2015ء میں مجھے اور میرے دوستوں کو دستاویزی فلم سازی کا فن سیکھنے کا جوش اُٹھا۔ ان دنوں اس حوالے سے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی میں امریکی فنڈنگ سے قائم کردہ سینٹر آف ایکسی لینس جرنلزم نے ایک تربیتی پروگرام متعارف کروایا تھا۔

15 روزہ اس کورس کے لیے مقرر ہمارے استاد امریکا کے مایہ ناز صحافتی تعلیمی ادارے مڈل جرنلزم اسکول کے پروفیسر برینٹ ہوف مین تھے۔ برینٹ نے ہمیں ٹی وی کے لیے دستاویزی فلم کی عکس بندی سے قبل کی تیاری، بنیادی بیانیے کی فراہمی، اسکرپٹ لکھنے اور پوسٹ پروڈکشن کے حوالے سے تربیت فراہم کی جو آج بھی پیشہ ورانہ فرائض میں کام آتی ہے۔

مختصر تعارف کے بعد پتا چلا کہ برینٹ ایک طرف تو صحافت پڑھانے کی ملازمت کرتے ہیں مگر دوسری طرف وہ ایسی دستاویزی فلمیں بھی بناتے ہیں جو چینی مفادات کو نقصان پہنچاتی ہوں۔ ان دنوں نیا نیا سی پیک کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور برینٹ کے پاکستان آنے کا مقصد ہمیں 15 دن پڑھانے کے ساتھ ساتھ چین کے سنکیانگ کے علاقے میں جاری مسلم اکثریت کی جدوجہد اور وہاں سے پاکستان آنے والے مسلم چینی مہاجرین پر دستاویزی فلم بنانا تھا۔

اسی تربیتی کورس کے دوران برینٹ نے اپنی ایک تازہ ترین ڈاکومنٹری بھی ہمیں دکھائی۔ سیونگ میس عائینک (Saving Mes Aynak) کے عنوان سے یہ دستاویزی فلم ایک افغان ماہرِ آثار قدیمہ قادر تیمور کی کاوشوں پر مشتمل تھی جو افغانستان کے دارالحکومت کابل سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بدھ تہذیب سے تعلق رکھنے والے شہر کو بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ فارسی میں میس تانبے کو کہا جاتا ہے اور اسی حوالے سے اس جگہ کا نام میس عائینک رکھا گیا تھا۔

اس دستاویزی فلم میں ایک چینی کمپنی کو آثارِ قدیمہ کے لیے خطرے کے طور پر دکھایا گیا جسے اس علاقے میں تانبے کی کان کنی کا ٹھیکہ ملا ہوا ہے۔ اس دستاویزی فلم کو 30 سے زائد ایوارڈز ملنے کے علاوہ الجزیرہ سمیت 70 ملکوں میں ٹی وی پر نشر کیا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد افغانستان میں چینی مفادات کی منفی تصویر دکھانا ہے۔

اس دستاویزی فلم سے جو 2 اہم باتیں میں نے اخذ کیں ان میں ایک یہ تھی کہ افغانستان ماضی میں صنعتی مرکز رہا تھا اور یہاں کے باشندے صدیوں سے دھات سازی کا ہنر جانتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ اگرچہ امریکا افغانستان میں فوجی آپریشن کررہا تھا مگر امریکیوں اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ چین اصل میں افغانوں پر ظلم کرنے کے ساتھ ساتھ بدھ تہذیب کے آثارِ قدیمہ کو مسمار کررہا ہے۔

میں یہ دیکھ کر حیران تھا کہ امریکا بہادر اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کس طرح طویل مدتی پروپگینڈا کرتا ہے۔

طالبان کی جھولی میں کابل کے گرنے کے بعد امریکی نشریاتی ادارے سی این بی سی نیوز نے بھی ایسی خبریں چلانا شروع کردی ہیں جن میں چین کی طالبان سے قربت کی وجہ افغانستان میں موجود سونے، چاندی، لیتھیم، کرومیم، نوڈینیم، المونیم، زنک مرکری کے معدنی ذخائر کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ امریکی جیالوجیکل سروے کی جانب سے افغانستان میں غیر پیٹرولیم معدنیات کا تخمینہ ایک سے 3 ہزار ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

امریکا نے اپنے 20 سالہ قبضے کے دوران افغانستان کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے لیے قابلِ ذکر اقدامات نہیں کیے جبکہ امریکا کا قائم کردہ سیاسی ڈھانچہ بھی زمین بوس ہوچکا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق 40 سال سے جنگ زدہ افغانستان کی معیشت غیر مستحکم ہے اور یہ عالمی امداد پر کھڑی ہے۔

امریکا نے اپنے 20 سالہ قبضے کے دوران افغانستان کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر اقدامات نہیں کیے—اے ایف پی
امریکا نے اپنے 20 سالہ قبضے کے دوران افغانستان کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر اقدامات نہیں کیے—اے ایف پی

امریکی مداخلت اور قبضے کے بعد افغانستان میں مربوط ترقی کے لیے عالمی بینک کے ماتحت افغانستان ری کنسٹرکشن ٹرسٹ فنڈ قائم کیا گیا تھا۔ اس فنڈ کے قیام سے اب تک افغانستان کو 34 ملکوں نے 12 ارب 90 کروڑ ڈالر کی معاونت کی ہے جبکہ عالمی بینک 2002ء سے اب تک 5 ارب 30 کروڑ ڈالر کی مالی مدد فراہم کرچکا ہے۔

اس خطیر رقم کے ذریعے افغانستان میں 1100 سول سروس کے افراد کو تربیت دے کر ملازمت دی گئی۔ اس کے علاوہ تعلیم، ہنرمند افرادی قوت کی تیاری، صحت اور دیگر شعبہ جات کی خدمات میں نچلی سطح پر بہتری لانے کی کوشش کی گئی۔ مگر افغان معاشرے کو کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں کیا جاسکا۔

اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ عالمی بینک کے پاس بھی افغانستان میں ٹیکس وصولی کے حوالے سے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ افغانستان نے 2017ء تک مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 9 فیصد تک ٹیکس جمع کیا۔

امریکی انخلا سے قبل افغانستان کے میکرو اکنامک اشاریے بہت اچھے نہیں تھے۔ افغانستان میں بے روزگاری کی شرح 11.2 فیصد ہے۔ افغانستان کا جی ڈی پی 19.81 ارب ڈالر ہے۔ تجارتی توازن دسمبر 2020ء میں 5 ارب 76 کروڑ امریکی ڈالر، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 89 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہا جو کہ جی ڈی پی کا 21.2 فیصد بنتا ہے۔

اسی طرح افغانستان کی برآمدات 77 کروڑ 70 لاکھ ڈالر جبکہ درآمدات 6 ارب 53 کروڑ ڈالر ہیں۔ ملک میں سونے کے ذخائر 21.87 ٹن ہیں۔ حکومتی قرضے جی ڈی پی کا 7.8 فیصد بنتے ہیں، حکومتی بجٹ 51 ارب 31 کروڑ جبکہ افغان حکومتی اخراجات جی ڈی پی کا 24 فیصد حصہ بنتے ہیں، عسکری اخراجات 26 کروڑ 20 لاکھ، کارپوریٹ ٹیکس اور ذاتی انکم ٹیکس 20 فیصد کی سطح پر ہیں۔

عالمی مالیاتی ادارے کی ای ایف ایف دستاویزات کے مطابق 22ء-2021ء میں رواں کھاتوں کا خسارہ جی ڈی پی کے 28 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ طالبان سے قبل افغانستان کی برآمدات 70 کروڑ 47 لاکھ ڈالر تھیں جن میں سے 57 فیصد برآمدات شنگھائی تعاون کونسل کے ملکوں کو کی جاتی ہیں۔

مگر امریکی افواج کے انخلا کے قریب آتے ہی افغانستان کے اثاثے منجمد کردیے گئے جس کی وجہ سے معیشت میں واضح ابتری نظر آئی ہے۔ مارچ کے مہینے میں افغانستان میں افراط یا قیمتوں میں اضافے کی شرح 4.4 فیصد تھی جو اپریل 2021ء میں اچانک بڑھ کر 17 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ سرحدوں کی بندش سے اشیا ضروریہ کی قلت پیدا ہوئی اور مہنگائی میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ افغانستان میں بنیادی ضرویات کی اشیا درآمد کی جاتی ہیں اس وجہ سے رواں کھاتوں میں خسارہ جی ڈی پی کا 24.3 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ برآمدات 2 فیصد اور درآمدات 5 فیصد کم ہوئی ہیں۔

گزشتہ دہائی کے دوران افغان معاشرے کو کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں کیا جاسکا—رائٹرز
گزشتہ دہائی کے دوران افغان معاشرے کو کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں کیا جاسکا—رائٹرز

اسٹیٹ بینک کی سابق گورنر، سابق نگران وزیرِ خزانہ اور چیئرپرسن پاکستان اسٹاک ایکسچینج ڈاکٹر شمشاد اختر نے نٹ شیل کمیونیکیشن اور پاکستان کارپوریٹ گروپ کے آن لائن مذاکرے 'افغانستان کانفرنس' سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ افغانستان کو کمزور ادارے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خدشات کے ساتھ امن و امان اور سلامتی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ 3 کروڑ 90 لاکھ کی آبادی کے ملک کی نصف آبادی 15 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ملک کی آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ وہ لوگ جو خطِ غربت سے اوپر کی زندگی گزار رہے ہیں انہیں بھی بنیادی شہری سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی کہ 2050ء تک ملک کی آبادی دگنی ہوجائے گی‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'عالمی برادری کو افغانستان کی معیشت اس قدر ضرور بہتر بنانا ہوگی کہ یہ دنیا کو خدمات اور مصنوعات برآمد کرسکے نہ کہ دہشت گردی، منشیات اور غیر قانونی اشیا فروخت کرنے والی سرزمیں بن جائے۔ افغان خطہ معدنیات سے بھرا پڑا ہے۔ قدرتی وسائل جنوبی ایشائی بیلٹ اور وسطی ایشیائی ملکوں اور افغانستان میں موجود ہیں۔ وہاں سے امیر ملکوں کو ایندھن کی فراہمی کی پائپ لائن تو بن جاتی ہے مگر غریب ملکوں کو وسائل فراہم کرنے کے منصوبے جیسا کہ کاسا 1000 اور ٹاپی گیس پائپ لائن سالوں سے تعطل کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ امیر ملکوں کی مداخلت کے علاوہ بھارت کی رخنہ اندازی بھی شامل ہے‘۔

ڈاکٹر شمشاد اختر کہتی ہیں کہ ’عالمی بینک نے افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے جو افغان ری کنسٹرکشن ٹرسٹ فنڈ قائم کیا تھا اسے دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام ممالک اسی فنڈ کے ذریعے افغانوں کی معاونت کریں نہ کہ وہ الگ الگ اقدامات اٹھائیں کیونکہ اس طرح ایک قابلِ عمل ترقی کا حصول ممکن نہیں ہوسکے گا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت سے پہلے ہی 5 لاکھ افراد نقل مکانی کرچکے ہیں‘۔

ڈاکٹر شمشاد اختر کے مطابق ’افغانستان میں بحران سنگین ہورہا ہے کیونکہ معیشت میں سرمائے کی فراہمی رُک گئی ہے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے قبل ہی افغانستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کافی بلند تھا۔ طالبان کے آتے ہی عالمی مالیاتی ادارے نے ای اسی ایف پروگرام کو روکتے ہوئے 40 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی رقوم روک لیں۔ عالمی بینک نے بھی اپنی معاونت اور منصوبے روک دیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے افغانستان کے 9 ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کردیا ہے۔ یوں افغانستان کو سرمائے کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال سے حکومتی ڈھانچہ کمزور ہوگا۔ سیکیورٹی کی صورتحال مخدوش رہے گی جبکہ غیر قانونی معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا‘۔

عالمی مالیاتی ادارے کی افغانستان کے حوالے سے ویب لنک کو کھولا جائے تو اس پر درج 18 اگست 2021ء کے ایک نوٹ میں ادارے کے ترجمان گیری رائس کا بیان شامل ہے۔ گیری رائس کے مطابق ’آئی ایم ایف عالمی برادری کے خیالات سے رہنمائی لیتا ہے۔ فی الحال افغانستان میں کسی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کے اندر وضاحت کا فقدان پایا جاتا ہے‘۔

عالمی مالیاتی ادارے نے افغانستان پر طالبان کے قبضے سے چند ہفتے قبل extended credit facility arrangement کا پہلا جائزہ پیش کیا تھا، جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کو زبردست مسائل کا سامنا ہے۔ سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال اور عدم استحکام میں اضافے کی وجہ سے اعتماد مجروح ہورہا ہے۔ سرمایہ کاری اور ترقی کے علاوہ کورونا نے سماجی اور معاشی حالات کو بھی متاثر کیا ہے۔ ملک میں غربت اور بے روزگاری ہے۔

افغانستان میں بحران سنگین ہورہا ہے کیونکہ معیشت میں سرمائے کی فراہمی رُک گئی ہے—اے ایف پی
افغانستان میں بحران سنگین ہورہا ہے کیونکہ معیشت میں سرمائے کی فراہمی رُک گئی ہے—اے ایف پی

اس جائزے کے بعد آئی ایم ایف نے افغانستان کے لیے فوری طور پر 30 کروڑ 70 لاکھ ڈالر قرض کی منظوری دی تھی۔ آئی ایم ایف نے کورونا وبا کے اثرات سے معیشت کو محفوظ رکھنے کے لیے Rapid credit facility کے تحت 20 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی رقم منظور کی اور قرض میں ایک کروڑ کا ریلیف فراہم کیا تھا۔ 2020ء میں افغانستان کا جی ڈی پی صرف 2 فیصد کم ہوا جبکہ خدشہ تھا کہ 5 فیصد تک معیشت میں گراوٹ آئے گی۔ زراعت نے 5 فیصد کی شرح سے ترقی کی تاہم خدمات اور صنعتی پیداوار نے یہ ترقی جذب کرلی۔

حکومت کی مقامی آمدنی میں 16 فیصد کی کمی ہوئی جبکہ ٹیکس وصولی کی شرح 7 فیصد تک گر گئی۔ اخراجات 21 ارب افغانی کرنسی تک پہنچ گئے جو مجموعی قومی پیداوار کے 28 فیصد سے زائد ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے نے اپنے پروگرام کی منظوری دیتے ہوئے افغانستان کی شرح نمو یا مجموعی قومی پیداوار کی توقع 4 فیصد سے کم کرکے 2.7 فیصد کردی تھی۔ کورونا وبا سے افغانستان کی معیشت کو 9 فیصد کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا تھا۔

عالمی برادری کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ افغانستان کو کیسا دیکھنا چاہتی ہے۔ طالبان 2000ء کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور عوامی حمایت کے ساتھ بغیر کسی مزاحمت کے افغانستان پر حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ میں ڈاکٹر شمشاد اختر کے فلسفے سے اتفاق کرتا ہوں کہ اگر دنیا افغانستان میں امن دیکھنا چاہتی ہے تو اس بات سے قطع نظر کہ وہاں کس کی حکومت ہے، عوام کی معاونت جاری رکھے۔ پاکستان سمیت خطے کے ملکوں کو افغانستان کی مدد کرنا ہوگی تاکہ وہ اپنے اداروں کو قائم کرسکے اور اقوامِ متحدہ کے ملینیم اہداف کو حاصل کرسکیں اور اپنے عوام کو غربت سے نکال سکیں۔

اگر افغانستان معاشی طور پر مستحکم نہ ہوا تو اس کے پڑوسی ملکوں پاکستان، ایران اور دیگر کو مہاجرین کے ساتھ ساتھ امن و امان کے مسائل کا بھی سامنا ہوگا۔ دنیا کو یہ خدشہ ہے کہ غیر ریاستی عناصر دنیا میں کہیں بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا امریکا، یورپ اور دنیا کے دیگر ملکوں کو طالبان کے ساتھ مل کر ہی افغانستان کو عالمی برادری کے ہمہ پلہ بنانا ہوگا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Noman Oct 06, 2021 01:53pm
مطلب آسان الفاظ میں حل "اللہ کے نام پہ دے دے بابا" ہی ہے-