توانائی کا بحران دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کو ہے۔ یہ بحران یورپ سے شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے اثرات چین کوریا تک پھیل رہے ہیں جبکہ اس پر بلوم برگ نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔

توانائی کے اس بحران کا چین کو بھی سامنا ہے جہاں انڈسٹری کے لیے بجلی کی راشننگ کی گئی ہے۔ جنوبی کوریا میں بجلی کی قیمت میں 8 سال بعد پہلی بار اضافہ کیا گیا ہے۔ آئی فون کی پروڈکشن اور سیل کے آپریشن متاثر ہونے جارہے ہیں۔ یہ ایشیا نکئے کی رپورٹ ہے۔

ہم پر اس کا اثر یہ ہوگا کہ ایل این جی کی قیمت مزید بڑھے گی۔ ہم کو گیس مہنگی اور کم بھی ملے گی۔ اگر یہ بحران آیا تو ہم شاید بیٹھے بٹھائے اس کا شکار ہوں گے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی خبری ترجیحات پر غور کرنا ہوگا، لیکن نہ ہم ایسی خبریں پڑھتے ہیں، نہ ہمارا میڈیا ایسی رپورٹس جاری کرنے کے لیے محنت کرتا ہے۔ حکومت کو بھی اکثر معلومات اخبار سے ہی پتا چلتی ہیں۔

جرمن چانسلر انجیلا مرکل بطور حکمران ایک طویل اننگ کھیل کر منظر سے ہٹ گئی ہیں۔ جب یہ اقتدار میں آئیں اور روسی صدر سے پہلی بار ملاقات کے لیے گئیں تب روسی صدر پیوٹن نے اپنا پالتو کتا ملاقات کے دوران ان سے ملانے کو بلا لیا تھا۔ یہ سیدھا سیدھا ایک مہمان کو دبانے یا انڈر پریشر لانے کی ایک کوشش تھی۔ اس موقعے کی تصویر سے بھی صورتحال کا اندازہ ہوتا ہے۔

پھر انہی انجیلا مرکل نے روس کے ساتھ نارڈ اسٹریم ٹو فیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا۔ امریکی اس معاہدے کے سخت خلاف تھے۔ ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں کی پالیسی اس حوالے سے ایک ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے اس پائپ لائن پر کام کرنے والی کمپنیوں اور افراد کو اس منصوبے پر کام چھوڑنے کا کہا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں پابندیوں کے لیے تیار رہنے کا انتباہ کیا۔ مرکل نے اس سب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے معاہدے پر عمل درآمد کیا۔ اب پائپ لائن کا افتتاح ہوچکا ہے۔

جرمنی اور امریکا میں اب اس پر معاہدہ بھی ہوگیا ہے۔ معاہدے کے مطابق روس اگر اس گیس پائپ لائن کو بطور ہتھیار استعمال کرے گا تو دونوں ملک اس پر پابندیاں لگائیں گے جبکہ یوکرین کو گرین انرجی سیکٹر بنانے کے لیے امداد دیں گے۔

انجیلا مرکل نے روس کے ساتھ نارڈ اسٹریم ٹو فیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا تھا—رائٹرز
انجیلا مرکل نے روس کے ساتھ نارڈ اسٹریم ٹو فیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا تھا—رائٹرز

اس نئی روسی پائپ لائن سے نہ صرف روس کی گیس فراہمی کی صلاحیت بہت بڑھ گئی ہے بلکہ جو روٹ استعمال کیا گیا ہے اس کی وجہ سے ٹرانزٹ فیس میں بھی کمی آئی ہے۔ روس سستی گیس فراہم کرنے کی پوزیشن میں آگیا ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ جرمنی کو ہوگا۔ اب امریکی مخالفت کو دیکھیں، جرمنی کی مزاحمت کو بھی اور موجودہ گیس بحران سے ذرا پہلے اس پائپ لائن کی تکمیل کو بھی۔ انجیلا مرکل کی لیڈر شپ کو ہمیں داد دینی پڑے گی۔

فائیو جی سائبر سیکیورٹی کو لے کر امریکی چینی کمپنی ہواوے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ امریکی فنڈڈ ایک متبادل فائیو جی اتحاد بھی قائم کیا گیا ہے۔ اتحادی ملکوں پر دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے کہ چینی کمپنی کے ساتھ کام نہ کیا جائے۔ چانسلر مرکل کا جرمنی اس امریکی پالیسی کا بھی مخالف رہا۔

جرمنی میں فائیو جی سیکیورٹی لا منظور کیا گیا۔ اس قانون کی منظوری نے جرمن حکومت کو اختیار دیا کہ اگر سیکیورٹی تحفظات ہوں تو سروس فراہم کرنے والی کمپنی پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اس جرمن قانون کی محتاط انداز میں چینی کیمونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار گلوبل ٹائم نے بھی تعریف کی۔ ہواوے نے اس قانون کا خیر مقدم کیا۔ گلوبل ٹائم کا کہنا تھا کہ اس قانون میں سب سے یکساں سلوک روا رکھا گیا ہے۔ کسی کمپنی کو خصوصی طور پر نشانہ نہیں بنایا گیا۔

یہاں بھی مرکل کا جرمنی ایک مختلف مؤقف اختیار کرتا اور اس پر کھڑا ہوتا دکھائی دیا۔ یہ نکتہ آسانی سے سمجھنا ہے تو پڑوسی ملک پر نگاہ ڈالیں، ہمارا بھارت مہان امریکی پریشر کا سامنا نہیں کرسکا، اپنا فائیو جی بنانے کے چکروں میں ہے اور اب اس کی صلاحیت پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔

جرمن چانسلر انجیلا مرکل بطور حکمران ایک طویل اننگ کھیل کر منظر سے ہٹ گئی ہیں—اے ایف پی
جرمن چانسلر انجیلا مرکل بطور حکمران ایک طویل اننگ کھیل کر منظر سے ہٹ گئی ہیں—اے ایف پی

مرکل جب 2005ء میں چانسلر بنیں تو جرمنی میں بیروزگاری کی شرح 11 فیصد تھی جو آج 6 فیصد ہے اور اس کے باوجود کہ کورونا کی وبا نے معیشت سے اپنا خراج وصول کیا ہے۔ جرمنی دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے جبکہ دنیا بھر میں پائیدار ترقی کے لیے جرمنی دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ خرچہ کرتا ہے۔ جب مرکل آئیں تب جرمنی کا مرد بیمار تھا مگر آج یورپ کے سیاسی، معاشی اور اقتصادی لیڈر ہونے پر کسی کو شک نہیں ہے۔

مرکل نے یورپی یونین میں 4 قسم کی آزادیوں پر ہمیشہ اصرار کیا۔ مصنوعات، سرمایہ، سروس اور لوگوں کے نقل وحمل کی آزادی۔ کورونا سے بحالی کے لیے یورپ کو 750 ارب یورو (جو 913 ارب ڈالر بنتے ہیں) کا فنڈ جاری کرنے کے لیے اپنی حمایت فراہم کی۔ بریگزٹ کے مذاکرات کے لیے یورپ کو اکٹھا بھی رکھا۔

مرکل نے جب کوئی بولڈ فیصلہ کیا تو پھر اس کی مخالفت کی پرواہ نہیں کی۔ 10 لاکھ مہاجرین کو جرمنی آنے کی اجازت دی جن میں اکثریت شام کے لوگوں کی تھی۔ جرمنی نے روس یوکرین تنازع میں مذاکرات اور معاہدے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔

انجیلا مرکل میں صرف خوبیاں ہی نہیں تھیں۔ ان کو جرمن نوجوانوں نے ان کی کام لٹکاؤ طبعیت کی وجہ سے ان کا نام بطور اصطلاح مستعار لیا۔ 'مرکلن' کی اصطلاح ایسے موقعے پر بولی یا لکھی جاتی جب کسی حساس موضوع پر خاموشی اختیار کی جائے، کوئی فیصلہ نہ کیا جائے یا اس کو لمبے عرصے کے لیے لٹکایا اور نظر انداز کردیا جائے۔ یہ بھی مرکل کا ایک اسٹائل تھا۔

جرمن چانسلر نے عہدہ چھوڑنے سے 2 ہفتے پہلے چینی صدر شی سے فون پر رابطہ کیا۔ اس آخری رابطے میں اپنی حمایت کی ایک بار پھر یقین دہانی کروائی کہ چین اور جرمنی کے تعلقات آئندہ بھی گہرے اور دوستانہ رہیں گے۔ صدر شی نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ مرکل نے بہت سرگرمی سے یورپ اور جرمنی کا تعاون بڑھانے کے لیے کام کیا۔

ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ نے اس ٹیلی فون کال کا موازنہ صدر شی کی امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت سے کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک ہی دن ہونے والی دونوں فون کالز اور بات چیت کی ٹون بہت ہی مختلف تھی۔

مرکل  نے بہت سرگرمی سے یورپ اور جرمنی کا تعاون بڑھانے کے لیے کام کیا—رائٹرز
مرکل نے بہت سرگرمی سے یورپ اور جرمنی کا تعاون بڑھانے کے لیے کام کیا—رائٹرز

جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے جانے کے بعد دنیا کی اہم دارالحکومتیں اور ذرائع ابلاغ جرمنی کے آئندہ کردار کے حوالے سے اندازے لگانے اور سوچ بچار کرنے میں مصروف ہیں۔ جرمنی پاکستان کا ایک بڑا بزنس پارٹنر ہونے کے علاوہ امداد دینے والا ایک اہم دوست ملک بھی ہے۔ یورپی یونین سے ہم نے جی پلس اسٹیٹس بھی لے رکھا ہے۔ افغانستان میں بھی جرمن مفادات ہیں اور وہاں کے معاملات میں جرمنی سرگرمی سے حصہ بھی لیتا ہے۔ لیڈر تو آتے جاتے ہیں ہمیں اپنے کاروباری و معاشی مفاد میں بھی اس تبدیلی کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے تھا۔

تبصرے (5) بند ہیں

عامر Sep 30, 2021 06:20pm
بہت عمدہ آرٹیکل۔ حقیقت یہ ہے ہے کہ اس موضوع پر پہلی بار اردو میں کوئی اچھا، تفصیلی کالم پڑھا۔ اچھے طریقے سے تمام پہلوئوں کو ڈسکس کیا اور لکھنے سے پہلے کیا گیا ہوم ورک اور ریسرچ جھلک رہی ہے۔ ویل ڈن
شیریار محسود Oct 01, 2021 12:09am
بہترین لکھا ہے اور اس میں ہمارے لئے سبق ہے کہ ہم دوسروں کے بچوں کو سبق پڑھانے سے پہلے خود پڑھیں اور دیکھیں کہ دنیا کہاں ہے اور ہمیں جان کے لالے پڑے ہیں
Atif Sabir Oct 01, 2021 01:17pm
Interesting to see such topics becoming part of Urdu mainstream media. Dawn deserves credit for that. It is important to emphasize more on such write-ups.
Ramay Oct 01, 2021 01:51pm
Beyond any doubt she was a great leader.
عرفان Oct 02, 2021 02:30am
ایسے لیڈر ہونے کے لیے ایک قوم بھی چاہیے ہوتی ہے- نسلی تعصب اور ہر دو سو کلو میٹر پر ایک جاگیر دار کے ہجوم میں ایسے لیڈر نہیں آتے-