'پنج شیر میں پاکستان کے طالبان کو مدد فراہم کرنے کے الزامات مضحکہ خیز ہیں'

اپ ڈیٹ 10 ستمبر 2021
معید یوسف نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو دیا —فائل فوٹو: اے ایف پی
معید یوسف نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو دیا —فائل فوٹو: اے ایف پی

مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے پنج شیر میں پاکستان کی جانب سے طالبان کو مدد فراہم کرنے کے الزامات مسترد کرتے ہوئے انہیں بھارت کے بنائے گئے ’جعلی نیوز نیٹ ورک‘ اور سابقہ افغان حکومت کے الزام سے منسلک کردیا۔

خیال رہے کہ طالبان کے پنج شیر پر قبضے کے بعد 7 ستمبر کو کابل میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے جس میں مظاہرین نے پاکستان کی مبینہ مداخلت کی مذمت کی تھی۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے پروگرام ’سی این این کنیکٹ دی ورلڈ‘ میں میزبان بیکی اینڈرسن نے افغانستان میں طالبان مخالف قوتوں اور ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے افغانستان میں ’غیر ملکی مداخلت کی مذمت کے بارے میں معید یوسف سے سوال کیا۔

یہ بھی پڑھیں:‘فیکٹ چیک’: امریکی طیارے کی تصویر دکھا کر پنج شیر میں پاکستانی طیارہ گرانے کا جھوٹا دعویٰ

شو کی میزبان نے پوچھا کہ پاکستانی فوج نے ڈرونز اور دیگر ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے پنج شیر میں طالبان کے مخالفین پر حملوں میں مدد فراہم کی؟ جس کے جواب میں مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ ’میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ مضحکہ خیز ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کابل کی گزشتہ حکومت کی جانب سے قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا جس پر بدقمستی سے بین الاقوامی برادری نے بھی یقین کرنا شروع کردیا کیوں کہ وہ اپنی ناکامی پر بات نہیں کرنا چاہتی‘۔

بالخصوص پاکستان کی جانب سے پنج شیر میں طالبان کی ڈرون سے مدد کے الزامات کے جواب میں مشیر قومی سلامتی نے ایک کاغذ دکھایا جو بھارتی نیوز چیننلز کے اسکرین شاٹس کا تھا جو پاکستان کے خلاف جعلی خبریں پھیلا رہے تھے۔

کاغذ پر ایک تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ برطانیہ کے علاقے ویلز میں ایک امریکی طیارے کی پرواز ہے جسے بھارت کے مرکزی میڈیا نے ایسا بنا کر پیش کیا کہ جیسے پاکستان پنج شیر میں کچھ کررہا ہے'۔

مزید پڑھیں: طالبان کا افغان صوبے پنج شیر پر مکمل کنٹرول کا دعویٰ

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بھارت نے (پاکستان کے خلاف) جعلی نیوز نیٹ ورک بنانے میں لاکھوں ڈالرز خرچ کیے ہیں‘۔

بیکی اینڈرسن نے آئی ایس آئی کے سربراہ کے دورہ کابل کا حوالہ دیتے ہوئے معید یوسف سے افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کی تشکیل میں پاکستان کے کردار کے بارے میں بھی سوال کیا۔

جس پر معید یوسف نے کہا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ سے بہت پہلے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر کیوں افغانستان گئے تھے؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرحد افغانستان سے منسلک ہے اور سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے نئی حکومت سے رابطہ کرنا تھا، آئی ایس آئی کے سربراہ نے کابل کا دورہ کیا اور وہ دوبارہ بھی کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:طالبان کا پنج شیر پر قبضہ، احمد مسعود کی افغان عوام سے بغاوت شروع کرنے کی اپیل

مشیر قومی سلامتی نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ دیگر ممالک نے افغانستان سے انخلا کے لیے پاکستان سے مدد مانگی تھی اور اس محاذ پر بھی تعاون درکار تھا۔

کسی سازشی تھیوری میں پاکستان کے ملوث ہونے کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی کوئی منطق نہیں کیوں کہ دورے کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ سے میڈیا نے انٹرویو بھی کیا جو اس بات کی نفی ہے کہ وہ کسی 'خفیہ مشن' پر تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اپنے قومی مفاد کا تحفظ پاکستان کا حق ہے اور وہ افغانستان سے رابطہ کر کے یہ کرتا رہے گا'۔

انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کو سازشی نظریات سے آگے بڑھنے اور عام افغان کے فائدے کے لیے تعاون کر نے کی ضرورت ہے۔

معید یوسف نے افغانستان میں نئی حکومت کے قیام میں اسلام آباد کے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک خودمختار ملک ہے۔

آرمی چیف کی سی آئی اے سربراہ سے ملاقات

قبل ازیں میزبان نے مشیر قومی سلامتی سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقات کے حوالے سے سوال کیا جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سی آئی کے سربراہ افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے کرنے آئے تھے اور اس طرح کی مشاورت جاری رہے گی۔

انہوں نے بتایا کہ ملاقات میں افغانستان میں حالیہ پیش رفت کے بعد دہشت گردی کے خطرے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جو ایسا معاملہ ہے جسے پاکستان کئی مرتبہ اٹھا چکا ہے۔

معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد ہے جس کی وجہ سے ملک میں گزشتہ 4 دہائیوں میں عدم استحکام پھیلا، 11 ستمبر کے بعد پاکستان میں بے شمار جانوں کا ضیاع ہوا، ملک کی معیشت کا نقصان ہوا اور اندرونِ ملک بے گھر ہوجانے والے افراد کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں: آرمی چیف سے سی آئی اے سربراہ کی ملاقات، افغانستان اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال

انہوں نے مزید کہا کہ جب گیارہ ستمبر کے بعد پاکستان نے امریکا کی مدد کی تو دہشت گردوں نے یہاں کا رخ کرلیا، پاکستان کے لیے افغانستان میں عدم استحکام ایک بنیادی مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی برادری پر زور دے رہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ رابطے میں رہیں اور معاشی بدحالی نہ ہونے کو یقینی بنائیں۔

میزبان نے سوال کیا کہ کیا پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید تعان کرے گا جس کے جواب میں مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ اس سلسلے میں پاکستان نے کب تعاون نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جس قسم کی مدد فراہم کی اور اس کی جو قیمت ہم نے ادا کی اس کے بارے میں نے آپ کو بتایا، پاکستان، افغانستان میں عدم استحکام اور رابطوں کا فقدان برداشت نہیں کرسکتا لیکن تعاون قانونی فریم ورک کے اندر ہونا چاہیے۔

معید یوسف کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی دوسرے ملک کی موجودگی نہیں ہے، پاکستان اس وقت تک شراکت دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسے بین الاقوامی قوانین کے تحت لازمی اور منظور نہ کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گیارہ ستمبر کے بعد جو غلطی کی گئی وہ دہرائی نہیں جانی چاہیے، امریکا اور دوسروں نے کہا کچھ اور کیا کچھ اور۔

’اچھے رویے کی حوصلہ افزائی کریں’

مشیر قومی سلامتی نے مزید کہا کہ افغانستان میں متوقع سیکیورٹی خلا اور دیگر مسائل کے بارے میں بات کرنے کے بجائے دنیا کو یہ مسائل دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:پریشان مت ہوں، سب ٹھیک ہوگا، آئی ایس آئی چیف کی کابل میں گفتگو

ان کا کہنا تھا کہ آئیے افغانستان میں حقیقت سے منسلک ہوں، آئیے اچھے رویے کی حوصلہ افزائی کریں اور یہ کر کے عام افغان کے لیے ایک حکومتی ماڈل حاصل کریں اور یہاں سیکیورٹی خلا کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ملک مستحکم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان میں استحکام اور امن کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے لیکن یہ رابطے مغرب سے ہونے چاہیے۔

’تحریک طالبان سے خطرہ’

افغانستان میں ہوئی پش رفت کے بعد تحریک طالبان پاکستان کو ملنے والی جگہ کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر معید یوسف نے تسلیم کیا کہ ان کی جانب سے سیکیورٹی خطرات ہیں اور اسی وجہ سے آئی ایس آئی سربراہ کابل گئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے نہیں استعمال ہونی چاہیے۔

شو کی میزبان نے ایک مرتبہ پھر مشیر قومی سلامتی سے افغانستان میں پاکستان کے ملوث ہونے کے احتجاج کے بارے میں سوال کیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’وہاں 20 برسوں تک ذہنوں میں زہر گھولا گیا ہے‘۔

مزید پڑھیں:'ڈی جی آئی ایس آئی کا دورہ کابل'، غیر روایتی رابطے ضروری ہیں، فواد چوہدری

انہوں نے خاص کر سابق افغان صدر اشرف غنی کے اس دعوے کے اسلام آباد نے 10 سے 15 ہزار دہشت گرد سرحد پار بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے دہرایا کہ سابق افغان رہنماؤں نے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا۔

معید یوسف نے کہا کہ ’کیا ہم پاگل ہیں کہ 10 سے 15 ہزار افراد پاکستان سے سرحد عبور کررہے ہوں اور کوئی نہ دیکھے‘۔

انہوں نے کہا کہ کابل میں ہوئے مظاہرے بہت بڑے نہیں تھے جیسے بتائے گئے، یہ من گھڑت حقیقت تھی اور افغانستان اور پاکستان کے مشترکہ تعلقات صدیوں پرانے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں