نور مقدم قتل کیس کے بارے میں وہ تمام معلومات جنہیں جاننے کی ضرورت ہے

اپ ڈیٹ 23 ستمبر 2021
20 جولائی کو سابق سفیر شوکت مقدم کی 27 سالہ بیٹی نور مقدم اسلام آباد میں ایک رہائش گاہ پر مردہ حالت میں پائی گئی تھی۔ - فائل فوٹو:چینج ڈاٹ او آر جی
20 جولائی کو سابق سفیر شوکت مقدم کی 27 سالہ بیٹی نور مقدم اسلام آباد میں ایک رہائش گاہ پر مردہ حالت میں پائی گئی تھی۔ - فائل فوٹو:چینج ڈاٹ او آر جی

پاکستان نے 2021 میں خواتین کے خلاف ہراسانی اور تشدد کے متعدد واقعات دیکھے ہیں، ہر ایک یکساں طور پر خوفناک ہے۔

تاہم ان میں سے ایک سفاکیت کی وجہ سے کچھ الگ ہے جس نے قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے، وہ نور مقدم کا بہیمانہ قتل ہے۔

20 جولائی کو سابق سفیر شوکت مقدم کی 27 سالہ بیٹی نور مقدم اسلام آباد میں ایک رہائش گاہ پر مردہ حالت میں پائی گئی تھی۔

اس وقت پولیس نے کہا تھا کہ اسے گولی مارنے کے بعد 'ذبح' کیا گیا تھا۔

جیسے ہی قتل کی خوفناک تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئیں پاکستانیوں نے آن لائن اور ذاتی طور پر احتجاج کیا اور ٹوئٹر پر #JusticeforNoor ٹرینڈ کرنے لگا تھا۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل: مشتبہ ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں دو دن کی توسیع

ہائی پروفائل قتل کا مقدمہ آئندہ روز شروع ہونے کی توقع ہے، یہاں ایک نظر ڈالیں گے کہ اب تک اس کیس میں کیا کیا ہوا اور پولیس کی تفتیش نے کیا کیا انکشاف کیا ہے۔

21 جولائی: ظاہر جعفر کی گرفتاری

پولیس نے معروف کاروباری شخص کے بیٹے ظاہر ذاکر جعفر کو قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گرفتار کیا اور تین روز کی جسمانی تحویل حاصل کی۔

ایک روز قبل نور مقدم کے والد کی شکایت پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (قتل) کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی تھی جس میں ظاہر جعفر اور دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں شوکت مقدم نے کہا تھا کہ پولیس انہیں ظاہر جعفر کے گھر لے کر گئی جہاں انہیں پتا چلا کہ ان کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم نے جان بچانے کیلئے 6 مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی، پولیس

انہوں نے اپنی بیٹی کے قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا طلب کی ہے۔

23 جولائی: تفتیش کاروں کا مجرمانہ ریکارڈ کے لیے امریکا، برطانیہ سے رجوع

جیسا کہ لوگوں نے ماضی میں ظاہر کے مبینہ پرتشدد رجحانات کے بارے میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا، سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) انویسٹی گیشن عطا الرحمن نے کہا کہ انہوں نے متعلقہ حکام کو لکھا ہے کہ وہ ظاہر جعفر کے برطانیہ میں جنسی ہراسانی اور عصمت دری کے مقدمات میں ملوث ہونے جس کی وجہ سے وہ ملک سے جلا وطن ہوئے تھے، کے بارے میں معلومات کی تصدیق کے لیے امریکا اور برطانیہ سے رابطہ کریں۔

24 جولائی: جسمانی ریمانڈ میں 2 روز کی توسیع

تفتیشی افسر نے مقامی عدالت میں سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ملزم کو حراست میں لینے کے بعد اس کے پاس سے ایک پستول، چاقو، چھری اور ایک آہنی ہتھیار برآمد کیا ہے۔

عہدیدار نے بتایا کہ ظاہر جعفر نے نور مقدم کا سر قلم کرنے سے پہلے اسے آہنی ہتھیار کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

عدالت نے ظاہر کے جسمانی ریمانڈ میں دو روز کی توسیع کی۔

25 جولائی: پولیس نے ظاہر کے والدین، گھریلو ملازمین کو گرفتار کیا

پولیس نے تفتیش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ کی مزید چار دفعات ایف آئی آر میں شامل کیں جو بنیادی ثبوتوں کو چھپانے سے متعلق ہیں اور ظاہر جعفر کے والدین اور اہلخانہ کے گارڈ کو گرفتار کرلیا۔

دریں اثنا وفاقی دارالحکومت انتظامیہ نے تھراپی ورکس کے دفتر کو سیل کردیا جہاں ظاہر جعفر مبینہ طور پر بطور کونسلر کام کرتا تھا۔

اسلام آباد انتظامیہ تھیراپی ورکس کا دفتر سیل کر رہی ہیں - فوٹو: وائٹ اسٹار
اسلام آباد انتظامیہ تھیراپی ورکس کا دفتر سیل کر رہی ہیں - فوٹو: وائٹ اسٹار

26 جولائی: ظاہر جعفر کا نور مقدم کو قتل کرنے کا اعتراف

پولیس نے دعویٰ کیا کہ ظاہر جعفر نے جرم کا اعتراف کرلیا ہے اور اس کا بیان ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔

ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں مزید دو روز کی توسیع کر دی گئی۔

27 جولائی: پولیس نے موبائل فون برآمد کرلیے

تفتیشی افسر نے بتایا کہ ظاہر جعفر اور نور مقدم دونوں کے موبائل فونز ظاہر جعفر کی رہائش گاہ سے دیگر شواہد کے ساتھ برآمد کرلیے گئے۔

مزید پڑھیں: پولیس نے نور مقدم قتل کیس میں چالان جمع کرا دیا

ظاہر کے والدین، ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی اور گھریلو ملازم کو ان کے دو روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا جس نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔

اسی روز ان چاروں کے لیے ضمانت کی درخواستیں بھی جمع کرائی گئیں۔

28 جولائی: ظاہر کے جسمانی ریمانڈ میں 3 دن کی توسیع

سرکاری پراسیکیوٹر نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ مرکزی ملزم کا مزید تین روزہ ریمانڈ دے کیونکہ انہیں ویڈیو کے فرانزک تجزیے کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج کے ساتھ لاہور بھیجا جانا تھا۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد توسیع دے دی۔

علیحدہ طور پر جعفر خاندان نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم اس ظلم کی واضح طور پر مذمت کرتے ہیں اور ظاہر اور اس کے انتہائی قدم کی ہمیشہ کے لیے مذمت کرتے ہیں'۔

30 جولائی: پولی گراف، دیگر ٹیسٹ کیے گئے

ظاہر جعفر کے پنجاب کے فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) لاہور میں پولی گراف سمیت دو ٹیسٹ کروائے گئے تاکہ ان کے بیانات اور قتل کے سلسلے میں جمع کیے گئے شواہد کی تصدیق کی جا سکے۔

ظاہر جعفر اور نور مقدم کے موبائل فونز وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھیجے گئے تھے تاکہ ان کو غیر قانونی ٹیسٹ اور حذف شدہ ڈیٹا کی بازیابی کے لیے کھولا جاسکے۔

31 جولائی: جسمانی ریمانڈ میں دو روز کی توسیع

سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والی 'نئی تفصیلات اور کرداروں' کی تفتیش کے لیے استغاثہ کی جانب سے مزید وقت طلب کرنے کے بعد عدالت نے ظاہر کے جسمانی ریمانڈ میں دو روز کی توسیع کردی۔

2 اگست: ظاہر جعفر کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور

جب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ملزم کے حوالے سے اپنی تفتیش مکمل کر لی ہے اور اب اسے اس کی جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے تو اسلام آباد کی ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے ظاہر جعفر کو 14 روز کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا۔

ظاہر جعفر کو عدالت میں پیش کیا جارہا ہے - فوٹو:ڈان نیوز
ظاہر جعفر کو عدالت میں پیش کیا جارہا ہے - فوٹو:ڈان نیوز

5 اگست: ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

ظاہر جعفر کے والدین کی جانب سے دائر کی گئی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں، عدالت نے اپنے 'عارضی جائزہ' میں کہا کہ ملزمان نے نہ صرف جرم کی حوصلہ افزائی کی بلکہ شواہد کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔

کچھ روز بعد ان کے اور ان کے ملازم کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید دو ہفتوں کے لیے توسیع کر دی گئی۔

14 اگست: ڈی این اے، فنگر پرنٹس سے قتل میں ملوث ہونا ظاہر

پولیس نے دعویٰ کیا کہ ظاہر جعفر کا ڈی این اے ٹیسٹ اور فنگر پرنٹس نے قتل میں اس کے ملوث ہونے کو ظاہر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ویڈیو پر فوٹو گرامٹری ٹیسٹ کیے گئے جس میں نور کو اپنی جان بچانے کی کوششیں کرتے ہوئے دیکھا گیا اور جہاں ملزم اس کا پیچھا کر رہا تھا جس سے تصدیق ہوئی کہ یہ اصلی ہے۔

15 اگست: تھراپی ورکس کا مالک، 5 ملازم گرفتار

عدالت نے تھیراپی ورکس کے 6 عہدیداروں بشمول مالک طاہر ظہور کو پولیس کی جانب سے 'شواہد چھپانے' کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد ایک روز کے جسمانی ریمانڈ میں دے دیا۔

23 اگست: تمام 6 افراد کو ضمانت مل گئی

ان کی گرفتاریوں کے ایک ہفتے کے بعد تمام 6 افراد کو ضمانت مل گئی اور ہر ایک کو 50 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔

ایک اور پیش رفت میں ظاہر جعفر کے والدین اور ملازمین کے جوڈیشل ریمانڈ میں 6 ستمبر تک توسیع کی گئی۔

26 اگست: نور مقدم کے والد نے ضمانت کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا

نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست جمع کرائی جس میں تھیراپی ورکس کے 6 ملازمین بشمول اس کے مالک کو ضمانت دیے جانے کو چیلنج کیا گیا۔

یکم ستمبر: ظاہر جعفر کے والد نے تھیراپی ورکس کی مدد طلب کی

دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ ظاہر جعفر نے 20 جولائی کو اپنے والد کو بتایا کہ اس نے متاثرہ لڑکی کے ساتھ کیا کیا اور جواب میں ملزم کے والد نے تھیراپی ورکس سے رابطہ کیا اور اپنے بیٹے کو گھر سے نکالنے میں ان کی مدد طلب کی۔

حکام نے بتایا کہ ملزم کے والد نے تھیراپی ورکس کے ملازمین سے کہا کہ وہ اسے اپنے کلینک میں منتقل کریں اور اعلان کریں کہ وہ مریض ہے کیونکہ اس سے اس کا دفاع مضبوط ہوگا۔

مزید پڑھیں: ظاہر جعفر نے نور مقدم کے قتل کا اعتراف کرلیا، پولیس کا دعویٰ

علیحدہ طور پر تھیراپی ورکس کے مالک نے مقامی عدالت میں ایک درخواست جمع کرائی تاکہ ظاہر جعفر کے خلاف ان کی ٹیم کے ایک رکن پر حملہ اور زخمی کرنے کے لیے فوجداری مقدمہ درج کیا جا سکے۔

4 ستمبر: ظاہر شرابی تھا، پاگل نہیں تھا، سربراہ تھراپی ورکس

تھیراپی ورکس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) طاہر ظہور احمد نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نور کا مبینہ قاتل ظاہر شرابی تھا مگر وہ پاگل نہیں تھا۔

سی ای او نے کہا کہ ظاہر جعفر نے 2013 میں فزیو تھیراپی کی تربیت حاصل کرنے کے لیے تھیراپی ورکس آیا تھا، اس وقت اس میں کسی بیماری کی کوئی علامت نہیں دکھی تھی۔

9 ستمبر: پولیس نے چالان پیش کردیا

پولیس نے چالان اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں جمع کرا دیا۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کہا کہ چالان کی کاپیاں اگلی سماعت میں 23 ستمبر کو تمام مشتبہ افراد کے موجود ہونے پر تقسیم کی جائیں گی۔

عدالت نے ظاہر جعفر، اس کے والدین اور ان کے تین گھریلو ملازمین کے جوڈیشل ریمانڈ میں بھی اگلی سماعت تک توسیع کردی۔

چالان کے مطابق نور مقدم نے اس کے قتل میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کی وجہ سے زندگی بچانے کے 6 مواقع ضائع کیے۔

انہوں نے بتایا کہ 'اگر ظاہر جعفر کے ساتھیوں نے مدد کی ہوتی تو اس کی جان بچائی جا سکتی تھی'۔

13 ستمبر: نور کے دوستوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر احتجاج کیا

جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کے والدین کی گرفتاری کے بعد ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی تو نور مقدم کے دوستوں نے عدالت کے احاطے کے باہر احتجاج کیا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے کے باہر احتجاجی مظاہرہ - فوٹو:طاہر نصیر
اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے کے باہر احتجاجی مظاہرہ - فوٹو:طاہر نصیر

17 ستمبر: ظاہر کے والدین کے وکیل نے دلائل مکمل کیے

ظاہر کے والدین، ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کے وکیل نے قتل کیس میں ان کی ضمانت کی درخواستوں پر اپنے دلائل مکمل کیے۔

سماعت کے دوران جج نے ریمارکس دیے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پولیس تفتیش کے دوران شواہد کو جوڑنا نہیں جانتی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں