مہران ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی کیس: 12 عہدیداران کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2021
مہران ٹاؤن میں 27 اگست کو فیکٹری میں آگ لگی تھی اور 16 مزدور جاں بحق ہوگئے تھے---فائل/فوٹو: اے پی
مہران ٹاؤن میں 27 اگست کو فیکٹری میں آگ لگی تھی اور 16 مزدور جاں بحق ہوگئے تھے---فائل/فوٹو: اے پی

کراچی کی مقامی عدالت نے مہران ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی کیس میں کے-الیکٹر کے جنرل منیجر اور دیگر اداروں کے 12 عہدیداروں کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیا۔

کورنگی کے علاقے مہران ٹاؤن میں 27اگست کو صنعتی علاقے میں قائم فیکٹری بی ایم لگیج میں آتشزدگی کے نتیجے میں 16مزدور جاں بحق ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: مہران ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی، تفتیشی افسر کو پانچ دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم

پولیس نے ابتدائی طور پر فیکٹری کے مالک حسن میٹھا عرف علی میٹھا، عمارت کے مالک فیصل طارق، منیجر سید عمران علی زیدی، سپروائزر ظفر اور ریحان، واچ میں سید زرین کو مبینہ طور پر واقعے میں ملوث ہونے پر مقدمے میں نامزد کردیا تھا۔

بعد ازاں پولیس نے مذکورہ ملزمان کے ساتھ ساتھ لیبر ڈپارٹمنٹ کے افسر محمد علی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر کورنگی عبدالسمیع، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر لینڈ عرفان حسین اور سول ڈیفنس کنٹرولر شہاب الدین کو بھی حتمی تحقیقی رپورٹ میں شامل کیا تھا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ ایسٹ نے سماعت کے دوران 12 اہم افسران سمیت کے-الیکٹرک کے جنرل منیجر اور نئے کنکشنز ہیڈ، کے ڈی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر لینڈ عرفان حسین، کے ڈی اے کے ایگزیکٹو انجینئر زاہد حسین، سول ڈیفنس ڈائریکٹر صفدر علی اور ڈپٹی کنٹرولر شہاب الدین، ایس بی سی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر خاور حیات، سینئر بلڈنگ انسپکٹر سلمان شاہد اور ڈپٹی کمشنر اور ضلع کورنگی کے ایڈمنسٹریٹر کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیا۔

مجسٹریٹ نے تفتیشی افسر (آئی او) کو ہدایت کی کہ ان عہدیداروں کی گرفتاری یقینی بنائیں اور عدالت کے سامنے پیش کریں۔

قبل ازیں 25 ستمبر کو تفتیشی افسر نے حتمی رپورٹ پیش کی تھی جس میں ایس بی سی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالسمیع، کے ڈی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر لینڈ عرفان حسین، سول ڈیفنس ڈپٹی کنٹرولر شہاب الدیں اور لیبر ڈپارٹمنٹ کے افسر محمد علی کو واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی: کورنگی کی فیکٹری میں آتشزدگی، 16 افراد جاں بحق

تفتیشی افسر نے رپورٹ میں کہا تھا کہ فیکٹری ایک رہائشی پلاٹ میں قائم کی گئی تھی اور ایس بی سی اے، کے ڈی اے، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن، سول ڈیفنس سمیت متعلقہ افسران کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور انسپکشن یا کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔

انہوں نے عدالت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری عہدیداروں کے خلاف تعزیرات پاکستان (پی پی سی) کے ذمہ داریوں سے غفلت برتنےکی سیکشن 119 کا اطلاق ہوتا ہے۔

جج نے نشان دہی کی کہ تفتیشی افسر نے جان بوجھ کر سول ڈیفنس ڈائریکٹر صفدر علی، کے-الیکٹرک کے جنرل منیجر اور ہیڈ نیو کنکشنز، کورنگی کے ڈپٹی کمشنر اور ایڈمنسٹریٹر، کے ڈی اے کے ایگزیکٹیو انجینیئر زاہد حسین، سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی ڈپٹی ڈائریکٹر محمد کامران خان اور فائر افسران اشتیاق احمد کے نام چارج شیٹ سے خارج کردیا ہے۔

واقعے کا مقدمہ کورنگی انڈسٹریل ایریا کے تھانے میں ریاست کی مدعیت میں ایس ایچ او محمد طارق آرائیں نے پی پی سی کے سیکن 322 اور 34 کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں