ایک چھوٹا سا ضلع ہونے کے باوجود مٹیاری سماجی و معاشی اعتبار سے اور ثقافتی اعتبار سے بہت متنوع علاقہ ہے۔ صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ذکر کے بغیر مٹیاری کا تعارف مکمل نہیں ہوتا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا مزار بھٹ شاہ میں واقع ہے۔ یہ علاقہ دنیا بھر میں جانا جاتا ہے جہاں ہر سال 14 صفر کو روحانیت سے لگاؤ رکھنے والے مرد و خواتین شاہ عبداللطیف بھٹائی کے عرس کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ محبت اور امن کا درس دینے والے شاہ عبداللطیف بھٹائی ضلع مٹیاری میں ہی پیدا ہوئے تھے۔

ہالا میں روحانیت کا ایک مرکز پیر مخدوم سرور نوح کا مزار بھی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو مٹیاری میں روحانیت کے دو مراکز موجود ہیں۔ اگرچہ شاہ بھٹائی سیاسی گہرائی بھی رکھتے ہیں تاہم مخدوم سرور نوح اپنی عقیدت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے مزار کی سربراہی اس وقت ہالا کے مخدوم گھرانے اور صوفی سلسلے سے تعلق رکھنے والے مخدوم جمیل الزماں کر رہے ہیں۔

حامد اخوند سندھ کے سابق سیکریٹری ثقافت رہے ہیں اور انہیں سندھ کی ثقافت اور ورثے سے گہری دلچسپی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’شاہ بھٹائی کو ناگوار حالات اور اپنے ہم عصروں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اپنی جائے پیدائش ہالا حویلی چھوڑنا پڑی اور وہ بھٹ شاہ آگئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں انہوں نے موجودہ کرار جھیل میں کھدائی کرکے اس کی مٹی سے ایک بھٹ (ٹیلہ) بنایا‘۔ اس کے بعد وہ اسی ٹیلے پر رہے اور انہیں وہیں دفن بھی کیا گیا۔ اسی وجہ سے انہیں بھٹائی یا پھر بھٹ کا شاہ کہا جاتا ہے، یعنی وہ شخص جو ٹیلے پر رہتا ہو۔

ہالا مٹیاری کا سب سے مشہور علاقہ ہے۔ یہ اپنی دستکاریوں، کاشی ٹائل، کڑھائی کی ہوئی رنگین چارپائیوں، خواتین کے لیے ہاتھ سے بنے کپڑے ’سوسی‘، اور مردوں کے لیے کاٹن اور ریشم سے بنے کھڈی کے کپڑے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

شہر میں بجلی سے چلنے والی کھڈیوں کی وجہ سے ہاتھ سے چلائی جانے والی کھڈیاں اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ کسی زمانے میں ہالا میں سیکڑوں کھڈیاں ہوا کرتی تھیں۔ مٹیاری اور ہالا کے ہنرمند سندھی اجرک کی چھپائی کے قدیم فن سے بھی منسلک ہیں۔

حامد اخوند نے ہمیں بتایا کہ ’ان دستکاریوں، کپڑوں اور کاشی ٹائلز کا کاروبار مقبول تو ہے لیکن تیزی سے اپنا اثر کھو رہا ہے‘۔ حامد سندھ انڈیجینس اینڈ ٹریڈیشنل کرافٹس کمپنی (سٹکو) کا بھی انتظام دیکھتے ہیں جسے حکومت سندھ کی جانب سے تعاون حاصل رہتا ہے۔ سٹکو کا مقصد ان فنون کی دوبارہ بحالی ہے جو سندھ کے مختلف شہروں کی پہچان ہیں۔

تاہم حامد صاحب کا کہنا ہے کہ سٹکو کو ہنر مندوں کی جانب سے مطلوبہ ردِعمل نہیں مل رہا اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ بنیادی وجہ تو اس کام میں لگنے والی محنت اور محدود آمدن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہنر مندوں کی اگلی نسل ان کاموں کو جاری رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ ’نئی نسل ان فن پاروں کی تخلیق کے لیے جدید ذرائع کو استعمال کرنا چاہتی ہے۔ ہر شخص چیزوں کو معاشی اعتبار سے دیکھ رہا ہے اور ایسا درست بھی ہے کیونکہ بہرحال کام کرنے کی وجہ معاشی ضروریات ہی ہوتی ہیں‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ صرف ایک معمر شخص ہے جو آج بھی ہاتھ سے بنے سوسی اور کھڈی کے کام سے وابستہ ہے۔ ’وہ یہ کام صرف اس لیے کررہا ہے کیونکہ اسے یہ فن اپنے خاندان سے ورثے میں ملا ہے اور اسے اس سے پیار ہے‘۔ کاشی ٹائلز کے حوالے سے بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے اور اس کے لیے درکار مہارت اب کم ہی لوگوں میں ہے۔ ٹائلز کی تیاری مختلف مراحل میں ہوتی ہے اور بھٹی میں مخصوص قسم کی مٹی اور لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔

قومی شاہراہ سے اتر کر دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر موجود مٹیاری مشرف دور میں 2004ء میں علیحدہ ضلع بن گیا تھا۔ اس وقت ضلع حیدرآباد کو 4 اضلاع میں تقسیم کرکے ضلع ٹنڈو اللہ یار، مٹیاری، ٹنڈو محمد خان اور حیدرآباد بنائے گئے تھے۔

اس انتظامی تقسیم کے خلاف بہت سی آوازیں اٹھیں اور کہا گیا کہ یہ منصوبہ کامیاب نہیں رہے گا۔ تاہم حقیقت اس کے برعکس رہی۔ مٹیاری، ٹنڈو اللہ یار اور ٹنڈو محمد خان کے لوگوں کے حالات آج پہلے سے بہتر ہیں۔

ارباب، جمالی اور راہو قبیلوں کے ساتھ ساتھ یہاں مخدوم، جاموٹ اور میمن بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ یہاں کی زمینوں کا بڑا حصہ مخدوموں اور جاموٹوں کے پاس ہے اور وہی یہاں کے سیاسی منظرنامے پر بھی غالب ہیں۔ تاہم میمنوں نے جاموٹوں کی حمایت سے 2013ء کے انتخابات میں مخدوموں کا مقابلہ کیا۔

مٹیاری کی زمین بہت ہی متنوع ہے۔ یہاں کھیتی کے لیے خاطر خواہ زمین موجود ہے جس کی مٹی اہم فصلوں اور باغات کے لیے بہترین ہے۔ پیاز جیسی چھوٹی فصلیں بھی یہاں کاشتکاری کے شعبے کی قدر بڑھاتی ہیں۔ مٹیاری کو روہڑی کینال سے پانی فراہم کیا جاتا ہے جسے چھوٹا دریائے سندھ بھی کہتے ہیں۔

یہاں کی مٹی کے معیاری ہونے کی وجہ یہ بھی کہ یہ شہر قدیم زمانے سے دریائے سندھ کے راستے میں رہا ہے۔ یہ دریا کبھی برہمن آباد یا منصورہ کے قریب سے گزرتا تھا۔ یہ شہر محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا اور یہ آج کے ضلع سانگھڑ میں آتا ہے۔ اس ضلع کی سرحد ضلع مٹیاری سے ملتی ہے۔

یہاں تین اہم فصلوں یعنی گندم، کپاس اور گنّے کی کاشت برقرار ہے۔ زیادہ بارش کی صورت میں یہاں نکاسی آب کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے جیسا کہ 2011ء میں ہوا تھا۔ اس کے علاوہ کہیں کہیں زمینی پانی بھی کھارا ہے۔

اس علاقے میں ایک شوگر فیکٹری بھی ہے جو جاموٹوں کی ملکیت ہے۔ اس کی انتظامیہ اس حوالے سے مشہور ہے کہ وہ سندھ حکومت کی جانب سے گنّے کی کرشنگ کے وقت اور گنّے کی قیمت کے اعلان سے قطع نظر گنّے کی کرشنگ شروع کردیتی ہے۔ کپاس کی خاطر خواہ پیداوار کی وجہ سے یہاں کپاس کی 6 فیکٹریاں بھی موجود ہیں۔

اس علاقے کے ایک کسان حاجی ندیم شاہ نے ہمیں بتایا کہ ’شوگر فیکٹری مالکان نے مل کی کرشنگ کی صلاحیت بڑھادی ہے۔ جاموٹ صحت کی معیاری سہولیات فراہم کرکے مقامی آبادی کی صحت سے متعلق ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں‘۔

ذراعت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اکثر اضلاع میں کپاس کی کاشت کے رقبے میں کمی آرہی ہے لیکن مٹیاری میں صورتحال ایسی نہیں ہے۔ 09ء-2008ء میں یہاں 37 ہزار 200 ہیکٹر پر کپاس کاشت کی گئی جو 10ء-2009ء میں 37 ہزار 800 ہیکٹر ہوگیا (اس سال سندھ نے سب سے زیادہ کپاس پیدا کی جو 42 لاکھ گانٹھیں تھی)۔ 11ء-2010ء میں یہ رقبہ 39 ہزار 550 ہیکٹر رہا۔ 12ء-2011ء میں 38 ہزار ہیکٹر ہوا اور 19ء-2018ء میں 40 ہزار 500 ہیکٹر رہا۔ 21ء-2020ء میں 41 ہزار ہیکٹر پر کپاس کا بیج بویا گیا ہے جو مٹیاری کے لیے اچھی خبر ہے۔ اس کے علاوہ گنّے کی پیداوار بھی اچھی ہے۔

بڑے زمینداروں کی جانب سے آم اور کیلے کی بھی کاشت کی جارہی ہے۔ پیاز کی نصرپوری قسم بہت مشہور ہے۔ نصرپور اور مٹیاری کے دیگر علاقوں میں ہونے والی پیاز کی فصل برآمد بھی ہوتی ہے اور پنجاب بھیجے جانے کے لیے اس کی کٹائی بھی جلدی کی جاتی ہے۔ بعض اوقات پیاز کی فصل کی کٹائی کا وقت بھی وہی ہوتا ہے جب کئی فصلیں درآمد کی جاتی ہیں اور اس وجہ سے کسانوں کی پریشانی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

گاڑہا دودھ یا ماوا مٹیاری کی پہچان ہے اور یہ کاروبار معاشی اعتبار سے بھی فائدہ مند ہے۔ مٹیاری شہر میں اس کاروبار سے وابستہ ایک فرد نے ہمیں بتایا کہ ’ہم ماوا اور اس کی آئس کریم مٹیاری اور دیگر بڑے شہروں میں شادی کی بڑی تقریبات کے لیے فروخت کرتے ہیں‘۔

اگر سندھ کے لائیو اسٹاک کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سندھ لائیو اسٹاک کی جانب سے جانوروں کی آبادی کے 2018ء کے تخمینے کے مطابق مٹیاری کا حصہ 2.82 فیصد بنتا ہے جس میں 1.55 فیصد دیگر مویشیوں اور 1.27 بھینسوں کا ہے۔

کبھی مٹیاری میں دریا کے کنارے گھنے جنگلات ہوا کرتے تھے جو بعد میں تجاوزات کا شکار ہوگئے۔ 2005ء کی فارسٹ پالیسی کے بعد سے بااثر افراد نے ان جنگلات پر ذراعت کے لیے غیر قانونی طور پر قبضہ کرلیا اور یہاں اپنی کیٹیاں قائم کرلیں جس کے سبب سیلابی پانی گزرنے کے راستے تنگ ہوگئے۔

سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے بعد محکمہ جنگلات نے جنگلات کی زمین خالی کروانے کے لیے آپریشن شروع کیا، لیکن اگست2021ء تک مٹیاری میں ایک ہزار 426 ایکڑ زمین غیر قانونی طور پر ذراعت کے لیے استعمال ہورہی تھی۔


یہ مضمون 13 ستمبر 2021ء کو ڈان اخبار کے دی بزنس اینڈ فنانس ویکلی میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Dr Abdul Qadeer Memon Sep 24, 2021 02:19am
زبردست اور ناليج مين اضافي کا سبب بنا ـ شکريه