اسلام آباد: پی ایم سی بلڈنگ کے باہر ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج، پولیس کا مظاہرین پر لاٹھی چارج

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2021
مظاہرے کے دوران پولیس نے تقریبا 20 ڈاکٹروں کو حراست میں لے لیا اور بقیہ کو منتشر کردیا۔ - فوٹو:ڈان نیوز
مظاہرے کے دوران پولیس نے تقریبا 20 ڈاکٹروں کو حراست میں لے لیا اور بقیہ کو منتشر کردیا۔ - فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد پولیس نے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کی عمارت کے باہر ینگ ڈاکٹرز پر لاٹھی چارج کیا جب وہ رجسٹریشن کے لیے قومی لائسنسنگ امتحان (این ایل ای) کو لازمی قرار دینے کے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

احتجاج اس وقت پرتشدد ہوگیا جب مظاہرین میں سے چند نے پی ایم سی کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کی تو پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔

مظاہرے کے دوران پولیس نے تقریبا 20 ڈاکٹروں کو حراست میں لے لیا اور بقیہ کو منتشر کردیا۔

بعد ازاں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایسشن (وائی ڈی اے) نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) میں اس کے صدر ڈاکٹر حیدر عباسی کی صدارت میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں ایسوسی ایشن نے حکومت کو الٹی میٹم جاری کیا کہ وہ گرفتار ڈاکٹروں کی فوری رہائی کا حکم دے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان کے سرکاری ہسپتالوں میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال دوسرے دن بھی جاری

انہوں نے دھمکی دی کہ اگر پولیس نے ڈاکٹروں کو حراست میں رکھا تو ملک گیر ہڑتال پر جائیں گے۔

ایک بیان میں اسلام آباد پولیس نے کہا کہ مظاہرین نے پی ایم سی کی عمارت میں گھسنے اور املاک میں توڑ پھوڑ کی کوشش کی۔

پولیس نے بتایا کہ اس دوران چند ’شرپسندوں‘ نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور اس کے نتیجے میں ایس پی صدر زون زخمی ہوا۔

پولیس کے مطابق مظاہرین کو روکنے اور منتشر کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان سے بچانے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے لیکن سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی کسی صوررت اجازت نہیں دی جا سکتی۔

این ایل ای تنازع

پی ایم سی نے ان تمام گریجویٹس کے لیے این ایل ای کا امتحان پاس کرنا لازمی قرار دے دیا ہے، جو اس وقت ہاؤس جاب کر رہے ہیں یا اپنی مستقل رجسٹریشن کی تیاری کررہے ہیں۔

ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس دونوں طلبہ کو مستقل ملازمت کے لیے اور پاکستان میں میڈیسن کی پریکٹس کے لیے این ایل ای کو پاس کرنا ہوگا۔

اس اقدام نے طبی برادری کو مشتعل کردیا ہے جو گزشتہ کئی مہینوں سے سراپا احتجاج تھے۔

واضح رہے کہ اکتوبر 2019 میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا جس نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو تحلیل کیا اور پی ایم سی قائم کیا گیا تھا۔

ایک روز بعد وزارت صحت نے کونسل کی عمارت کو سیل کر دیا تھا اور اس کے 220 ملازمین کو برطرف کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’کوئی ہم سے بھی پوچھے کہ ہم ڈاکٹرز احتجاج کیوں کررہے ہیں‘

پی ایم سی کے تین کونسلز ہیں، میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ اور نیشنل میڈیکل اتھارٹی۔

پی ایم سی آرڈیننس 2019 کے سیکشن 21 کے تحت پاکستان میں پریکٹس کرنے کے لیے عارضی اور مکمل لائسنس حاصل کرنے کے لیے این ایل ای پاس کرنا لازمی ہوگا۔

نیشنل میڈیکل اتھارٹی کونسل کے منظور شدہ شیڈول کے مطابق سال میں کم از کم دو مرتبہ این ایل ای منعقد کیا جائے گا اور یہ اگلے سال مارچ کے بعد گریجویٹ ہونے والے تمام طلبا پر لاگو ہوگا۔

اس کے اجرا کے بعد میڈیکل ٹیچرز ایسوسی ایشن نے این ایل ای پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ اس سے تعلیم کے معیار کی یقین دہانی نہیں کی جاسکتی۔

پی ایم سی کے فیصلے کے خلاف راولپنڈی میں ایک حالیہ احتجاج میں وائی ڈی اے نے کہا تھا کہ تعلیم کا معیار بہتر بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور تعلیم کے معیار کو بہتر کیے بغیر اضافی امتحان لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

رواں سال اگست میں پی ایم سی کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی نے این ایل ای کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'پہلے قومی لائسنسنگ امتحان کے انعقاد نے ہمارے ملک میں صحت کی دیکھ بھال کا نظام معیاری بنانے کی راہ ہموار کی ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں