لکھاری کراچی میں مقیم ایک مدرس اور محقق ہیں۔
لکھاری کراچی میں مقیم ایک مدرس اور محقق ہیں۔

جمعرات کے روز ہرنائی میں زلزلے کے باعث غیر معمولی جانی و مالی نقصان ہوا۔ زلزلے کے جھٹکے کوئٹہ، قلعہ عبداللہ، سنجاوی، سبی، زیارت، پشین اور مسلم باغ میں بھی محسوس کیے گئے۔

2013ء میں آواران زلزلے کے نتیجے میں 800 اموات ہوئی تھیں، تقریباً 46 ہزار گھر تباہ ہوئے تھے اور 37 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ متاثر ہوا تھا۔ ہرنائی میں امدادی کارروائیاں مکمل ہونے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں بحالی پروگرام شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

چونکہ بلوچستان بار بار زلزلوں کا نشانہ بنتا رہتا ہے اس لیے وسیع پیمانے پر جامع بحالی اور تعمیرِ نو کے کاموں کو انجام دینا ضروری ہے۔ لیکن بلوچستان میں کام کرنے کے دوران مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور صوبائی حکومت میں تناؤ کی صورتحال برقرار ہے۔ صوبہ شورش، دہشتگرد حملوں اور فرقہ وارانہ تنازع کا شکار بھی ہے۔ مگر گزشتہ زلزلوں کے بعد بحالی، تعمیرِ نو اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے اٹھائے گئے متعدد اقدامات سے چند اہم اسباق حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

آواران ہاؤسنگ ری کنسٹرکشن منصوبے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کی شروعات ستمبر 2013ء میں آنے والے زلزلے کے بعد ہوئی تھی۔ ضلعے میں گھروں کی تعمیرِ نو کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومت نے مشترکہ طور پر یہ منصوبہ تیار کیا تھا۔ 16 ہزار گھروں کی تعمیرِ نو کے لیے 4 ارب روپے مختص کیے گئے، یعنی ایک گھر کی تعمیر نو کا تخمینہ تقریباً 2 لاکھ 50 ہزار لگایا گیا تھا۔ زلزلہ کشمیر 2005ء کے بعد ایک بار پھر ملک میں شروع ہونے والے گھروں کی تعمیرِ نو کے اس منصوبے کے تحت مالک مکان کو اپنی نگرانی میں ہی گھر کی تعمیر کرنا تھی۔

پڑھیے: ہمیں پائیدار شہر تعمیر کرنے ہوں گے

پروجیکٹ ٹیم نے بہتر تعمیرات کے لیے ویژول مواد اور بروشرز کو تیار کیا۔ زیرِ تعمیر گھروں کا معائنہ اور تکنیکی مدد کی فراہمی کے لیے فیلڈ ٹیم تشکیل دی گئی۔ گھروں کے مالکان کو دستاویزی کارروائی کے بارے میں آگاہ کیا گیا اور سہولت کاری کو تعمیرات کے مختلف مراحل تک توسیع دی گئی۔

سرکاری افسران کے باہمی تعاون سے ترقیاتی کام کی نگرانی کے لیے ولیج ڈیولپمنٹ کونسلز قائم کی گئیں۔ گھروں کے مالکان کو تعمیرات کے ڈیزائن اور مٹیریل سے متعلق مختلف آپشنز دیے گئے، ساتھ ہی ساتھ انہیں ہر آپشن کی ممکنہ لاگت اور فوائد سے بھی آگاہ کیا گیا تاکہ وہ اپنی مرضی سے ڈیزائن اور مٹیریل کا چناؤ کرسکیں۔ اکثریت نے اسٹیل کی سلاخوں اور سیمنٹ بلاکس پر مشتمل تعمیرات کا انتخاب کیا۔ تعمیرات کا معیار بہتر بنانے کے لیے راج مستریوں کو تربیت دی گئی۔ جائزاتی دورے بھی کیے گئے۔

اربن ریسورس سینٹر اور ٹیکنیکل ٹریننگ اینڈ ریسورس سینٹر کی جانب سے بھی ایک منصوبہ شروع کیا گیا۔ ان غیر سرکاری تنظیموں نے آواران اور کیچ اضلاع کے رہائشیوں کے لیے کم خرچ اور مقامی آبادی کے زیرِ نگرانی گھروں اور انفرااسٹرکچر کی بحالی اور تکنیکی مدد کی فراہمی کا پروگرام شروع کیا۔ یہ ایک سادہ لیکن مؤثر اور آزمودہ طریقہ تھا۔

علاقے کے سروے اور معاشرے کے مختلف حلقوں کے افراد سے ملاقات کے بعد دیہات کے 4 مقامات کو چُنا گیا۔ وہ علاقے انتہائی غربت کے شکار گھرانوں پر مشتمل تھے۔ ان علاقوں میں لوگ کچے گھروندوں میں رہتے تھے۔ لوگوں کا گزر بسر کھیتی باڑی پر تھا۔ چونکہ گھر خشکابہ یا بارانی علاقوں میں واقع تھے اس لیے آبادیاں بھی گھنی نہیں تھیں۔ پینے کا پانی کنویں اور دستی پمپوں سے حاصل کیا جاتا۔ موسمی اعتبار سے کنویں سوکھ بھی جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہوجاتا۔ زلزلے کے بعد پانی کے متعدد وسائل کو نقصان پہنچا جنہیں فوری مرمتی کاموں کی ضرورت تھی۔

پڑھیے: جب غریب کو قرض نہیں مل سکتا تو وہ اپنا گھر کیسے بنائیں گے؟

تکنیکی مدد اور تعمیراتی مٹیریل کی فراہمی کے لیے سب سے زیادہ مستحق گھرانوں کو منتخب کیا گیا۔ ایسے گھرانوں کی نشاندہی کے لیے گاؤں کے بڑوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کے لیے دیہاتیوں کو مدعو کیا گیا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہر دیہات نے روزمرہ کے معمولات سے نمٹنے کے لیے اسکول ٹیچر کو منتخب کیا۔ یوں ظاہر ہوا کہ بلوچستان کے نہایت غریب لوگوں نے نہ صرف تعلیم بلکہ تعلیم دینے والوں کو فوقیت دی۔ اداروں کی سپورٹ میں متاثرہ دیواروں اور چھت کے ڈھانچوں کے لیے سادہ ڈیزائن کی تیاری شامل تھی۔ جس کے لیے مستحقین کو اسٹیل بیم، بانس، پلاسٹک کی چٹائیاں، ریف میٹس اور رسیاں فراہم کی گئیں۔

آبادیوں کی خدمت کے لیے آرکیٹیکٹس اور تکنیکی ماہرین پر مشتمل سپورٹ ٹیم بھی سائٹ پر موجود رہی۔ انہوں نے مقامی آبادی کے افراد کو تعمیراتی کاموں کے حوالے سے تربیت دینے میں مدد فراہم کی اور انہیں مفید مشورے بھی دیے۔ 3 ماہ کے ریکارڈ عرصے میں 125 گھروں کی تعمیر مکمل ہوگئی۔ علاوہ ازیں 18 واٹر سپلائی کی اسکیموں کو بحال کردیا گیا۔ اس منصوبے کو گرد و نواح کے مقامات تک بھی توسیع دی گئی۔

زلزلے سے متاثرہ ہرنائی سمیت دیگر علاقوں میں بھی بحالی کے کاموں کے لیے اسی طرزِ عمل کو اپنایا جاسکتا ہے۔ محدود مالی وسائل اور مناسب تکنیکی رہنمائی کے ساتھ بڑے پیمانے پر تعمیرِ نو کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کو تکنیکی مسائل اور یہ پتا لگانے میں مدد درکار ہوتی ہے کہ ترقیاتی کام کہاں اور کس نوعیت کا ہونا چاہیے۔ اس قسم کی مدد سماجی طور پر سرگرم پروفیشنلز فراہم کرسکتے ہیں جو ہمیشہ سے متعلقہ معاشرے کا حصہ رہے ہوتے ہیں۔

پڑھیے: تاریخ کے بدترین زلزلے

نہ پُرکشش مالی امداد پر مشتمل منصوبوں اور نہ ہی مہنگے غیر ملکی کنسلٹنٹس اس درجے کی مطلوبہ تبدیلی لاسکتے ہیں۔ جب مقامی آبادی تعمیراتی عمل کی نگرانی کرتی ہے تو اس طرح اجتماعی اعتماد حاصل ہوتا ہے اور بہتری کے دیگر منصوبوں کا انتظام سنبھالنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اگر کم خرچ اور سادہ طرزِ عمل کو اپنایا جائے تو سرکاری خزانے پر بوجھ ڈالے بغیر تعمیراتی کاموں کے ثمرات بلوچستان اور دیگر علاقوں کے کئی محروم علاقوں تک پہنچ سکتے ہیں۔

مختصراً یہ کہ، 125 گھروں اور 18 واٹر سپلائی اسکیموں کی مرمت/تعمیرِ نو کی مجموعی لاگت متوسط درجے کے بیورکریٹ کے لیے خریدی جانے والی ایک اسٹاف کار کی قیمت سے بھی کم ثابت ہوئی!


یہ مضمون 9 اکتوبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں