
وفاقی حکومت کے اندرونی قرضے میں گزشتہ دو سال کے دوران 26.7 فیصد اضافہ ہوا — فائل فوٹو / اے ایف پی
وفاقی حکومت کے اندرونی قرضے میں گزشتہ دو سال کے دوران 26.7 فیصد اضافہ ہوا — فائل فوٹو / اے ایف پی

وفاقی حکومت کے مجموعی قرضوں میں گزشتہ دو سال کے دوران 21.7 فیصد یعنی 38 ہزار 700 ارب روپے کا اضافہ ہوا جس میں بڑا اضافہ مقامی قرضوں میں ہوا۔

اسٹیٹ بینک سے جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند سالوں کے دوران حکومت کے اندرونی اور بیرونی قرضے مالی سال 2019 کے 31 ہزار 780 ارب روپے کے مقابلے میں مالی سال 2021 کے اختتام پر 38 ہزار 690 ارب روپے رہے۔

مالی سال 2020 میں یہ قرضے 35 ہزار 100 ارب روپے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بیرونی قرضے (روپوں میں) میں زیادہ فرق نہیں آیا اور مالی سال 2019 میں 11 ہزار 55 ارب روپے کے مقابلے میں 12 ہزار 420 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

تاہم حکومت کے بیرونی قرضوں میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے حاصل کردہ قرض اور زرمبادلہ کے واجبات شامل نہیں ہیں۔

وفاقی حکومت کے اندرونی قرضے میں گزشتہ دو سال کے دوران 26.7 فیصد اضافہ ہوا جس سے ڈیٹ سروسنگ کے بڑھتے ہوئے حجم کو برداشت کرنا مزید مشکل ہوگیا ہے، جس میں ملک کے سالانہ بجٹ کا ایک تہائی حصہ ختم ہوجاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 2021: 11 ماہ میں حکومتی قرض اور واجبات میں 12 فیصد اضافہ

اسٹیٹ بینک کے مطابق اندرونی قرضے میں بیرونی قرض کے مقابلے میں کئی گنا تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

بیرونی قرضے میں اضافے کی رفتار میں کمی مالی سال 2021 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 0.6 فیصد یعنی بہت کم رہنے کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔

مالی سال 2021 کے اختتام پر وفاقی حکومت کا اندرونی قرضہ 12.8 فیصد اضافے سے 26 ہزار 265 ارب روپے پر پہنچ گیا جو مالی سال 2020 میں 23 ہزار 282 ارب روپے تھا۔

گزشتہ دو سالوں کے دوران اندرونی قرضوں میں 5 ہزار 533 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

اندرونی قرضوں میں طویل مدتی قرضہ مالی سال 2021 میں بڑھ کر 19 ہزار 556 ارب روپے ہوگیا، جو مالی سال 2020 میں 17 ہزار 700 ارب روپے تھا۔

حکومت نے طویل مدتی اندرونی قرض زیادہ تر پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز (پی آئی بیز) پر انحصار کیا جو مالی سال 2021 کے اختتام میں بڑھ کر 14 ہزار 590 ارب روپے ہوگیا۔

غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی پی آئی پیز جیسے مقامی بانڈز اور ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی ہے جس کے باعث سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا جبکہ حکومت نے مالی فرق کو پورا کرنے کے لیے اسے قرض حاصل کرنے کا آسان راستہ سمجھا۔

ملک کا قرض اور جی ڈی پی کا تناسب 60 فیصد کی حد سے بہت زیادہ ہے اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ موجودہ تناسب جی ڈی پی کا 78 فیصد ہے۔

مزید پڑھیں: حکومتی قرض 11 فیصد اضافے کے بعد 365 کھرب سے بڑھ گیا

اس بڑھتے ہوئے قرض کا سب سے خوفناک حصہ ادائیگیوں کے حجم میں اضافہ ہے جس میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پلان کا بڑا حصہ خرچ ہوجاتا ہے اور ملک سرمایہ کاری اور ترقی سے محروم رہتا ہے۔

اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ایک سال میں بیرونی قرضے میں 8.2 فیصد اضافہ ہوا لیکن ڈیٹ سروسنگ میں مالی سال 2021 میں کمی آئی۔

اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2021 کے اختتام تک بیرونی قرضہ 7.232 ارب ڈالر بڑھ کر 95.117 ارب ڈالر ہوگیا تھا۔

تاہم بیرونی ڈیٹ سروسنگ مالی سال 2021 میں 1.154 ارب ڈالر کم ہو کر 13.242 ارب ڈالر رہ گئی، ڈیٹ سروسنگ میں یہ کمی مالی سال 2021 میں کئی بیرونی اکاؤنٹس میں ادائیگیاں نہ ہونے کے باعث ہوئیں۔

کورونا وائرس کی وبا کے بعد ڈونر ممالک اور تنظیموں نے کچھ ادائیگیاں مؤخر کردیں۔

حکومت کو مالی سال 2022 میں ادائیگیوں کے لیے تقریباً 20 ارب ڈالر درکار ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں