بچے پالنا، ان کی تربیت کرنا میری زندگی کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک تھا کیونکہ میں اس حوالے سے مکمل طور پر لاعلم تھی۔ جب جو آپ کی سمجھ میں آئے، جو آپ سے بے ساختہ ہو، عادت سے مجبور ہوکر ہو اور آپ کرتے چلے جائیں تو کچھ بھی مشکل نہیں لگتا۔

مشکل تو تب ہوجاتی ہے جب عادت کسی اور چیز کی ہو، بے ساختگی اور فطرت کے ہاتھوں مجبوری کچھ اور کروائے جبکہ عقل، شعور اور تعلیم کے تقاضے کچھ اور ہوں۔ جو آپ کو بتایا اور سمجھایا جارہا ہو کہ فلاں صحیح راستہ ہے لیکن آپ فطری اور جبلتی طور پر اس کے مخالف چلنے پر مجبور ہوں حالانکہ یہ جانتے ہوں کہ صحیح راستہ کوئی اور ہے۔

تو میں جانتی تھی صحیح راستہ کوئی اور ہے مگر اس راستے تک پہنچ نہ پاتی تھی کہ میرے پاس ادھورا علم تھا، ایسا علم جو میرے آس پاس کے معاشرے کے لوگوں اور خاندانوں میں برتا ہی نہ گیا ہو، جسے میں نے زندگی میں کبھی سہہ کر یا چُھو کر دیکھا ہی نہ ہو اور میں اس کی جزیات، اس کے مینول اور اس میں درپیش مشکلات سے نمٹنے کے طریقے سے لاعلم تھی۔

میں کبھی وہ نہ کرسکی جس کا میرا علم تقاضا کرتا تھا۔ میں ہمیشہ اسی اور بہتی رہی جہاں میرا زندگی سے کشید کیا تجربہ اور عادتوں کی مجبوری مجھے دھکیل کر لے جاتی رہی، سو میں کامیاب نہ ہوسکی۔ جہاں سے میں اپنی زندگی کو دیکھتی ہوں، میں شاید اس مشکل امتحان میں بہت کم نمبروں سے پاس ہوتی ہوں۔

مزید پڑھیے: ماں بنی تو ماں کی قدر نہ کرنے کا پچھتاوا ستانے لگا

بچوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کس طرح سے حل کرنے ہیں، تھکی ہوئی، کام میں پھنسی ہوئی حالت میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو کس طرح سننا ہے، چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو کیسے درگزر کرنا ہے، میرے لیے یہ سب الجبرا سے بھی مشکل کام ثابت ہو رہا تھا۔

کیسے کیا جائے؟ آخر کیسے؟ میرے لیے بچوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم نکالنے کی مسٹری آج تک حل نہ ہوسکی۔ میں نے جب بھی خود کو بچوں میں جاکر بٹھایا تو خود کو گمشدہ پایا۔ کبھی گھر کی صفائی میں، کبھی گندے برتنوں کی دھلائی میں اور کبھی اپنی نفسیاتی اور جذباتی الجھنوں میں خود کو جکڑا پایا۔

اس کے باوجود کہ میں کم سے کم بھی ایک دہائی دن اور رات بچوں کے قریب رہی، اپنے ہی ہاتھوں سے بچوں کو دھویا نہلایا، سنوارا اور کھلایا، مگر کیا میں نے ان کو کوالٹی ٹائم دیا؟ نہ مجھے آج تک یہ سمجھ آئی کہ یہ کوالٹی ٹائم کس بلا کا نام ہے، کیسے دیا جاتا ہے اور اس کے لیے کیسے کوشش کی جاتی ہے؟ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر میں اکثر کھیل نہیں سکی، ان سے میں آج تک دوستی نہ کرسکی۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر آج تک کارٹون نہ دیکھ سکی۔ کیوں؟

میرے لیے بچوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم نکالنے کی مسٹری آج تک حل نہ ہوسکی—تصویر: Ivaccinate.org
میرے لیے بچوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم نکالنے کی مسٹری آج تک حل نہ ہوسکی—تصویر: Ivaccinate.org

اگر ہم اپنے ماحول میں اور اپنے ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہمیں کہیں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی جب ہمیں یا دوسرے بچوں کو کوالٹی ٹائم ملتا ہو۔ یہ حسرت نہیں، یہ اس علم سے محرومی کا شکوہ ہے جو اگر آس پاس سے کہیں سے ماخوذ ہوسکے تو اس پر عمل کرنے اور دہرانے میں آسانی ہوتی ہے۔

بچوں کی ضد اور ان کی جانب سے شور مچانے پر کس طرح سے ردِعمل ظاہر کرنا ہے؟ ہم نے عملی زندگی میں صرف ایک چیز دیکھی کہ بچہ تنگ کرے یا شور کرے تو اسے ڈانٹ کر بھگا دو، اسے شٹ اپ کال دو اور بس۔

کتابی علم کہتا ہے کہ بچوں کی سنو، ان کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرو، لیکن کیسے اس سے متعلق کتابیں خاموش ہیں، خصوصاً یہ کہ کیسے گھریلو مسائل میں پھنسی عورت جو ایک ماں ہے، کاموں میں تھکی اور الجھی ہوئی بیوی ہے، پورے گھرانے کی تابعدار بہو ہے، جسے کبھی وقت پر ڈھنگ سے کھانے کا وقت نہ ملتا ہو، جو کبھی وقت پر نہانے دھونے کی مہلت نہ نکال پاتی ہو، جس کی ہر جسمانی، نفسیاتی اور اخلاقی ضرورت ہر وقت سو طرح کے سمجھوتوں سے گزر رہی ہو وہ کس طرح سے کتاب کی پڑھی ایک لائن پر اتنا عمل کرسکتی ہے کہ ہر کارفرما عنصر کو نظر انداز کرکے روتے ضد کرتے بچے کے الجھے مسائل پیار سے سلجھانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

یہ ترکیب کم از کم میں تو ساری عمر نہ ڈھونڈ سکی کیونکہ تجربے کی دنیا میں اس کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں تھا، ہاں یہ سوچا اور دیکھا تھا کہ روتے بچے کو ڈانٹ دو، ضد کرنے والے کو ایک لگا دو، سزا دے دو، سو ڈانٹتے رہے اور سزائیں دیتے رہے، یہاں تک کہ ہمارے بڑے بچے چھوٹوں کو ڈانٹنے اور سزا دینے لگے، پھر جانا کہ کیسا غلط انجام ہوا۔

پچھلے 50 سالوں میں پیدا ہونے والی نسلیں اتنی مظلوم تھیں کہ کبھی اپنے مہیا علم کے ساتھ فرصت سے زندگی نہ گزار سکیں۔ 60ء، اور 70ء کی دہائی سے شروع ہونے والے ٹی وی سے لے کر آج کے انٹرنیٹ کی معلومات سے بھرپور دنیا تک ہمیشہ ہمیں وہ کچھ دکھایا جاتا رہا جو ہماری زندگیوں کا حصہ نہ تھا۔ شفیق ناز اٹھاتے ماں باپ، تمیز دار بچے۔ جو ڈرامہ رائٹر کا خوبصورت تخیل جنم دیتا اور ڈائریکٹر کی مہارت اسے پردہ اسکرین پر ڈھال کر ہمارے دماغوں میں انڈیلتی رہی۔

ہر نیا آنے والا وقت ہمارے حال پر انگلی اٹھاتا رہا، ہمیں خود کو بدلنے پر اکساتا رہا یہاں تک کہ علم اور معلومات کا ذخیرہ ہوگیا اور اعمال کسی پولیو زدہ بچے کی طرح اسی قد کاٹھ کے رہ گئے، جو نہ پھل پھول سکے اور نہ کسی علم و شعور سے کچھ اخذ کرسکے۔ علم و عمل کی غیر متوازن صورتحال نے صرف بے چینی کو جنم دیا۔

ہم، جنہوں نے دراصل زندگی میں ایسے شفیق و نفیس ماں باپ نہ دیکھے ہوں، جو صاف استری زدہ کپڑوں سے ہر وقت صوفے پر بیٹھے ایک دوسرے سے اٹھکیلیاں کرتے ہوں یا ڈائننگ ٹیبل پر پچکارتے شریف تابعدار بچوں کے ناز اٹھاتے ہوں۔ پاکستان میں کتنے فیصد والدین زندگی، معاش اور خاندان کے مسائل سے اس قدر آزاد ہیں کہ بچوں کے ناز اس انداز میں اٹھا سکیں؟

پڑھیے: وہ مائیں جو باپ بھی ہیں

ہم سب نے تھوڑی یا زیادہ اپنی ماں یا اپنے باپ سے جھڑکیاں کھائی ہیں، ان سے ماریں کھائی ہیں، ہمیں گود سے نکال کر ایک مخصوص ڈسپلن میں رکھ کر پالا گیا ہے جہاں اختلاف کو نافذ کرنا تو دُور کی بات ہماری اکثریت سے اپنے اختلاف کا اظہار تک کرنا مشکل تھا۔

تو ان خوبصورت ترغیبات کے سائے میں ہم نے اپنی زندگیوں کو ان ترغیبات میں ڈھالنا شروع کیا۔ ہم نے جانے انجانے میں کہیں سوچا کہ ہم اپنی زندگیاں اس طرح سے بدلیں گے۔ ادھورے اور تخیلاتی راستوں پر چلتے ہم بھی وہیں پہنچے جہاں ادھورے خوابوں اور نامکمل علم کے پیچھے چلنے والوں کا حشر ہوتا ہے۔ منزل تک تو نہ پہنچے بلکہ تھکے ہارے کسی دوسری ہی انتہا پر جا نکلے۔

ہمارے امڈتے پیار نے بچوں کو ضدی اور خودسر بنا دیا، ہم نے بچوں کو پچکارتے پچکارتے زندگی کے اخلاق کبھی نہ سیکھنے دیے۔ ہم نے آپ جناب کرکے بچے کو رہنمائی دینے کے بجائے اسے گھر کا ڈکٹیٹر بنا دیا۔ ہم سے کبھی وہ بچے نہ بن سکے جو کھانے کی میز پر بیٹھے والدین کا احترام و عزت سے جی حضوری کرتے ہوں۔ ہم نے ڈرامہ نگاروں کے تخیلاتی پرواز کو ترغیبات کے طور پر لیا اور ان سے ادھورا علم اخذ کیا۔ ہم نے کبوتر بننے کی کوشش کی اور کوے بھی نہ بن سکے۔

آج جب ہم پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں تو ہماری نسلوں میں نہ احترام رہا، نہ آداب رہے، نہ تابعداری رہی نہ فرمانبرداری۔ گورے کا علم تو کہتا ہے بچوں کو اچھے خودمختار انسان بناؤ مگر کیا اپنے سے بڑی تجربہ کار نسل کی بات نہ سننے، نہ سمجھنے سے والدین کی تربیت اور رہنمائی سے صرف نظر کرنے سے انسان اچھا بن سکتا ہے؟ اس سے تو زندگی کے انتہائی بنیادی نظریات و اخلاقیات ہی بگڑ کر رہ جاتے ہیں وہاں ان سے اچھے انسان کیسے جنم لیں گے؟

کیا یہ گورے نے کہا تھا یا ہم ہی اپنے غلط مشاہدات و ادھورے علم کی بنا پر اسے دوسری انتہا تک دھکیلتے چلے گئے؟ شاید اس لیے کہ جو گورے نے کہا تھا وہ ہم تک بہت کم پہنچا۔ ہم نہ اس کی پوری بات سُن سکے اور نہ سمجھ سکے۔ ہم نے گوروں کے دیس کو نہ جانا، ان کے خاندانی اور معاشی نظام، رویے اور کردار نہ جانے۔ ہم نے محض اس کی چند باتیں سُنیں اور اسے اٹھا کر اپنے حالات و واقعات، اپنے نظام اور اخلاق و کردار پر ٹھونسنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری لٹیا پار نہ اتر سکی۔

ہم نے آپ جناب کرکے بچوں کو رہنمائی دینے کے بجائے ان کو گھروں کا ڈکٹیٹر بنا دیا
ہم نے آپ جناب کرکے بچوں کو رہنمائی دینے کے بجائے ان کو گھروں کا ڈکٹیٹر بنا دیا

ہماری پچھلی 50 سالہ نسلوں پر اس قدر غیر ضروری علم کا بوجھ تھا کہ تجربات کی بھٹی میں جتنی بُری طرح ہمیں پیسا گیا شاید ہی ٹیکنالوجی سے پہلے کے زمانے کا انساں پستا ہوگا۔ جہاں ہر وقت ایک نئی تھیوری ہمارے سامنے پیش کردی جاتی ہے جس کا ہمارے زمینی حقائق سے، ہمارے معاشرے سے اور ہمارے مسائل سے کسی بھی قسم کا نباہ ممکن نہیں۔ جہاں ہمیں ہر روز صبح شام ایک ایسا سبق پڑھایا جاتا ہے جو ہمارے ماضی، حال اور مستقبل سے مطابقت نہیں رکھتا اور ہمارے مسائل کا حل پیش نہیں کرتا مگر اس کے باوجود ہمیں محسوس کرکے اپنے پیچھے بند آنکھوں سے چلا لینے پر قادر ہے۔

ہم مایوسیوں اور مشکلات میں پھنس جانے کے لیے بے بس ہوچکے ہیں۔ ہمارے آس پاس کے تربیت دینے والے استاد ناپید ہوچکے ہیں۔ ہم مختلف علاقوں اور ماحول میں رہ کر دوسرے معاشروں کو سمجھے اور جانے بغیر ان کے رویے کاپی کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔

نتیجتاً ناکام رہتے ہیں۔ اب تک تو کچھ لوگ یہ علم لانے کے لیے خود دوسرے معاشرے میں چلے جاتے تھے لیکن آج کل ہر چیز گھر بیٹھے آن لائن آنے لگی ہے۔ چنانچہ آنے والی نسلوں کے لیے شاید مایوسیوں اور بے چینیوں کی شرح شاید ہم سے کئی گنا زیادہ ہو کہ اب تو سلیمانی شیشے میں ہر وہ چیز ہم اپنے کمرے میں بیٹھے دیکھ لیتے ہیں جو دراصل وجود ہی نہیں رکھتی۔ ایسے میں وہاں دستیاب علم کے سہارے پلنے والی نسلیں نہ جانے زندگی کے ہاتھوں کس قدر پریشان ہوں گی۔

تو ثابت یہ ہوا کہ خالی کتابی علم بھی انسانوں کو بدلنے کے لیے اس وقت تک ناکافی ہے جب تک وہ علم آپ کے حالات و واقعات اور معاشرے کے ساتھ مطابقت نہ رکھتا ہو۔ گوروں سے سیکھے ہوئے نسخے شاید ہمارے دیسی معاشروں کے لیے ناقابلِ عمل ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Asiya Anwaar Sep 13, 2021 03:55pm
بہت اچھا لکھا ہمیشہ میں نے مس کیا کہ میں اپنے بچوں کا بچپن ویسے celebrate نہیں کر سکی جیسا اسکا حق ہے یا میں چاہتی تھی اسکا ہمیشہ مجھے قلق رہا اور رہے گا. لیکن اب ہمیں اپنی اگلی نسل کے لیے آزادی کا اہتمام کرنا ہو گا تاکہ ان کے اندر ایسے احساس کمتری کا جنم نہ ہو
Khalid H. Khan Sep 13, 2021 06:19pm
اچھی تحریر لیکن موضوع کو بہت طویل کیا گیا ہے