پاکستان کے مالیاتی اشاروں میں بہتری نظر آرہی ہے، آئی ایم ایف

اپ ڈیٹ 14 اکتوبر 2021
آئی ایم ایف نے حکومت کا مجموعی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 6.2 فیصد، بنیادی خسارہ جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کا تخمینہ لگایا۔ - فائل فوٹو:رائٹرز
آئی ایم ایف نے حکومت کا مجموعی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 6.2 فیصد، بنیادی خسارہ جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کا تخمینہ لگایا۔ - فائل فوٹو:رائٹرز

اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان کے اہم مالیاتی اشارے اس سال اور اس کے بعد 2026 تک بتدریج بہتر ہوں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز جاری ہونے والی اپنی ایک اہم اشاعت ’مالیاتی مانیٹر‘ میں آئی ایم ایف نے حکومت کا مجموعی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 6.2 فیصد، بنیادی خسارہ جی ڈی پی کے 0.4 فیصد اور قرض کی سطح جی ڈی پی کے تقریباً 81 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا ہے۔

یہ گزشتہ مالی سال کے دوران بہتری کو ظاہر کرتا ہے جب مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 7.1 فیصد، بنیادی خسارہ جی ڈی پی کے 1.4 فیصد اور حکومت کا قرض 83.4 فیصد تھا۔

آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ تمام اہم مالیاتی معیارات اگلے پانچ سالوں میں بہتر رجحان کو برقرار رکھیں گے جس سے مجموعی طور پر بہتر مالی پوزیشن ظاہر ہوگی۔

مزید پڑھیں: پاکستان، آئی ایم ایف کے مذاکرات میں بجلی کے نرخ، ٹیکسز بڑھانے کا معاملہ زیر غور

مثال کے طور پر فنڈ نے اگلے سال (مالی سال 2023) کے لیے مالیاتی خسارے کا تخمینہ کم کرکے جی ڈی پی کا 4.2 فیصد کر دیا۔

تاہم رواں سال کے شروع میں آئی ایم ایف نے مالی سال 2022 کے لیے 5.5 فیصد مالیاتی خسارہ اور مالی سال 2023 کے لیے 3.9 فیصد کا تخمینہ لگایا تھا۔

آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ 2026 تک ملک کا مالی خسارہ جی ڈی پی کے 3.2 فیصد تک آجائے گا جو اس سے قبل اس نے جی ڈی پی کے 2.9 فیصد بتایا تھا۔

آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں سال کے دوران پاکستان کی عوامی حکومت کا مجموعی قرض جی ڈی پی کے 80.9 فیصد پر آ جائے گا جو مالی سال 2020 میں جی ڈی پی کی 87.6 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھا، اس کے بعد گزشتہ سال 83.4 فیصد پر تھا جس کی بنیادی وجہ جی ڈی پی کے حجم میں اضافہ تھا۔

اس نے اگلے سال (مالی سال 2023) میں مجموعی حکومتی قرض کو 75.8 فیصد تک کم کرنے اور 2026 تک جی ڈی پی کے بتدریج 63.6 فیصد تک کم کرنے کا تخمینہ لگایا ہے۔

خالص قرض سے جی ڈی پی کا تناسب ادائیگیوں وغیرہ کو ایڈجسٹ کرنے کے بعد گزشتہ سال کے جی ڈی پی کے 80 فیصد ریکارڈ کرنے کے بعد رواں سال جی ڈی پی کے 74.8 فیصد تک آنے کا اندازہ لگایا گیا تھا۔

یہ اندازہ لگایا گیا کہ آئندہ پانچ سالوں میں کمی کا رجحان برقرار رہے گا جو 2026 تک جی ڈی پی کے 59.4 فیصد تک پہنچ جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف پروگرام کیلئے پاکستان کے عزم کی یقین دہانی

اسی طرح اس نے مالی سال 2023 میں جی ڈی پی کا 1.3 فیصد مثبت ہونے کا تخمینہ لگایا جو موجودہ سال کے دوران 0.4 فیصد کے بنیادی خسارے پر ہے۔

تخمینہ لگایا گیا کہ پرائمری سرپلس اگلے دو سالوں میں 1.3 فیصد رہے گا اور 2025 اور 2026 میں جی ڈی پی کے 1.4 فیصد تک تھوڑا سا بڑھ جائے گا۔

مالیاتی مانیٹر نے یہ بھی اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان کی آمدنی سے جی ڈی پی کا تناسب موجودہ سال کے دوران جی ڈی پی کے 15.4 فیصد تک بہتر ہو گیا ہے جو گزشتہ سال 14.5 فیصد تھا۔

اس نے جی ڈی پی کے 17.6 فیصد کے گزشتہ تخمینے کے بجائے اگلے چار سالوں کے لیے جی ڈی پی کے 16.6 فیصد پر ریونیو کو تبدیل ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کو ریونیو مشینری کی آمدنی کی کارکردگی کم کرنے کی محدود توقعات ہیں۔

دوسری طرف جی ڈی پی کے تناسب سے اخراجات بھی رواں سال کے دوران جی ڈی پی کے 21.6 فیصد پر بغیر کسی تبدیلی کے رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

آئی ایم ایف نے رکن ممالک کو مالی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی تجویز دی اور کہا کہ معیشتوں کو سہارا دینے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر یقینی نقطہ نظر اور عوامی مالیات کے لیے بڑے چیلنجز کے درمیان حکومتوں کو کئی محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور وبائی امراض اور معاشی پیشرفتوں اور امکانات کے لیے پالیسیاں موافق بنانے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کے ساتھ تکنیکی سطح کے مذاکرات کا انعقاد

اس نے کہا کہ مالی معاونت بتدریج بہتر ہونی چاہیے اور مالی اقدامات کا مقصد عوامی مالیات کے لیے خطرات کو کم کرنے مشتمل ہونا اور قیمتوں اور مالیاتی استحکام کو برقرار رکھنے پر ہونا چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ حکومتیں جہاں کہیں ضروری ہو ٹیکس کی آمدنی میں بتدریج اضافہ کرے اور اخراجات کی کارکردگی کو بہتر بنائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کم آمدنی والے ترقی پذیر ممالک میں یہ اقدامات نہایت ضروری ہیں کیونکہ آمدنی میں مسلسل کمی کے امکانات ہیں جو پائیدار ترقیاتی کے اہداف کے حصول کے لیے دستیاب فنانسنگ کو کم کر سکتے ہیں‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں