جسٹس عائشہ کی سپریم کورٹ میں ترقی پر وکلا کا 9 ستمبر کو احتجاج کا اعلان

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2021
وکلا نے جسٹس عائشہ ملک کے تقرر کو سینیارٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا— فائل فوٹو:ڈان نیوز
وکلا نے جسٹس عائشہ ملک کے تقرر کو سینیارٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا— فائل فوٹو:ڈان نیوز

ملک بھر کے وکلا کی نمائندگی کرنے والی متعدد تنظیموں نے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک کے سپریم کورٹ میں تقرر کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانے لیے اپنے اراکین کو جمعرات (9 ستمبر) کو سپریم کورٹ کے سامنے کنوینشن میں بڑی تعداد میں شرکت کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کنوینشن ایسے وقت میں ہورہا ہے کہ جب جسٹس عائشہ کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کا اجلاس منعقد ہوگا۔

وکلا ان کی نامزدگی پر احتجاج کررہے ہیں کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ کی چوتھی سینئر جج ہیں اس لیے یہ اقدام یہ سینارٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

احتجاج کی اپیل پاکستان بار کونسل کے دفتر میں پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد بار کونسل، اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کے مشترکہ اجلاس میں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:بار کونسل کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی کی مخالفت

اجلاس میں آل پاکستان وکلا کنونشن کے انتظامات کو حتمی شکل دی گئی تھی۔

اجلاس میں قومی اسمبلی میں منظور ہونے والے لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973 ترمیمی بل کی مذمت کی گئی، جس میں دفعہ 5 ڈی شامل کی گئی ہے جو 'آئین کے بنیادی ڈھانچے' کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ 'پارلیمانی اصولوں اور جمہوری اصولوں کی سنگین خلاف ورزی' ہے۔

کمیٹی نے تمام 'دستیاب قانونی ذرائع' سے ترمیم کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں پی بی سی کی نمائندگی کرنے والے سینئر رکن اختر حسین نے ہائی کورٹ کے ججز کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کے لیے سینیارٹی اصولوں کو نظر انداز کرنے پر کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی شمولیت کے امکان پر ٹوئٹر صارفین کا اظہارِِ مسرت

اختر حسین نے دلیل دی کہ چونکہ ججز کے تقرر سے متعلق قواعد کسی بھی صوبے یا کسی خاص ہائی کورٹ میں کوٹہ منسوب کرنے پر خاموش ہیں، تو یہ ضروری نہیں تھا کہ سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے کسی خاص ہائی کورٹ سے ججوں کو منتخب کیا جائے۔

اختر حسین نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بجائے کسی بھی ہائی کورٹ سے جج کو منتخب کیا جاسکتا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کو سپریم کورٹ ترقی دی جاسکتی تھی کیوں کہ وہ ملک کے سب سے سینئر ہائی کورٹ جج ہیں۔

سپریم کورٹ میں ایک خاتون جج کی ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے اختر حسین نے حیرت کا اظہار کیا کہ جسٹس مسرت ہلالی جو پشاور ہائی کورٹ کی سینیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں ان کے نام پر غور کیوں نہیں کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں