لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے 100 فیصد حاضری کے ساتھ تعلیمی ادارے دوبارہ کھولنے کا اعلان کردیا ہے اور ساتھ ہی ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت بھی کی ہے۔ این سی او سی کی اس ہدایت نے تعلیمی اداروں کے لیے دلچسپ اور پیچیدہ مسائل پیدا کردیے ہیں۔

اب جب تمام طلبہ اسکول آئیں گے تو سماجی فاصلے پر عمل کیسے ممکن ہوسکے گا؟ ہماری یونیورسٹی میں ہم نے ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے کمرہ جماعت کی 50 فیصد گنجائش کا استعمال شروع کردیا تھا۔ اب ہم سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے 100 فیصد طلبہ کو کیسے بٹھائیں گے؟ ہم کورسز اور/یا سیکشنز کو دگنا تو نہیں کرسکتے۔ ہم تمام جماعتوں کو مختصر بھی نہیں کرسکتے۔ اینٹ اور سیمنٹ سے بنے کمرہ ہائے جماعت کو بڑا یا چھوٹا بنانا بھی ہمارے بس میں نہیں۔ اگر ایس او پیز پر مؤثر انداز میں عمل درآمد یقینی بنانا ہے تو 100 فیصد طلبہ کو کس طرح تعلیمی اداروں میں بٹھایا جائے؟

مسئلہ صرف کمرہ جماعت تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہی چیلنج اسکول کی دیگر جگہوں پر بھی صادق آتا ہے۔ ہمارا جمنازیم مخصوص افراد کی گنجائش کو مدِنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اگر ہم فاصلے کی پابندیاں نافذ کرتے ہیں تو طلبہ، اساتذہ اور عملے کی ضروریات کو کیسے پورا کریں گے؟

ہمارے کیفے ٹیریا بھی ایک خاص انداز اور محدود لوگوں کی گنجائش کو ذہن میں رکھ کر تعمیر کیے گئے تھے۔ اب فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے ہم کس طرح لوگوں کی ناشتہ، دوپہر اور رات کے کھانے کی ضروریات کو پورا کرسکیں گے؟

ہم دیگر عمارتوں میں نئے کیفے ٹیریا اور ریسٹورینٹ کھول چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے سماجی فاصلے کا خیال رکھتے ہوئے محدود افراد کے لیے چار دیواری سے باہر (آوٹ ڈور) بیٹھنے کی جگہ بھی بنائی ہے۔ مگر یہ طریقہ کار بھی ایک حد تک ہی اختیار کیا جاسکتا ہے۔

پڑھیے: ویکسین یا لاک ڈاؤن: حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟

ہمارے ہاں کُھلے یا اوپن ایئر کمرہ ہائے جماعت بھی ہیں۔ مگر لاہور میں موسم کی صورتحال اور ڈینگی و اسموگ کے خطرے کو مدِنظر رکھیں تو کھلی جگہوں پر کس حد تک تدریسی سرگرمی منتقل کی جاسکتی ہے؟ محدود اوقات میں طلبہ کی محدود تعداد کو ہی پڑھایا جاسکتا ہے۔ ہم نے کُھلی فضا میں بیٹھنے کی عام جگہوں کی تعداد میں مزید اضافہ کیا ہے مگر بات پھر وہی آتی ہے کہ یہ کام ایک مخصوص حد تک ہی انجام دیا جاسکتا ہے اور اگر فاصلہ اور دیگر ایس او پیز پر عمل کیا جائے تو یہ مخصوص حد بلاشبہ ضرورت سے کافی کم ہے۔

لائبریری کا مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ جب اسکول کھلیں گے تو طلبہ کو لائبریری میں مطالعے کی ضرورت بھی پیش آئے گی اور انہیں وسائل تک رسائی کی بھی ضرورت ہوگی۔ ہم ان کی ضروریات کو کیسے پورا کرپائیں گے؟ ہر کتاب یا مضمون یا تحریر آن لائن اور ڈیجیٹل صورت میں دستیاب تو ہے نہیں۔ پھر طلبہ کو بیٹھنے اور مطالعے کے لیے جگہ درکار ہوگی۔ اگر لائبریری میں انہیں جگہ فراہم نہ کی جاسکی تو وہ کہاں جائیں گے؟

یونیورسٹیوں اور اسکولوں کے لیے اب ضروری ہے کہ وہ اداروں میں وینٹیلیشن کا نظام قائم کریں۔ اس کے علاوہ کمرہ جماعت میں ایسی کھڑکیوں کا ہونا بھی ضروری ہے جو کھل سکیں اور جہاں سے ہوا کا آمدو رفت ممکن ہو۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ان کاموں کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کیونکہ مذکورہ بالا چند تبدیلیوں کو انجام دینے میں اچھی خاصی رقم پہلے ہی خرچ ہوچکی ہے۔ ملک میں کتنی ایسی یونیورسٹیاں اور کتنے ایسے اسکول ہیں جو یہ تبدیلیاں کرسکتے ہیں؟ اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ان کی مالی حالت کافی تنگ ہے۔

ملک میں ایسی بھی یونیورسٹیاں ہیں جو تنخواہ اور پینشن دینے میں دشواری کا سامنا کر رہی ہیں۔ وہ تمام طلبہ کے لیے ایس او پیز کے تقاضوں کے مطابق گنجائش پیدا کرنے کے لیے کتنا پیسہ خرچ کرسکتی ہیں؟ حتیٰ کہ جن تعلیمی اداروں کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے وہ بھی ایک حد تک ہی تبدیلیوں کو انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر طلبہ کے لیے ایس او پیز کے مطابق گنجائش پیدا نہیں کی جاتی تو یا ہمیں طلبہ، اساتذہ اور عملے کی صحت یا پھر تعلیم اور تعلیمی تجربے کے معیار سے سمجھوتا کرنا پڑجائے گا۔

پڑھیے: بچوں کو ابتدائی تعلیم کس زبان میں دیں؟

ہوسٹل کی گنجائش کا مسئلہ تو مزید پیچیدہ ہے۔ ایک کمرے میں ایک طالب علم کو ٹھہرانا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ اس طرح زیادہ تر طلبہ اور ان کے والدین کے لیے ہوسٹل اخراجات ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ جائیں گے۔ لیکن اگر ایک کمرے میں 2 یا 3 طالب علموں کو ٹھہرایا جاتا ہے تو اس طرح فاصلے اور ایس او پیز پر عمل درآمد کیسے ممکن بنایا جاسکے گا۔ ہم یہ امرِ ناممکن کیسے انجام دیں؟

ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ تعلیمی اداروں میں ان تقاضوں کو کب تک پورا کرتے رہنا ہوگا، اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہمیں نہیں پتا کہ اگلے سالوں میں مزید کتنی لہریں اور وائرس کے کتنے نئے اقسام سامنے آئیں گے؟ کیا ایس او پیز معمولِ زندگی بن جائیں گے؟ کیا ان پر مختصر سے طویل دورانیے تک عمل درآمد جاری رکھنا ہوگا؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں تعلیم کی فراہمی کے موضوع پر مختلف زاویے سے غور وفکر کرنا پڑے گا۔

ہمیں آن لائن اور مرکبی نظام مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کے بارے میں سوچ بچار کی ضرورت پڑے گی اور ہمیں آلات، تعلیمی طریقہ کار اور دیگر سہولیات کو بہتر بنانے پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ اگر ماسک پہننا، سماجی فاصلہ برقرار رکھنا اور کمرہ جماعت میں کم حاضری معمول کا حصہ بن جاتے ہیں تو ہمیں اپنی گنجائش، عمارتوں، کمرہ ہائے جماعت، کیفے ٹیریا، لائبریریوں، دفاتر اور جمنازیم کو ازسرِ نو ڈیزائن کرنے پر غور کرنا پڑے گا۔ اگر ہر چیز میں تبدیلی کرنی پڑی تو ان تبدیلیوں پر آنے والی لاگت کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوجائے گا۔

اگر 'نیا معمول' کچھ عرصے کا مہمان ہے تو بھی ہمیں اگلے چند سالوں کے دوران مطلوبہ تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے موجودہ انتظامات سے بہتر انتظامات کرنے ہوں گے۔ طلبہ کی نصف تعداد کو گھر پر رہنے کے لیے کہنا یا چند طلبہ کو ہوسٹلز میں کمرہ دینے سے انکار کردینے جیسے اقدامات مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ یہ اقدامات اب تک تو مفید ثابت ہوئے ہیں لیکن اگر ہم ان اقدامات پر مسلسل عمل جاری رکھتے ہیں تو اس طرح ہمارے طلبہ کی پڑھائی کا معیار گر سکتا ہے۔

پڑھیے: وہ عظیم اساتذہ، جن کی خدمات پر کبھی کسی نے بات نہیں کی!

متعدد تعلیمی اداروں کے لیے تو مذکورہ بالا مسائل کے بارے میں سوچنا بھی محال ہوگا۔ ہم نامعلوم و بے نشان مقام پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ چونکہ ہمارے پاس نقشے بھی نہیں اس لیے ہمیں کوئی جگاڑ لگا کر ہی مشکل سے نکلنا پڑے گا، اور کئی اسکول اور یونیورسٹیاں تقریباً 18 مہینوں سے اب تک یہی کر رہی ہیں۔

اس دوران ہم سے کئی غلطیاں بھی ہوئیں اور ہم نے چند غلطیوں سے سبق بھی حاصل کیا ہے۔ مارچ 2020ء میں جب ہم نے آن لائن پڑھائی کا عمل شروع کیا تھا اس کے مقابلے میں آج ہم زیادہ بہتر انداز میں آن لائن تعلیم دینا جانتے ہیں۔ ہم مواد، درسی آلات، درسی مٹیریل اور امتحانات کے طریقہ کار کو وقت و حالات کے مطابق ڈھال چکے ہیں۔ ہم نے تعلیمی نقصان پر بھی کام کرنا شروع کردیا ہے۔ لیکن دیگر بالخصوص ایس او پیز پر عمل درآمد اور کورونا کی نئی لہروں کے منڈلاتے خطرے کے باوجود تعلیمی اداروں کو کھولنے سے متعلق مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس معاملے پر مختلف زاویوں سے غور وفکر کرنا ضروری ہے۔

حکومت کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور محکمہ ہائے تعلیم کے ذریعے اداروں کی معاونت کرے تاکہ ہم اپنے محدود وسائل کے ساتھ ان مسائل کا بہتر حل تلاش کرنے کے ساتھ ان پر عمل درآمد بھی کرسکیں۔


یہ مضمون 15 اکتوبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں