پی آئی اے نے جعلی دستاویزات پر بھرتی ہونے والے 1500 سے زائد ملازمین کو برطرف کردیا

اپ ڈیٹ 14 اکتوبر 2021
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کووڈ 19 نے مارکیٹ کو متاثر کیا ہے اور تقریبا 60 فیصد آپریشن رک گئے ہیں۔ فائل فوٹو:اے پی پی
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کووڈ 19 نے مارکیٹ کو متاثر کیا ہے اور تقریبا 60 فیصد آپریشن رک گئے ہیں۔ فائل فوٹو:اے پی پی

راولپنڈی: پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے جعلی دستاویزات پر بھرتی ہونے والے 1500 سے زائد ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا ہے جبکہ ایئر لائن، ای پی آئی اے ورکرز پورٹل کو شامل کرکے اپنے ہیومن ریسورس کے عمل کو آسان اور بہتر بھی بنا رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بات کا انکشاف سینیٹر ہدایت اللہ کی صدارت میں ہونے والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کے اجلاس کے دوران ہوا۔

وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے بھی اجلاس میں شرکت کی اور کمیٹی کو بتایا کہ پی آئی اے کو 2018 میں 67.4 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

مزید بتایا گیا کہ 2020 میں 94 ارب 98 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی اور آپریشنل نقصانات 68 کروڑ روپے تھے۔

کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ کووڈ 19 نے مارکیٹ کو متاثر کیا ہے اور تقریباً 60 فیصد آپریشن رک گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: 2020 میں پی آئی اے کا آپریشنل خسارہ کم ہوکر 68 کروڑ روپے رہ گیا

پی آئی اے کے نمائندے نے کہا کہ ایئرلائن نے ایئربس سے 41 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی وصولی کی جو گزشتہ حکومتوں نے نہیں کی تھی اور ایئر ایشیا کے ساتھ 40 لاکھ ڈالر کا دعویٰ بھی حل کیا۔

بتایا گیا کہ ایئر لائن لاہور، کراچی، فیصل آباد، سیالکوٹ اور ملتان سے گلگت کے لیے نئے روٹس متعارف کروا کر سیاحت میں اضافہ کر رہی ہے اور سفارتکاروں کے لیے شنگریلا ہوٹلز کے اشتراک سے ایئر سفاری فلائٹ بھی شروع کی ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی آئی اے 2022 اور 2023 کے لیے تربیتی لاگت کو کم کرنے کے لیے ایک سِمیولیٹر شامل کر رہی ہے اور زیادہ تر تجارتی سرگرمیوں کے لیے انجینئرنگ ایم آر او کے منصوبوں کو بھی نافذ کر رہی ہے۔

اجلاس میں پی آئی اے کی ملکیتی جائیداد سے متعلق معاملہ بھی زیر بحث آیا تاہم ایئرلائن حکام نے اس پر اِن کیمرہ اجلاس کی درخواست کی۔

پی آئی اے حکام نے بتایا کہ جائیداد پر کسی نے قبضہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے اسے منسلک کیا ہے اور کیس زیر سماعت ہے اور ابھی تک کسی حتمی فیصلے کا اعلان نہیں کیا گیا۔

اجلاس میں پی آئی اے پر یورپی یونین کی جانب سے عائد کردہ پابندی پر بھی بات کی گئی۔

ایئرلائن حکام نے کہا کہ پابندی ختم ہونے میں تاخیر بین الاقوامی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) کے آڈٹ میں تاخیر کی وجہ سے ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: ‘پی آئی اے کے ذریعے 1400 سے زائد افراد کو کابل سے پاکستان لایا گیا’

آئی سی اے او نے جولائی 2021 میں آڈٹ کا اعلان کیا تھا جو کووڈ 19 کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا تھا۔

آئی سی اے او نے اب اعلان کیا ہے کہ آڈٹ 29 نومبر سے 10 دسمبر تک کیا جائے گا اور یورپی یونین کے لیے پروازوں کی بحالی آڈٹ کے بعد ہوگی۔

پی آئی اے حکام نے کہا کہ یہ ایک قومی ایجنڈا ہے اور کمیٹی سے اس سلسلے میں سفارشات حکومت کو بھیجنے کی درخواست کی۔

کمیٹی نے پی پی آر اے قواعد پر بھی تبادلہ خیال کیا جس کی وجہ سے طیاروں کی خریداری میں تاخیر ہوتی ہے۔

اس کا مؤقف تھا کہ یا تو پی پی آر اے کے قواعد میں ترمیم کی جا سکتی ہے یا پی پی آر اے کی مشاورت سے ایسا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے تاکہ طیاروں کی خریداری میں تاخیر نہ ہو۔

سینیٹر سلیم مانڈی والا نے کہا کہ اگر پی پی آر اے کے قواعد پر عمل کریں تو پی آئی اے کو کبھی طیارہ نہیں ملے گا، انہوں نے کہا کہ یہ صرف طیاروں کے لیے نہیں بلکہ انجنز اور کارگو کے لیے بھی ہے۔

کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ پشاور سے لاہور کی پروازیں رواں ماہ سے ہفتے میں دو بار کے لیے بحال کی گئی ہیں، اسلام آباد سے ملائیشیا کے لیے پروازیں بھی بحال کر دی گئی ہیں جو پہلے لیز کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بند کر دی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کا رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لینے والے ملازمین کو واجبات ادا کرنے کا اعلان

پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے اس وقت کے خصوصی اسسٹنٹ کی جانب سے خاتون افسر کو ہراساں کرنے کے حوالے سے سامنے آنے والے معاملے میں سفارش پر عمل درآمد نہ کرنے کے حوالے سے پی آئی اے حکام نے وضاحت کی کہ اگر انہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ ملتا ہے تو وہ اس حوالے سے متعلقہ محکمے واپس بھیج دیا جائے گا۔

وزیر ایوی ایشن غلام سرور خان نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ ان کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے گا اور عہدیدار کو آئندہ اجلاس سے قبل واپس بھیج دیا جائے گا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ 262 پائلٹس کے تمام دستیاب ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی ہے۔

وفاقی کابینہ نے 50 پائلٹس کے لائسنس منسوخ کردیے ہیں سوائے 7 کے جنہوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے، 32 پائلٹس کے لائسنس چھ سے 12 ماہ کی مدت کے لیے معطل کیے گئے، اس کے علاوہ 42 پائلٹس نے ایف ڈی ٹی ایل کی خلاف ورزی کی جن کے ساتھ قواعد کے مطابق نمٹا گیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایئر لائنز کے ساتھ تعاون کے اعداد و شمار کی بنیاد پر باقی لائسنس درست پائے گئے۔

کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے 6 ملازمین کے خلاف پائلٹس کو پراکسی کے ذریعے پیش ہونے کی سہولت دینے، امتحانات کا انعقاد مقررہ تاریخ اور وقت پر سے ہٹ کر عام تعطیلات اور دفتری اوقات کے بعد کرنے کے الزام میں انضباطی کارروائی شروع کی دی گئی ہے۔

کابینہ کے فیصلے پر دو ملازمین معطل اور چار کو برطرف کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں