افغان طالبان جنرل اسمبلی سے خطاب کرنا چاہتے ہیں، اقوام متحدہ

اپ ڈیٹ 22 ستمبر 2021
امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیداروں نے کہا کہ وہ طالبان کی درخواست سے واقف ہیں۔ - فائل فوٹو:اے پی
امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیداروں نے کہا کہ وہ طالبان کی درخواست سے واقف ہیں۔ - فائل فوٹو:اے پی

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کے نئے حکمران اپنے ملک کے اقوام متحدہ کے سابق سفیر کی اسناد کو چیلنج کر رہے ہیں اور رواں ہفتے جنرل اسمبلی کے عالمی رہنماؤں کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بات کرنا چاہتے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے 9 ستمبر 2001 کے بعد طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد گزشتہ ماہ طالبان نے ملک پر دوبارہ اقتدار حاصل کرلیا ہے۔

طالبان نے حیرت انگیز رفتار کے ساتھ امریکی تربیت یافتہ افغان افواج کو شکست دیتے ہوئے ملک کا اقتدار سنبھال کر دنیا کو دنگ کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد زندگی معمول کی طرف لوٹنے لگی

اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو 15 ستمبر کو موجودہ وقت کے تسلیم شدہ افغان سفیر غلام اسحٰق زئی کی جانب سے اسمبلی کے 76 ویں سالانہ اجلاس کے لیے افغانستان کے وفد کی فہرست کے ساتھ ایک خط موصول ہوا۔

پانچ روز بعد انتونیو گوتریس کو وزارت خارجہ، امارات اسلامی افغانستان کے لیٹر ہیڈ کے ساتھ ایک اور خط موصول ہوا جس پر 'امیر خان متقی' نے بطور 'وزیر خارجہ' دستخط کر رکھے تھے اور اس میں اقوام متحدہ کے عالمی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت کی درخواست کی گئی تھی۔

اسٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ خط میں کہا گیا کہ سابق افغان صدر اشرف غنی کو 15 اگست کو 'بے دخل' کر دیا گیا تھا اور دنیا بھر کے ممالک 'اب انہیں صدر کے طور پر تسلیم نہیں کرتے' اور اس کی وجہ سے اسحٰق زئی اب افغانستان کی نمائندگی نہیں کرتے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا کہ طالبان کے مطابق وہ اقوام متحدہ کے نئے مستقل مندوب محمد سہیل شاہین کو نامزد کر رہے ہیں جو قطر میں امن مذاکرات کے دوران طالبان کے ترجمان رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان کے پہلے ایک ماہ میں کیا کچھ ہوا؟

امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیداروں نے کہا کہ وہ طالبان کی درخواست سے واقف ہیں۔

واضح رہے کہ امریکا، اقوام متحدہ کی اسناد کمیٹی کا رکن ہے۔

عہدیداروں نے کہا کہ وہ یہ اندازہ نہیں لگائیں گے کہ یہ پینل کیا فیصلہ کرے گا تاہم ایک عہدیدار نے کہا کہ کمیٹی 'غور کرنے میں کچھ وقت لے گی' جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کے سفیر کم از کم اعلیٰ سطح کے رہنماؤں کے رواں ہفتے کے دوران ہونے والے اس اجلاس میں بات نہیں کر سکیں گے۔

اقوام متحدہ میں نشستوں پر تنازع کی صورت میں جنرل اسمبلی کی نو رکنی اسناد کمیٹی کو فیصلہ کرنے کے لیے ملنا ضروری ہے۔

دونوں خطوط جنرل اسمبلی کے صدر عبداللہ شاہد کے دفتر سے مشاورت کے بعد کمیٹی کو بھیجے گئے ہیں۔

کمیٹی کے ارکان امریکا، روس، چین، بہاما، بھوٹان، چلی، نمیبیا، سیئرا لیون اور سویڈن ہیں۔

افغانستان 27 ستمبر کو اعلیٰ سطح کے اجلاس کے آخری روز آخری تقریر کرنے والا ہے۔

یہ واضح نہیں کہ اگر کمیٹی کی ملاقات ہوئی اور طالبان کو افغانستان کی نشست دی گئی تو ان کی جانب سے کون بات کرے گا۔

مزید پڑھیں: 'ہم متحد ہیں'، افغان طالبان نے قیادت میں اختلافات کی تردید کردی

جہاں طالبان نے آخری مرتبہ 1996 سے 2001 تک حکومت کی تھی تو اقوام متحدہ نے ان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اس کے بجائے افغانستان کی نشست سابق صدر برہان الدین ربانی کی حکومت کو دی گئی تھی جو 2011 میں ایک خودکش بمبار کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے تھے۔

یہ برہان الدین ربانی کی حکومت تھی جو نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو 1996 میں سوڈان سے افغانستان لائے تھے۔

طالبان نے کہا ہے کہ وہ جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی شناخت اور مالی امداد چاہتے ہیں لیکن طالبان کے متعدد عبوری وزرا اقوام متحدہ کی بین الاقوامی دہشت گردوں اور دہشت گردی کے مالی معاونین کی نام نہاد بلیک لسٹ میں شامل ہیں۔

اسناد کمیٹی کے اراکین طالبان کی پہچان کو ایک زیادہ جامع حکومت کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جو انسانی حقوق کی ضمانت دے۔

تبصرے (0) بند ہیں