بولی وڈ کا بڑا مسئلہ اقربا پروری نہیں، نسل پرستی ہے، نوازالدین صدیقی

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2021
امید ہے اندرا تواری کو ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا جاتا رہے گا، نوازالدین صدیقی—اسکرین شاٹ/ سیریس مین فلم
امید ہے اندرا تواری کو ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا جاتا رہے گا، نوازالدین صدیقی—اسکرین شاٹ/ سیریس مین فلم

بولی وڈ کے ورسٹائل اداکار نواز الدین صدیقی نے انکشاف کیا ہے کہ بولی وڈ کا سب سے بڑا مسئلہ اقربا پروری نہیں بلکہ رنگ و نسل کی بنیاد پر لوگوں کو مسترد کرنا ہے، ’نسل پرستی‘ کے خلاف کئی سال تک جدوجہد کی اور انہیں محض چھوٹے قد اور سانولی رنگت کی وجہ سے متعدد مرتبہ مسترد کیا گیا اور ان سے دوری اختیار کی گئی۔

نواز الدین صدیقی نے حال ہی میں ’بولی وڈ ہنگامہ‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ’ایمی ایوارڈز‘ کے لیے اپنی نامزدگی پر بات کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی بولی وڈ میں اقربا پروری اور نسل پرستی جیسے موضوع پر بھی کھل کر بات کی۔

نواز الدین صدیقی نے انٹرویو میں کمرشل فلموں سمیت آرٹ فلموں اور مواد کی اہمیت پر بھی بات کی اور کہا کہ بھارت میں عام طور پر بڑے فلم ساز طاقت کا استعمال کرتے ہوئے پانچ ہزار اسکرینز پر اپنی فلم چلاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی یومیہ کمائی 20 سے 30 کروڑ روپے ہوتی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ فلموں کی کمائی کو اداکاری یا فلم کے موضوع سے نہ جوڑا جائے، کمائی کے معاملات الگ ہیں، اگر کوئی طاقتور فلم ساز 5 ہزار اسکرینز پر اپنی فلم چلائے گا تو اس کی کتے اور بلی کی کہانی بھی کروڑوں روپے کمائے گی۔

چھوٹے قد و سانولی رنگت کی وجہ سے مسترد کیا گیا—فائل فوٹو: انسٹاگرام
چھوٹے قد و سانولی رنگت کی وجہ سے مسترد کیا گیا—فائل فوٹو: انسٹاگرام

ورسٹائل اداکار کا کہنا تھا کہ اسٹریمنگ ویب سائٹس نے فلموں میں مواد کی اہمیت کو اجاگر کیا اور ’نیٹ فلیکس‘ کی وجہ سے بھارتی مواد اور اداکاروں کو عالمی سطح پر دیکھا جانے لگا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گوری رنگت؟ کبھی نہیں، نوازالدین صدیقی

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’نیٹ فلیکس‘ سمیت دیگر اسٹریمنگ ویب سائٹس کو بڑے فلم سازوں کو خود سے دور رکھنا چاہیے تاکہ مواد کی اہمیت برقرار رہے، ورنہ بڑے فلم ساز روایتی طریقوں سے مواد تیار کرنے لگیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں نوازالدین صدیقی نے واضح کیا کہ بولی وڈ کا سب سے بڑا مسئلہ اقربا پروری نہیں بلکہ رنگ و نسل کی بنیاد پر لوگوں کو مسترد کرنا ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ’نسل پرستی‘ کے خلاف کئی سال تک جدوجہد کی اور انہیں محض چھوٹے قد اور سانولی رنگت کی وجہ سے متعدد مرتبہ مسترد کیا گیا اور ان سے دوری اختیار کی گئی۔

نوازالدین صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ ’نسل پرستی‘ کے خلاف آج بھی لڑ رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ سانولی رنگت کی خواتین کو بھی اب ہیروئن بنایا جانا چاہیے۔

بولیو ڈ کا مسئلہ اقربا پروری نہیں نسل پرستی ہے، اداکار—فوٹو: فیس بک
بولیو ڈ کا مسئلہ اقربا پروری نہیں نسل پرستی ہے، اداکار—فوٹو: فیس بک

انہوں نے بتایا کہ وہ گوری اور سانولی رنگت کو معیار کے طور پر پیش نہیں کر رہے بلکہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حال ہی میں ان کی ریلیز ہونے والی فلم ’سیریس مین‘ میں ان کے ساتھ ایک سانولی لڑکی کو ہیروئن کے طور پر پیش کیا گیا، اس لیے دوسرے فلم سازوں کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔

انہوں نے ’سیریس مین‘ فلم کے ہدایت کار سدھیر مشرا کی تعریف کی اور کہا کہ انہوں نے ایک سانولی لڑکی کو ہیروئن کے طور پر پیش کیا اور انہیں اُمید ہے کہ دوسرے فلم ساز بھی ان کی ساتھی اداکارہ اندرا تواری کو ہیروئن کے طور پر کاسٹ کریں گے۔

مزید پڑھیں: نواز الدین صدیقی کے سامنے ساڑھی اتارنے کا کہا گیا: اداکارہ

انہوں نے کہا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ فلم ساز گوری لڑکیوں کی طرح سانولی یا سیاہ رنگت کی لڑکیوں کو بھی ہیروئن کے طور پر کاسٹ کریں۔

خیال رہے کہ حال ہی میں ’نیٹ فلیکس‘ پر ریلیز کی گئی نواز الدین صدیقی کی فلم ’سیریس مین‘ میں ان کے ہمراہ سانولی اداکارہ اندرا تواری نے ان کی اہلیہ کا کردار ادا کیا تھا جب کہ ان کے بیٹے کا کردار بھی سانولی رنگت کے بچے نے ادا کیا تھا۔

نواز الدین صدیقی کے ساتھ عام طور پر فلموں میں ان کی ہیروئن کے لیے سانولی اداکارہ کو ہی کاسٹ کیا جاتا رہا ہے اور ماضی میں بھی وہ مذکورہ معاملے پر بات کر چکے ہیں۔

ماضی میں نواز الدین صدیقی نے بتایا تھا کہ ان کی سانولی رنگت کی وجہ سے جہاں فلم ساز انہیں مسترد کرتے رہے ہیں، وہیں گوری رنگت کی ہیروئن بھی ان کے ساتھ کام کرنے سے معذرت کرتی رہی ہیں۔

نواز الدین صدیقی نے ماضی میں کہا تھا کہ ان کی سانولی رنگت کی وجہ سے ہی ان کے لیے فلم ساز سانولی اداکاراؤں یا پھر نئی لڑکیوں کو کاسٹ کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں