طورخم پر نادرا کی تصدیقی سروس معطل، مشکوک افراد کے ملک میں داخلے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 22 ستمبر 2021
نادرا تین ماہ سے طورخم میں واقع اپنے مرکز کو اسٹیشنری یا روز مرہ ضروریات کا سامان بھی فراہم نہیں کر رہا — فائل فوٹو: اے ایف پی
نادرا تین ماہ سے طورخم میں واقع اپنے مرکز کو اسٹیشنری یا روز مرہ ضروریات کا سامان بھی فراہم نہیں کر رہا — فائل فوٹو: اے ایف پی

طورخم سرحد کے نادرا مرکز پر پاکستانی شہریوں کی آن لائن تصدیق کی اچانک معطلی سے ذاتی شناخت کا عمل سنگین خطرے سے دوچار ہوگیا ہے کیونکہ یہ مشکوک دستاویزات رکھنے والوں کو نظر میں آئے بغیر پاکستان میں داخل ہونے اور ملک سے جانے کا موقع فراہم کرے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیشرفت سے باخبر ذرائع نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ معطلی خفیہ اداروں کے کام میں شدید رکاوٹ کا باعث بنے گی، فرنٹیئر کور (ایف سی)، آرمی، نیشنل لاجسٹکس سیل (این ایل سی)، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور کسٹم حکام طورخم پر موجود ہوتے ہیں کیونکہ انہیں روز مرہ کی بنیاد پر مشکوک افراد کی تصدیق کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفر کرنے والے افراد کی ذاتی معلومات کی تصدیق کی جاسکے۔

ذرائع نے کہا کہ اسلام آباد سے سیٹلائٹ کے ذریعے ہر کسی کے کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا کی آن لائن تصدیق کی سروس نادرا نے چند روز قبل بغیر وجہ بتائے بند کردی تھی، اس سے نادرا کا آپریٹنگ عملہ اندھیرے میں چلا گیا کیونکہ ان کے پاس سے فوری اور درست آن لائن تصدیق کی ہر طرح کی رسائی ختم ہوگئی ۔

یہ بھی پڑھیں: نادرا میں تصحیح، تصدیق اور تجدید کا نیا نظام لارہے ہیں، وزیر داخلہ

ان کا کہنا تھا کہ نادرا کا عملہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ ایف سی، ایف آئی اے اور این ایل سی کے ساتھ بھی قریبی رابطے میں ہے کیونکہ انہیں ان سرکاری اداروں کو جو معلومات فراہم کی جاتی ہے اس سے مشکوک لوگوں کا سراغ لگانے یہاں تک کہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد کی گرفتاری میں مدد ملتی ہے۔

ذرائع نے کہا کہ معطلی، روزانہ کی بنیاد پر ان شہریوں کے نرمی کے حق کی تصدیق پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گی جو سرحد کے قریب مقیم ہیں اور ویزے کی پابندی سے مستثنیٰ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں زیادہ تر مقامی مزدور اور روزانہ اجرت کمانے والے افراد شامل ہیں، جنہیں سرحد پار کرنے کے لیے آئے روز نادرا سے آن لائن تصدیق درکار ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خفیہ اداروں، ایف آئی اے، کسٹم اور این ایل سی کو بروقت تصدیق کے عمل کے لیے نادرا کی مدد درکار ہوتی ہے، نادرا خود طورخم پر اپنے آپریشنز ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ یہ سینٹر اس کے لیے ریونیو پیدا نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیں: طورخم بارڈر کے ذریعے 100 افغان شہریوں کی پاکستان آمد

نادرا تین ماہ سے طورخم میں واقع اپنے مرکز کو اسٹیشنری یا روز مرہ ضروریات کا سامان بھی فراہم نہیں کر رہا۔

ذرائع نے بتایا کہ تین ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود نادرا کے طورخم سینٹر کے کم و بیش 9 ڈیٹا انٹری آپریٹرز اور 2 نائب قاصد بغیر تنخواہ کے کام کر رہے ہیں کیونکہ ان کا کانٹریکٹ جون میں ختم ہوچکا ہے۔

متاثرہ عملے نے کہا کہ نادرا نے انہیں ابتدائی طور پر 2015 میں ملازمت دی تھی، بعد ازاں طورخم بارڈر منیجمنٹ نظام کے تحت پہلے خیبر پختونخوا کی سیاسی انتظامیہ اور پھر قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد صوبے کی ضلعی انتظامیہ نے ان کی خدمات حاصل کیں۔

ڈی ای اوز نے کہا کہ وہ گزشتہ چھ سال سے سرحد پر آمد و رفت کرنے والے پاکستانی اور افغان شہریوں کے ڈیٹا کی مؤثر تصدیق کر رہے ہیں، لیکن ان کی خدمات کو ریگولرائز نہیں کیا گیا جبکہ ان کے معاہدے وجہ بتائے بغیر پہلے سیاسی انتظامیہ اور پھر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے معطل کیے گئے۔

مزید پڑھیں: طورخم پرغیرقانونی نقل وحرکت بڑاسیکیورٹی چیلنج

پشاور میں نادرا دفاتر کے عہدیداران نے زور دیا کہ ان کا طورخم سرحد پر اپنے عملے کی خدمات کو ریگولرائز کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ عملہ خیبر کے ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کام کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نادرا صرف تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے جبکہ موجودہ عملے کے مستقبل کا فیصلہ صوبائی محکمہ داخلہ، ڈپٹی کمشنر سے مشاورت کے بعد کرے گا۔

تاہم وہ آن لائن تصدیق سروس کی معطلی کے حوالے سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔

ڈپٹی کمشنر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ جس منصوبے کے تحت موجودہ عملے کو ملازمت دی گئی تھی وہ جون میں ختم ہوگیا تھا اور ان کی تنخواہیں، صوبائی حکومت کی جانب سے انتظامیہ کے اکاؤنٹس میں منتقل کردی گئی تھیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ آن لائن تصدیق کی سروس کی معطلی طورخم پر ہر طرح کی نقل و حمل کو روک سکتی ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں دہشت گردوں، اشتہاری ملزمان اور مجرمانہ عناصر کی جانب سے فائدہ اٹھائے جانے کا خوف ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں