برطانیہ نے افغان ترجمانوں کی تفصیلات ظاہر کرنے والی ای میل کی غلطی پر معذرت کرلی

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2021
ان افغانوں سے معذرت چاہتا ہوں جو اس ڈیٹا چوری سے متاثر ہوے ہیں اور جن کے ساتھ ہم اب کام کر رہے ہیں، برطانوی سیکریٹری دفاع - فائل فوٹو:رائٹرز
ان افغانوں سے معذرت چاہتا ہوں جو اس ڈیٹا چوری سے متاثر ہوے ہیں اور جن کے ساتھ ہم اب کام کر رہے ہیں، برطانوی سیکریٹری دفاع - فائل فوٹو:رائٹرز

طالبان کے افغانستان پر اقتدار سنبھالنے کے بعد برطانیہ منتقلی کے خواہاں افغان باشندوں کی تفصیلات افشا کرنے والے ڈیٹا سے متعلق غلطی پر برطانیہ نے معذرت کرلی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ، امریکا اور نیٹو کے دیگر اتحادی اراکین، اپنے ہی شہریوں اور دیگر افراد کو نکالنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں جنہوں نے ان کے لیے کام کیا تھا۔

برطانیہ کے سیکریٹری دفاع بین والیس نے کہا کہ ترجمانوں اور برطانیہ کے لیے کام کرنے والے دیگر کی مدد کے لیے برطانیہ کی افغان نقل مکانی کی امدادی پالیسی کی ایک ای میل کو خفیہ طور پر کاپی کرنے کے بجائے صرف کاپی کردیا گیا جس سے ان کے ای میل ایڈریسز چوری ہوگئے۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے فوجی انخلا پر بائیڈن پر تنقید نامناسب ہے، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ انہیں اس پر افسوس ہے اور اس کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔

وزیر دفاع بین والیس نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ 'میں ان افغانوں سے معذرت چاہتا ہوں جو اس ڈیٹا چوری سے متاثر ہوئے ہیں اور جن کے ساتھ ہم اب کام کر رہے ہیں'۔

قانون سازوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس خلاف ورزی نے فہرست میں شامل لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ طالبان ان کی شناخت کر لیں گے اور انہیں مغربی افواج کی مدد کرنے پر سزا دے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: وزارت امورِ خواتین ’نیکی کا حکم دینے، برائی سے روکنے‘ میں تبدیل

بین والیس نے کہا کہ متعلقہ افراد کو اپنا ای میل ایڈریس تبدیل کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ان کے تحفظ سے متعلق خطرات کا جائزہ لے رہی ہیں۔

برطانیہ نے افغانستان سے نکلنے کے دوران کہا تھا کہ نقل مکانی کے اہل ہر شخص کو کامیابی کے ساتھ وقت پر نہیں نکالا جاسکتا ہے۔

بعد ازں اس نے باقی رہ جانے والوں کی مدد کرنے کے لیے عزم کا اظہار کیا تھا۔

بین والیس نے کہا کہ انخلا کے آپریشن میں نقل مکانی کے لیے کلیئر کیے گئے مجموعی طور پر ایک ہزار 232 افراد میں سے 260 افراد اور ان کے اہل خانہ اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں